زندگی کے کچھ منظر جو دل پر نقش ہو گئے


ایک 10  سال کا بچہ تھا جس کی ماں کل مری تھی۔ جنازہ اٹھنے میں کچھ دیر تھی۔ کسی نے بچے کو کہا تمہاری ماں کو تلاوت بہت پسند تھی۔ جانے سے پہلے کچھ پڑھ دو۔ بچے نے حیرانی سے چاروں طرف دیکھا۔ کوئی شفیق چہرہ ہجوم میں نہ تھا۔ اس کے ہونٹ کانپے کچھ کہنا چاہا لیکن پھر سر جھکا لیا۔ اس نے ہاتھ باندھے اور زور سے تلاوت شروع کر دی۔ اس کی تلاوت میں کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ سوز، نہ آواز، نہ دکھ، نہ خوشی، بس کچھ لفظ تھے جو وہ دہراتا تھا۔ جنازے کے ارد گرد کھڑے لوگ سر دھنتے تھے۔ تلاوت ختم ہوئی تو سب نے زور سے جزاک الله کہا۔ بچے نے جھکا سر اٹھایا اور اپنی ماں کے چہرے کو دیکھا۔ نیچے جھکا، اس کے ماتھے پر بوسہ دیا، اور سر جھکاے چلا گیا۔

٭٭٭     ٭٭٭

دبئی کی چکا چوند میں، دنیا کے سب سے بڑے مال کی فوڈ کورٹ کی کیا دنیا تھی۔ بھانت بھانت کے لوگ تھے۔ پیسا پھینکا جا رہا تھا۔ شور تھا، خوشی تھی، ہنسی تھی، چکا چوند تھی، زندگی تھی۔ اسی دنیا میں ایک دھان پان سا 20-21 برس کا لڑکا تھا ۔ چہرے مہرے سے انڈیا یا پاکستان کا لگتا تھا۔ چہرے پر تھکن کندہ تھی۔ ایک فاسٹ فوڈ کی ٹی شرٹ زیب تن کیے کندھے جھکاے وہ ایک خالی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ شاید کچھ دیر کی چھٹی ملی تھی۔ اس نے جیب سے موبائل نکالا اور کوئی ویڈیو اپپ کھول کر شاید گھر کا نمبر ملایا۔ نہیں معلوم اس نے کیا کہا اور دوسری طرف سے کیا کہا گیا پر اس کے چہرے پر خوشی کے بہت سے رنگ پھیلے تھے ۔ کبھی مسکراہٹ دھیمی ہو جاتی اور کبھی کھل کھلا کر ہنسے لگتا۔۔ پھر اس نے موبائل نیچے رکھا جیب سے رومال نکالا اور اپنی آنکھیں پونچھیں ۔ پھر موبائل اٹھایا اور وہی مسکراہٹ واپس۔ جتنی دیر میں وہاں بیٹھی رہی وہ یہی کرتا رہا۔ آھستہ آھستہ سارا دبئی مال غائب ہو گیا، شور ختم ہو گیا ، چاروں طرف اندھیرا تھا۔۔ اس اندھیرے میں بس ایک گول روشنی کا دائرہ تھا۔ اس میں وہ لڑکا تھا۔۔ کبھی ہنستا تھا کبھی روتا تھا۔۔ لیکن جب روتا تھا تو موبائل نیچے رکھ دیتا تھا تاکہ ماں یا بیوی یا باپ۔۔ جو بھی لوگ تھے۔۔ وہ اس کے آنسوؤں کو نہ دیکھ سکیں

٭٭٭     ٭٭٭

بڑی بی بہت غصے میں تھیں۔ آج سب کی شامت تھی لیکن خاص کر گھر کے ملازموں کی۔سب ادھر ادھر منہ چھپاے پھر رہے تھے اور بڑی بی شکار کی تلاش میں۔ صفائی والی کی شامت اس بات پر آ گئی کہ گھر کے فرش پر داغ تھا۔ بڑی بی نے چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ ملازمہ کو ہڈ حرام ہونے طعنے مارے گئے۔ اس کی وفاداری پر سوال اٹھایا گیا۔ ملازمہ سر جھکاے سنتی گئی اور ٹاکی مارتی گئی ۔ پھر ترکش سے آخری تیر نکلا اور بڑی بی نے ملازمہ کے خاندان کو لتاڑنا شروع کر دیا۔ ملازمہ فرش سے اٹھی، شاید زندگی میں پہلی بار کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہنے لگی۔ “آپ پیسے بیشک نہ دیں، عزت دے دیں۔ ہم ملازم ہیں، غلام نہیں۔” یک دم ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ ملازمہ نے ٹاکی ایک طرف رکھی اور کندھے جھکاے گھر سے باہر نکل گئی۔

٭٭٭     ٭٭٭

بچوں کی خوشی آج دیدنی تھی۔ خالہ کی گاڑی میں آج سب پارک جا رہے تھے۔ خالہ کی گاڑی ایک تو یوں سمجھو پورے خاندان کی گاڑی تھی۔ اور کسی کے پاس گاڑی خریدنے کے پیسے تو کجا ایک اچھا موٹر سائیکل خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ خالہ تھیں بھی بہت اچھی۔ لوگ زیادہ تھے تو دو قسطوں میں ہی جا پاتے ۔ پہلے بڑے چلے گئے۔ بچے اشتیاق سے انتظار میں بیٹھ گئے۔ گاڑی آئی تو خالہ کی بیٹی نے نازو کو کہا آج تم کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھ جاؤ۔ نازو کو یقین نہ آیا۔ کھڑکی والی سیٹ تو کبھی بھی نہیں ملتی تھی اور خالہ کی بیٹی کو وہ سیٹ پسند بھی بہت تھی۔ نازو کے دل میں آج خالہ کی بیٹی کی عزت اور بھی بڑھ گئی۔ خالہ کی بیٹی نے نازو کے چہرے پر خوشی دیکھی تو کہا جانتی ہو میں نے تمہیں کیوں کھڑکی والی سیٹ دی ہے؟ نازو کے سر دائیں بائیں ہلا دیا۔

“وہ تم لوگوں کے پاس گاڑی نہیں ہے نہ اس لئے۔۔۔ ہم تو بیٹھتے رہتے ہیں”

چھناک کی آواز آئی۔۔۔ بت ٹوٹ گیا

٭٭٭     ٭٭٭

میاں، بیوی، اور ایک سال کی بیٹی جب پردیس کے لئے چلے تو خوش بھی تھے اور ڈرے ہوے بھی۔ پیسے زیادہ نہیں تھے اور گزارا بھی کرنا تھا۔ پیچھے سے بھی کوئی بھیجنے والا نہ تھا۔ خوش قسمتی سے 10 دن بعد ہی بیوی کی نوکری لگ گئی۔ پہلی کو کام شروع کرنا تھا۔ اب کپڑوں کی ضرورت پڑی۔ گھر سے لاے ہوے کپڑے یہاں آفس میں کوئی نہیں پہنتا۔ میاں نے کہا چلو بازار چل کر کپڑے لے لیتے ہیں۔ بازار کی بڑی دکان میں کپڑوں کی قیمت دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ نوکری شروع نہیں ہوئی تھی پیسے کہاں سے آتے اتنے مہنگے کپڑے لینے کے؟ بڑی والی د کان کے ساتھ ایک چوٹی سی دکان بھی تھی۔ اس میں سے کم پیسوں پر کپڑے مل گئے۔ میاں بیوی کپڑے لے کر باہر نکلے تو اداس سے تھے۔ بیوی نے میاں کو دیکھا، پھر ہاتھ میں پکڑے کپڑوں کے لفافے کو اور پھر بیٹی کو، دھیمی سی آواز میں بولی ” خود تو لے لئے، اس کو کبھی نہیں لے کر دوں گی” میاں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے سر ہلایا اور دونوں چل دیے ۔ دوکان کے بورڈ پرنام ٹمٹما رہا تھا ” چیرٹی شاپ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).