کچھ کامیابی کے پانچ قدمی نسخے کے بارے میں


\"ATIF\"کچھ نسخے ایسے ہوتے ہیں جو اپنے تاجروں کو تو مالامال کردیتے ہیں مگر ان کے خریداروں کا کچھ بھلا نہیں ہو پاتا۔ اب یہ پانچ قدموں میں زندگی میں کچھ بھی حاصل کرنے کے نسخہ بھی ایسا ہی ہے۔ جو بقول حسنین جمال صاحب کے زبان سے خندق پار کرانے والے ایک صاحب نے تخلیق کیا ہے۔ اور ایک محترم لکھاری نے اسے مفید جان کر \’ہم سب\’ کے قارئین کو مفت بانٹ دیا ہے۔ درآنحالیکہ یہ ایسا ہی تیر بہدف نسخہ ہوتا تو جن تیس لاکھ لوگوں نے اچھی خاصی رقم خرچ کرکے یہ نسخہ خریدا تھا وہ ضرور اب تک ہوشربا کامیابیوں کی داستانیں رقم کر چکے ہوتے۔

میں اتفاق کرتا ہوں کہ کچھ قلیل المدتی کاموں جیسے کہ وزن کم کرنے میں واضح اہداف مقرر کرکے ان کے حصول کی کوشش مفید ہوسکتی ہے۔ مگر صاحب، سب کچھ؟

بات کچھ یوں ہے کہ زندگی بڑی پیچیدہ سی چیز ہے جس کو ایسے سیدھے سیدھے راستوں پر نہیں چلایا جا سکتا۔ اس خاکسار کو کسی ایسے شخص سے ملاقات کی بہت حسرت ہے جس کو کامیابی ٹھیک ٹھیک اس کی منصوبہ بندی کے مطابق اس طرح کے صاف ستھرے اسٹیپس میں ملی ہو۔ ورنہ تو جتنا کچھ دیکھا، سنا اور غور کیا ہے اس کے مطابق کامیاب یا ناکام ہونا بڑا بے ہنگم سا عمل ہے۔ کامیابی یا ناکامی میں فیصلہ کن کردار اکثر فرد کی منصوبہ بندی اور اختیار سے باہر اور بظاہر بہت چھوٹے اور غیر اہم واقعات کا ہوتا ہے۔

دور جانے کی ضرورت نہیں۔ یہاں \’ہم سب\’ پر لکھنے والے مشہور لکھاریوں ہی سے پوچھ لیجئے کہ ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے بیس سال کی عمر میں ٹھیک اس مقام کا \”واضح تصور\” کیا تھا اور لوگوں کو بتاتے پھرے تھے کہ دیکھومیاں میں نے تو بس یہ بننے کی ٹھان لی ہے؟ ان سے پوچھ لیجئے ان میں سے اکثر یہاں تک چھوٹے چھوٹے اتفاقات کے نتیجے میں ہی پہنچے ہوں گے۔

خود رابن شرما صاحب کی کہانی پڑھیے۔ جب وہ اپنی کتاب خود چھپوا کر اسے بیچنے کی کوشش کررہے تھے تو ایک بک اسٹور پر ان کی ملاقات اتفاق سے ہارپر کولنز کے پریزیڈنٹ سے ہوگئی۔ اگر اس دن ایڈکارسن اس بک سٹور پر موجود نہ ہوتا تو آج رابن شرما صاحب بھی اس بامِ شہرت پر جلوہ افروز نہ ہوتے جہاں سے وہ کامیابی کے نسخے ہم پر اچھال رہے ہیں۔

اب اگر آپ ہر چیز کو اس طرح \”پانچ قدموں \”میں مقید کرنا شروع کردیں تو وہ چھوٹی اور بڑی چیزیں جو آپ کی منصوبہ بندی سے باہر ہوتی ہیں اور جن کے پیش آنے پر اگر آپ ان کا فائدہ اٹھا لیں تو آپ کا واقعی کچھ بھلا ہوسکتا ہے یا جن سے آپ کو بروقت بچنا چاہیے وہ دونوں ہی آپ کی نظروں سے اوجھل ہو جائیں گی۔ یہ میں بس یونہی اپنے جی سے جوڑ کر نہیں کہہ رہا بلکہ اس بات کا تجرباتی ثبوت موجود ہے کہ بس ہدف پر توجہ مرکوز کیے رکھنے سے بہت سی اہم باتیں نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ ایک تجربے میں لوگوں کو ایک ویڈیو دکھائی گئی اور انہیں یہ ہدف دیا گیا کہ وہ سفید شرٹ میں ملبوس باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کے Passes گنیں۔ ویڈیو کے درمیان میں سیاہ گوریلے کے لباس میں ملبوس ایک خاتون نمودار ہوتی ہے، کیمرے کی طرف منہ کرکے اپنا سینہ پیٹتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ تاہم ویڈیو ختم ہونے کے بعد جب پوچھا گیا تو پتا چلا کہ اکثر لوگوں نے گوریلے کو نوٹ ہی نہیں کیا کیونکہ وہ ان کا سارا فوکس Passes پر تھا۔

حقیقی دنیا میں بد قسمتی سے ہمارے سیلف ہیلپ گروز کی پینٹ کی ہوئی خوبصورت دنیا کے برعکس غیر متوقع واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں جن کے متعلق پہلے سے درست پیش گوئی نہیں کی جا سکتی اور وہ ہماری ساری منصوبہ بندی پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ اگر آپ علانیہ کوئی مخصوص ہدف طے کر چکے ہوں اور وہ بدلے ہوئے حالات میں حاصل نہ ہوسکے تو کتنی مایوسی، درد اور سبکی ہوتی ہے یہ کسی سیاستدان سے پوچھیے گا۔

اور ہاں، مستقبل کے متعلق خوش کن تصورات کے بارے میں بھی ذرا محتاط ہی رہیے گا کیونکہ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اس طرح کی خوش خیالیوں کا اثر الٹا ہی ہوتا ہے کیونکہ یہ آپ کی کام کرنے کے لئے درکار توانائی بھی نچوڑ لیتی ہیں۔

ہرچیز کے اہداف مقرر کرنے کے مزید کیا کیا نقصانات ہوتے ہیں ان کی تفصیل تو آپ اس تحریر کے آخر میں جن دو مضامین کے حوالے دیے جارہے ہیں ان میں پڑھیے گا۔ فی الحال اس پہلو سے غور کی دعوت ہے کہ زندگی جیسی تموج پسند چیز کو کسی خطی راستے پر چلانے یا \”پانچ قدموں\” جیسے پنجرے میں بند کرنے سے وہ نتائج حاصل نہیں ہوتے جو اس کی آزادی پر کوئی قدغن لگائے بغیر حاصل ہوسکتے ہیں۔ اسے ایک مثال سے سمجھیے۔

فرض کر لیں میں عاصم بخشی صاحب کے تبحرِ علمی سے متاثر ہو کر \”پانچ قدموں\” میں انہی کی سطح پر پہنچنے کے لئے ان کی پڑھی گئی ساری کتابوں کی فہرست ان سے مرتب کروا کر، دن رات اعلان اور تصور کرتے ہوئے، کسی ڈائری میں لکھ کر دھڑا دھڑ پڑھتے ہوئے پانچ برس میں وہ ساری کتابیں پڑھ بھی لوں تو میں ان کی سطح پر نہیں پہنچ پاؤں گا۔ خود اگر عاصم صاحب بھی اس طرح پڑھتے تو اس سطح پر نہ پہنچتے۔

عاصم صاحب نے یہ کتابیں مختلف اوقات میں پڑھی ہوں گی اور ان پر غور کیا ہوگا۔ کبھی کوئی بہت عمدہ کتاب اچانک نظر آگئی ہوگئی جس نے ان کے ذہن میں موجود کوئی مسئلہ حل کردیا ہوگا یا اسے دیکھنے کا نیا زاویہ دیا گیا۔ کبھی انہوں نے کوئی کتاب ڈھونڈ کر پڑھی ہوگی۔ کبھی یونہی وقت گزاری کے لئے اور کبھی ایک ہی کتاب کئی کئی مرتبہ پڑھی ہوگی۔ کبھی یونہی کسی بک سٹور یا لائبریری میں کتابیں دیکھنی شروع کردی ہوں گی اور جو پسند آئی لے لی ہوگی۔ کبھی کسی دوست نے تحفے میں دے دی ہوگی۔ کتابیں پڑھنے کا یہی فطری طریقہ ہے۔ یقین کیجئے کہ اگر عاصم صاحب اس فطری طریقے کو چھوڑ کر \”پانچ قدموں\” میں اپنا مطالعہ وسیع کر رہے ہوتے تو انکی فکر اور شخصیت کی تعمیر پر فیصلہ کن نقش چھوڑنے والی بہت سی چیزیں وہ کبھی پڑھ ہی نہ پاتے۔

بس اسی کو زندگی کے بیشتر معاملات پر قیاس کیجئے۔ اور ہاں اگر وزن بھی کم کرنا ہو تو بہتر ہوگا کہ رابن شرما صاحب کے بجائے کسی ماہر سے مشورہ کر کے کیجئے۔ یہ جو ہر چیز کے متعلق رہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں نا یہ دراصل آپ کی کسی بھی چیز میں آپ کی راہنمائی نہیں کرسکتے۔

انفرادی اور تنظیمی زندگی میں اہداف مقرر کرنے کے نقصانات کے لئے دیکھیے:

King, L. A., & Burton, C. M. (2003). The hazards of goal pursuit.

Ordóñez, L. D., Schweitzer, M. E., Galinsky, A. D., & Bazerman, M. H. (2009). Goals gone wild: The systematic side effects of overprescribing goal setting. The Academy of Management Perspectives, 23(1), 6-16.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments