شیرو کو کیوں نکالا؟


کل اچانک ایک نیوز چینل پر ٹکر چلے کہ عمران خان نے شیرو کو گھر سے نکال دیا ہے اور سوشل میڈیا پر اس تہلکہ خیز خبر سے ایک طوفان برپا ہو گیا۔ عمران خان کتوں سے محبت کرتے ہیں کیونکہ سیانے کہہ گئے ہیں کہ انسان کا بہترین دوست کتا ہوتا ہے۔ خواجہ سگ پرست کی کہانی ہماری روایت کا ایک حصہ ہے جس میں خواجہ صاحب کے اپنے سگے بھائی ان کی جان کے دشمن بنے تھے لیکن کتا ہر مرتبہ ان سے وفاداری نبھا کر جان بچا لیتا تھا۔ شاید عمران خان صاحب کو بھی عزیزوں نے خوب ستایا ہو گا اس لئے وہ لاہور میں اپنا آبائی گھر چھوڑ کر سینکڑوں میل دور مارگلہ کی پہاڑیوں میں جا بسے اور ادھر ان کے قریب ترین رفیق یہی وفادار کتے تھے۔ اس تناظر میں یہ بات ناقابل یقین تھی کہ خان صاحب نے شیرو کو گھر سے نکال دیا۔ لیکن ذی شعور لوگ جانتے ہیں کہ اس کی کوئی بڑی وجہ ہی ہو گی۔ خان صاحب جلد باز نہیں ہیں اور سوچ سمجھ کر ہی ہر کام کرتے ہیں۔ ہم نے صورت حال کا تجزیہ کیا ہے اور اب یہ بتا سکتے ہیں کہ شیرو کو کیوں نکالا۔

لیکن پہلے اس کے پس منظر اور خان صاحب کی سیاسی جدوجہد کا کچھ بیان ہو جائے۔ سنہ 2011 میں مینار پاکستان کے جلسے نے تخت لاہور پر قابض شریف خاندان کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ لاہور سے پیپلز پارٹی کا مکمل طور صفایا کرنے کے بعد اور سنہ 1985 سے پنجاب حکومت کے افسران اور عمومی و زرعی اہلکاروں کی اپنے ہاتھ سے بھرتی کے بعد اب وہ پنجاب میں ناقابل شکست ہو چکے ہیں۔ لیکن خان صاحب کے اس جلسے نے ان کی خام خیالی کو کاری ضرب لگائی اور وہ اپنی سیاسی بقا کے خوف سے لرزنے لگے۔ اس کے بعد انہوں نے وہی کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ سازشیں اور پروپیگنڈا۔

دکھائی یہ دے رہا ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف میں تیزی سے اپنے ایجنٹ شامل کرنے شروع کر دیے جو بظاہر عمران خان کے پرانے وفاداروں سے بڑھ کر وفادار تھے لیکن درحقیقت وہ شریف خاندان کے لئے کام کر رہے ہوں گے۔ آپ خود ملاحظہ کر لیں کہ 2011 کی تحریک انصاف کی لیڈر شپ میں کون کون تھا اور اب کون ہے۔ اس کے بعد ایک حیرت انگیز چیز دیکھنے میں آئی۔ 2013 کے انتخابات میں پنجاب سے بالعموم اور لاہور سے بالخصوص مسلم لیگ ن کا صفایا یقینی تھا مگر تحریک انصاف کو بمشکل ایک سیٹ ملی۔ اس کے بعد ضمنی انتخابات میں بھی تحریک انصاف عموماً شکست کھاتی رہی۔ ایک موقع پر تو مایوسی کے عالم میں خان صاحب نے بیان دیا کہ جب بھی ہم شریف خاندان کی دھاندلی کے طریقے کا توڑ کرتے ہیں تو اگلے الیکشن میں وہ نیا طریقہ لگا کر جیت جاتے ہیں۔

سوال یہ تھا کہ تحریک انصاف کی یہ خفیہ حکمت عملی مسلم لیگ ن تک کیسے پہنچ رہی تھی؟ ہمارے تجزیے کے مطابق عمران خان صاحب کے قریبی لوگوں میں تو شریف خاندان اپنے ایجنٹ داخل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا مگر نہایت قابل اعتماد لوگوں سے کی جانے والی مشاورت کیسے شریف خاندان تک پہنچتی تھی؟ سرتوڑ کوشش کے باوجود عمران خان یہ معلوم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ سنا ہے کہ بنی گالہ کی کئی مرتبہ مکمل تلاشی لی گئی مگر ایسا کوئی سراغ نہ ملا کہ ادھر بگنگ کر کے مشاورت ریکارڈ کی جا رہی ہو۔ نتیجہ یہ کہ عمران خان پے در پے انتخابی شکستیں کھاتے رہے۔ جس جنگ کا مکمل منصوبہ دشمن کے پاس پہنچ جائے وہ کیسے جیتی جا سکتی ہے؟

جب سائنس فیل ہو جائے تو روحانیت کام آتی ہے۔ جہاں عقل کی حد ختم ہو جائے تو پھر ہی روحانی مظاہر کا ظہور ہوتا ہے۔ خان صاحب نے روحانیت کے دربار میں یہ سوال ڈالا تو جو جواب آیا وہ حیرت انگیز تھا۔ حکم ہوا کہ شیرو کو گھر سے نکال دو۔ ہم نام یاد رکھنے میں کاہل ہیں۔ خان صاحب کے مشہور ترین کتے کا نام شیرو تھا اس لئے ہم ان کے تمام کتوں کو شیرو ہی سمجھتے ہیں۔

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ریحام خان سے جب خان صاحب کے تعلقات کشیدہ ہوئے تو صحافیوں تک ان کے بیڈ روم کی خبریں کیسے پہنچیں؟ یہ کیسے پتہ چلا کہ تعلقات خراب ہیں؟ یہ خبر کس بنیاد پر دی گئی کہ ریحام خان تشدد کی طرف مائل ہیں؟ خان صاحب سے سو اختلاف سہی، ان کی بدزبانی سے لوگ ہزار مرتبہ شاکی ہوں، مگر ان کی اس بات کی تعریف دشمن بھی کرتے ہیں کہ عورت کا معاملہ ہو تو ان کی زبان بند رہتی ہے اور وہ بڑے سے بڑا الزام بھی اپنے سر پر لے کر عورت کی عزت کا تحفظ کرتے ہیں۔ پھر اس جگہ کی خبریں صحافیوں تک کون پہنچا رہا تھا جہاں ریحام خان اور خان صاحب کے علاوہ کوئی دوسرا انسان موجود نہیں تھا؟ خان صاحب اپنی زبان بند رکھتے ہیں۔ تو کیا ریحام خان نے یہ خبریں میڈیا کو دی تھیں؟ یہ ناممکن امر ہے۔ پھر کون یہ خبریں دے رہا تھا؟

جواب ہے شیرو۔ ہمارے ذرائع کے مطابق شیرو نامی یہ کتا خان صاحب کے ایک مبینہ دوست نے ان کو تحفے میں دیا تھا۔ اس کی ٹریننگ ایسی تھی کہ وہ دن رات خان صاحب کے ساتھ رہتا۔ خواہ آرام کا وقت ہو یا پارٹی میٹنگ کا یا قریبی پارٹی حلقے سے مشاورت کا، شیرو ہر وقت موجود ہوتا۔ اور وہ یہ خبریں دشمنوں تک پہنچاتا تھا۔ بظاہر یہ بات حیرت انگیز لگے گی لیکن سائنس اور ایلومیناٹی کی دنیا پر نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ عین ممکن ہے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” پر کلک کریں

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar