چار تقریریں، پتھر کا چہرہ، کچھ آنسو اور بھٹو


میری عمر کوئی سات سال کی ہو گی۔ سیاست سے میرا پہلا تعارف ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کی سکرین کے راستے ہو رہا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر لگتی تو سارا گھر مسحور ہو کر بیٹھ جاتا۔ لطف کی بات یہ تھی کہ امی ابو دونوں بھٹو کے سیاسی مخالف کیمپ میں تھے۔ ابو ہر وقت بھٹو اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کرتے اور امی بھٹو کے مظالم پر نالاں نظر آتی۔ پر مجال ہے کہ بھٹو کی تقریر کبھی ان سے چھوٹی ہو۔ مجھے تقریر کے الفاظ کم سمجھ آتے پر بھٹو کا انداز بہت دل جو تھا۔ بھٹو کی کتنی ہی تقریریں میں نے یاد کر لی تھیں۔ اکثر میز کے اوپر چڑھ کر بھٹو کے ہی انداز میں ہاتھ لہرا کر میں وہ تقریریں دہراتا۔

مجھے دو تقریریں بہت پسند تھیں۔ پہلی وہ جس میں بھٹو صاحب کہتے ” میں پاکستان کے غریبوں کے حقوق کے لیے اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہوں، میں اپنے بیٹے بیٹی کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوں، میں اپنے مرتضی کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوں، میں اپنے شاہنواز کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوں، میں خود غریب کا بیٹا ہوں کیونکہ میں نے محنت کی ہے، یہ میرا ارادہ ہے اگر مجھے موت کا بھی مقابلہ کرنا پڑے، میں موت کا مقابلہ کروں گا“ کون جانتا تھا کہ بھٹو کی تقریر میں ہاتف غیبی کی صدا تھی۔ کیا بھٹو، کیا مرتضی، کیا شاہنواز، کیا بے نظیر۔ کوئی بھی سلامت نہیں رہا۔ کیا اس وقت بھٹو دیوار کے پیچھے دیکھ رہے تھے؟ یہ سوال آج بھی مجھے تنگ کرتا ہے۔

دوسری تقریر اس سے بھی زیادہ پرجوش تھی۔ اور میری پسندیدہ بھی کہ اس میں میرے لیے اداکاری اور صدا کاری کے مواقع سوا تھے۔ میں نے یہ تقریر حفظ کر لی تھی اور جب موقع ملتا، اسے بھٹو کے رنگ میں ادا کر کے پھولے نہ سماتا۔ ساتھ ہمنوائی کے لیے کبھی محلے کے بچے ہوتے کبھی میرے اپنے اماں ابا کیونکہ یہ تقریر کم، مکالمہ زیادہ تھا۔ اصل تقریر کے آخر میں بھٹو کے بار بار ہاتھ مارنے سے مائیک بکھر گئے تھے۔ میرے پاس مائیک تو تھے نہیں تو کبھی میں کوئی ڈنڈا، کبھی کوئی بلا، کبھی کوئی جھاڑو پکڑ لیتا اور بھرپور جوش میں تقریر کے اختتامی الفاظ میں اسے زمین بوس کر دیا جاتا۔ بھٹو صاحب کہتے

” یہ قوم ایک عظیم قوم بنے گی، یہ قوم دنیا کا لوہا بنے گی، قبول ہے آپ کو، اس قوم کو دنیا کا لوہا بنائیں گے، تو خدمت کرو گے؟ “
اور ہزاروں کا مجمع یک زبان ہو کر کہتا ” کریں گے“
بھٹو صاحب آگے بڑھتے ” محنت کرو گے“
جواب آتا ” کریں گے“
” لڑو گے“
”لڑیں گے“ سب پکار اٹھتے

”مرو گے“
سب سرفروش بولتے ” مریں گے“
” اور جدوجہد کرو گے۔ ایمان سے کرو گے“
”کریں گے“
”خدا کی قسم کرو گے“ اور مجمع گویا دیوانہ ہو جاتا۔

یہ وہ دن تھے جب بھٹو صاحب کے خلاف حزب اختلاف کی تحریک زوروں پر تھی۔ پاکستان نیشنل الائنس کے نو ستارے تحریک نظام مصطفے کے نعرے کو لے کر بھٹو صاحب کے خلاف میدان میں تھے۔ سمن آباد میں ہمارے گھر کے قریب پی این اے کا ذیلی دفتر تھا جہاں ابو کے بہت سے دوست بیٹھا کرتے۔ اکثر شام کو ابو وہاں جاتے۔ کبھی کبھی میں بھی ان کے ہمراہ ہو لیتا۔ کمال یہ تھا کہ ہر دفعہ ان کے دوستوں کی ایک ہی فرمائش ہوتی کہ میں بھٹو صاحب کی تقریر کر کے سناؤں۔ تحریک نبی کے نام پر تھی اور بھٹو صاحب ان کے لیے کافر سے کم نہ تھے پر سب ان کی شعلہ بیانی کے مداح تھے۔ مجھے سیاست کی کیا سمجھ تھی۔ میں اس پر خوش ہوتا کہ اپنی اعلی تقریری صلاحیت کے اظہار کا راستہ ملتا دکھائی دیتا۔ مجھے ایک میز پر کھڑا کر دیا جاتا۔ میں بھٹو کے انداز میں تقریر کرتا۔ پوچھتا ” مرو گے“ تو پی این اے کے پرجوش ورکر یک زبان ہو کر چلاتے ” مریں گے“۔ اس کے بعد تالیاں بجتیں۔ کبھی کوئی صاحب مال ہوتا تو انعام میں ایک آدھ روپیا بھی ملتا۔ بھٹو صاحب کے طفیل ان کے بدترین مخالفین میری واہ واہ کرتے۔ پھر سب اپنے اپنے کام میں لگ جاتے۔

بھٹو کی تیسری مختصر تقریر پر بھی میں پورا منظر نامہ تخلیق کرتا۔ یہ تقریر اس وقت پرانی ہو چکی تھی پر اسے دیکھنے اور سننے کا موقع کبھی کبھی مل جاتا۔ یہ وہ مشہور جذباتی تقریر تھی جو بھٹو صاحب نے سلامتی کونسل میں سقوط ڈھاکہ سے ایک روز قبل کی تھی۔ اس تقریر کے اختتام پر مبینہ طور پر انہوں نے پولینڈ کی قرارداد پھاڑ ڈالی تھی اور عوام کے ہیرو بن گئے تھے۔ عوام کو بھٹو کا وہ رنگ بہت بھایا جب اقوام عالم کے سامنے وہ تن کر کھڑے ہو گئے۔ انگریزی میں کی گئی تقریر میں بھٹو نے کہا۔

”کل میرے گیارہ سالہ بیٹے نے پاکستان سے مجھے فون کر کے کہا کہ کسی ایسی دستاویز کو لیے وطن مت لوٹیے گا جسمیں ہتھیار ڈالنے کی بات ہو۔ تو جناب، میں سیکیورٹی کونسل میں ہتھیار ڈالنے نہیں ایا۔ میں جارحیت کو قانونی رنگ دینے کے عمل کا حصہ نہیں بن سکتا۔ سلامتی کونسل ناکام ہو گئی ہے۔ چار دن سے آپ معاملہ کھینچ رہےہیں۔ کیوں؟ تاکہ ڈھاکہ کا سقوط ہو جائے۔ میں جانتا تھا یہی مقصد ہے پر میں بتا دوں کہ کیا ہو گا اگر ڈھاکہ چھن جائے۔ کیا ہو اگر پورا مغربی پاکستان بھی چھن جائے۔ کیا ہو اگر ہم صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیے جائیں۔ ہم ایک نیا پاکستان بنائیں گے۔ ہم ایک بہتر پاکستان بنائیں گے۔ ہم ایک عظیم تر پاکستان بنائیں گے۔ آپ ہتھیاروں سے ہماری آواز دبا نہیں پائیں گے۔ آپ کا جو دل کرتا ہے کریں۔ آپ اپنا فیصلہ ہم پر مسلط نہیں کر سکتے۔ میں اسے اپنی توہین اور اپنے عوام کی بے قدری گردانتا ہوں اگر میں ایک لمحہ بھی اور یہاں رکوں۔ ہم واپس جارہے ہیں۔ ہم واپس جائیں گے اور لڑیں گے۔ میں اپنا وقت سلامتی کونسل میں اور ضائع نہیں کروں گا۔ میں جا رہا ہوں“

اس کے بعد انہوں نے کچھ کاغذات کے پرزے پرزے کر کے ہوا میں اچھالے اور سلامتی کونسل کے اجلاس کو چھوڑ کر نکل ائے۔ آج تک یہ بحث ہے کہ کیا انہوں نے پولینڈ کی قرارداد پھاڑی تھی یا محض اپنے نوٹس۔ بہرحال ایک ہی دن بعد تمام دعووں کے باوجود افواج پاکستان کو ڈھاکہ میں ہتھیار پھینکنے پڑے۔ اتنے بڑے سانحے سے بھی بھٹو ملزم نہیں، ہیرو بن کر نکلے۔ یہ کمال وہی کر سکتے تھے۔

بھٹو صاحب کی چوتھی تقریر کے آخری جملے میں صرف اس وقت دہرا سکتا تھا جب گھر والے اس پاس نہ ہوتے۔ بنگلہ دیش کے بن جانے کے بعد اور اسلامی سربراہی کانفرنس سے قبل بھٹو صاحب نے بنگلہ دیش کو دعوت دینے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی غرض سے ایک بہت بڑے مجمعے میں بنگلہ دیش کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے گیند عوام کے کورٹ میں ڈالی اور شاید زندگی میں پہلی دفعہ انہیں شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا جب ان کی تجویز کو جلسے کے حاضرین نے نہیں نہیں کے نعرے لگا کر مسترد کر دیا۔ بھٹو صاحب نے دو بار کوشش کی کہ لوگوں کے منفی جذبات کو سرد کر سکیں پر جب دال نہ گلی تو عوام کی نبض پہچاننے والے بھٹو صاحب بھی انہی کے ساتھ مل گئے۔

” منظور ہے۔ نہیں۔ نہیں نہیں۔ اچھا ٹھیک ہے۔ اگر منظور ہے تو ٹھیک ہے۔ اگر نہیں منظور ہے تو جہنم میں جائیں۔ ( یہ اشارہ بنگلہ دیش کی طرف تھا )۔ تو پھر جہنم میں جائیں۔ جہنم میں جائیں۔ اچھا ٹھیک ہے۔ آپ کی بات مان لی۔ آپ کی بات۔ بیٹھ جاؤ۔ بیٹھ جاؤ۔ سن لو۔ سن لو۔ بیٹھ جاؤ۔ یہ طریقے نہیں ہیں۔ اچھا۔ اب سنو۔ میں کہتا ہوں۔ اس سے بڑی کون سی زیادتی ہو سکتی ہے۔ اچھا۔ آپ کی بات مان لی۔ نامنظور۔ نامنظور۔ جہنم میں جائیں۔ سور کے بچے۔ جہنم میں جائیں“

یہ انتہائی دل چسپ منظر تھا جب دو منٹ کے اندر اندر بنگلہ دیشی، مسلمان بھائی اور آزادی کی جنگ کے ساتھی سے جہنمی اور سور کے بچے بن گئے پر بھٹو صاحب جانتے تھے کہ یہ اصرار کا وقت نہیں ہے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس بھی ہوئی اور بنگلہ دیش نے اس میں شرکت بھی کی۔ بھٹو صاحب آخر میں ایک دفعہ پھر فتحیاب ٹھہرے۔

بھٹو صاحب کی فتوحات کے ساتھ ساتھ سیاسی ناکامیوں اور غلطیوں کی داستان بھی طولانی تھی جس کی قیمت انہیں جان دے کر چکانی پڑی۔ پر مجھے بچپن میں یہ سمجھ نہیں تھی۔ میری بچپن کی یادوں میں بھٹو کا سیاسی تجزیہ کہیں نہیں دھرا۔ میرے بچپن میں بھٹو بس میرا ہیرو تھا۔ میں نے بھٹو سے تقریر کرنے کا فن سیکھا۔ ایک بہت ہی ناسمجھ اور ناپختہ ذہن پر صرف ایک ہی رہنما کی چھاپ تھی اور وہ تھی بھٹو کی۔ پر ان یادوں کی عمر مختصر ہی رہی اور بھٹو کا وجود مٹا دیا گیا۔ بچپن کی کتنی ہی باتیں بھول جاتی ہیں اور بھٹو کو تو ٹی وی سکرین کے باہر اور ریڈیو کی صوتی لہروں کے علاؤہ نہ کبھی دیکھا نہ سنا پر اب بھی سب ویسے ہی نقش ہے۔ اس حوالے سے جو آخری یاد ہے اس میں بھٹو کی شبیہہ نہیں یے، بس امی ابو کے چہرے ہیں۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میرے سب بڑے بھٹو صاحب کے مخالف کیمپ میں تھے۔ بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو ہمارے گھر سب خوش تھے۔ پر یہ آخری یاد نہیں ہے۔ آخری یاد اس دن کی ہے جب خبر آئی کہ بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ اس دن امی پہلی دفعہ سب کے سامنے رو پڑیں اور ابو کا چہرہ جیسے پتھر کا سا ہو گیا۔ مجھے بس وہ آنسو اور پتھر کا وہ چہرہ یاد ہے۔ اس دن کے بعد کئی دن ہمارے گھر سوگ کی سی خاموشی رہی۔ اس خاموشی کا سفر اب چالیس سال طے کر چکا ہے۔ پر آج بھی سچ یہ ہے کہ بھٹو دل کے ایک کونے میں اب بھی زندہ ہے۔ اسی کونے میں جہاں کچھ آنسو ہیں اور ایک پتھر سا چہرہ ہے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad