انسان دوست جام ساقی



سندھ کی قدیم اور جدید تاریخ میں بے شمار شخصیات کے نام نمایاں نظر آتے ہیں جن میں صوفی بزرگ، شاہ، نواب، جاگیردار، حکمرانوں سمیت ایسی بھی شخصیات ہیں جنہوں نے خلقِ خدا کی خدمت، ان کے حقوق اور آزادی کے لئے قربانیاں پیش کیں اور ہر طرح کا ظلم، جیل کی صعوبتیں برداشت کیں ان میں انسان دوست جام ساقی ایک ایسا نام ہے جس نے تھر پارکر کی تحصیل چھاچھرومیں واقع ایک چھوٹے دیہات جھنجھی کے ایک غریب باسی اُستادمحمدسچل کے گھر میں 31، اکتوبر، 1944ء کو آنکھ کھولی، بچپن میں زندگی کی سختیاں اور غربت کی ناہمواریاں، معاشرتی بے اعتدالیاں دامن گیر رہیں لیکن اس ماحول کے ساتھ ہی جام ساقی کے سامنے اپنے انسان دوست والد اور والدہ کی شخصیات بھی تھیں والد جو معلم ہونے کے ساتھ ایک سماجی کارکن بھی تھے اور باوجود غربت کے اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ سماجی کاموں پر خرچ کردیا کرتے تھے لیکن ان کی اہلیہ کو اپنے شوہر سے شکایت نہیں رہتی تھی جو ان کی اپنے شوہر اور گھر سے مخلصی، بے لوثی اور محبت کی ایک درخشاں مثال ہے مذکورہ تمام صورتحال نے جام ساقی کو میدانِ کارزار میں اُترنے اور انسان پر انسان کے ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا عزم پیدا کیا اور جام ساقی نے اس عہد کو اپنی آخری سانس تک نبھایا۔

جام ساقی نے 1962ء میں حیدرآباد آکر گورنمنٹ کالج کالی موری میں فرسٹ ائیر آرٹس میں داخلہ لیا اس وقت حیدرآباد سندھ کی سیاست کا مرکز تصور کیا جاتا تھا کیونکہ کراچی وفاق تھا۔ جام ساقی نے حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے اپنی سیاست کی ابتداء کی جس میں اس وقت کے طالبِ علم راہنما منیر سندھی، عنایت اللہ کاشمیری، میر تھیبو، قادرنظامانی نمایاں تھے۔ پھر یہ ایچ ایس ایف سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں تبدیل ہوگئی اور اس کا دائرہ کار پورے سندھ میں پھیل گیا۔ سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے ہی ذوالفقار علی بھٹو کا پہلا جلسہ حیدرآباد کے جامعہ عربیہ ہائی اسکول میں کرایا تھا جس میں بڑی تعداد میں طلبا و طالبات نے شرکت کی تھی اس وقت بھٹو صاحب نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی اپنی سیاسی پارٹی کی تشکیل کا اعلان کریں گے۔ سماج کے کچلے ہوئے طبقے کو حقوق دلانے کی سیاسی جدوجہد میں روپوشی، اسیری سمیت پیش آنے والی دیگر تکالیف اور پریشانیوں کی وجہ سے 1985ء میں جام ساقی نے اسیری ہی میں حیدرآباد سینٹرل جیل سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔

سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو اس دور کے بزرگ رہنما حیدر بخش جتوئی، شیخ عبدالمجید سندھی جیسے رہنماؤں کی حمایت حاصل تھی اس کے علاوہ رسول بخش پلیجو، باقر علی شاہ، رشید احمد صدیقی جیسے دانشوروں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس دور کے طلباء اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ایس این ایس ایف نے سندھ میں بہت حوصلے سے اپنا مشن جاری رکھا جس میں مذکورہ طلباء پیش پیش رہتے تھے۔

حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن، سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے بعد 1972 ء میں جام ساقی نے نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری بھی رہے۔ انہوں نے ون یونٹ کے خلاف تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔ وہ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعلی سندھ سید عبداللہ شاہ کے معاون خصوصی اور انسانی حقوق کمیشن کے رکن بھی رہے لیکن ان کی وجہ شہرت” ہاری تحریک‘‘ ہے جس میں انہوں نے سندھ بھر میں ہاریوں میں شعور اُجاگر کرنے کے لئے رات دن انتھک کاوشیں کیں۔ کامریڈ جام ساقی نے عملی طور پر جس بے لوثی، مخلصی سے کسانوں، مزدوروں، طالب علموں اورخواتین سمیت سماج کے دیگر کچلے ہوئے طبقوں کے لئے جہدِ مسلسل کی وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک انمول سنہرا اثاثہ ہے۔ اس پاداش میں مختلف سالوں میں جام ساقی نے ایک اندازے کے مطابق پندرہ سال جیل کاٹی، جام ساقی پر غدار ہونے اور روس سمیت بھارت کا ایجنٹ ہونے کے الزامات لگائے گئے اور مقدمات بھی بنائے گئے لیکن جام ساقی نے ہمت نہ ہاری اور اپنے نظریے پر جرات سے ڈٹے رہے بلآخر وقت نے ثابت کیا کہ وہ تمام الزامات جھوٹے تھے۔

1978ء میں ضیاء الحق کے مارشل میں جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے کے جرم میں جام ساقی پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور انہیں پابندِ سلاسل کر دیا

گیا۔ اسی کیس میں 1980ء میں ملٹری کورٹ میں بے نظیر بھٹو جام ساقی کے لئے گواہی دینے آئیں اور اپنی گواہی میں یہ تاریخی جملہ بھی کہاکہ ” قانونی طور پر مجرم وہ ہوتا ہے جسے کوئی قانونی عدالت سزا دے۔ جسے مارشل لاء کی عدالت سزا دے وہ شخص قانونی طور پر معصوم ہے‘‘۔ جام ساقی و دیگرملزمان کے لئے معروف صحافی اقبال جعفری سمیت کئی مشہور سیاسی راہنمامثلاً خان عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو، معراج محمد خان، فتح یاب علی خان اور مولانا امروٹی بھی اسی کیس میں گواہی دینے کے لئے پیش ہوئے۔

بات کیا تھی وہ نظریہ جو ازل سے ہر پیغمبر، مہاتما، بزرگ، سادھو، مُلا، عالم، دانشور اور انسان دوست دہراتے رہے، جدوجہد کرتے رہے کہ انسان کا انسان پر ظلم و ستم استحصال کا خاتمہ ہو، انسان کو اس کے زندہ رہنے کے لئے دو وقت کی روزی کمانے کے مواقع میسر آئیں۔ مگر جام ساقی جیسے بیشتر انسان دوست، نظریہ پرست اور جدوجہد کے عادی یہ نہیں سمجھ پائے کے اس دنیا میں ابتداء سے تاحال جنگل کا قانون چلتا ہے، طاقتور کمزور پر حاوی ہوتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں جتنے مذہب، گُرو آئے وہ لوگوں کو اچھائی کاسبق پڑھاتے رہے مگر پر نالہ وہیں گرتا رہا۔

جام ساقی نے جس دیانت، محنت اور انسان دوستی کے ساتھ معاشرے میں تبدیلی کی کوششیں کیں وہ صد قابلِ ستائش ہیں اس مقصد کے لئے جام ساقی نے سات کتابیں بھی لکھیں۔ بے نظیر بھٹو سمیت بیشتر بڑے راہنما جام ساقی سے صلاح مشورہ کرنے اور تعزیت کرنے اس کے غریب خانے پر آئے مگر جام ساقی نے کسی سے کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں کیا یہ ان کی خود داری اور اپنے نظریات سے جُڑے رہنے کی قابلِ ذکر مثال ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ انسان کو سماجی جانور کہا جاتا ہے تو غلط نہیں ہے یہ سماج میں رہ کر سماج کو اُجاڑتا ہے، لوٹ کھسوٹ کرتا ہے، عیاری اور طمع اس کی رگ رگ میں ہے۔ بیشتر افراد بڑے عہدوں پر فائز ہوکر خوب رشوت لیتے ہیں، پیسہ کماتے ہیں پھر اس کو سفید دھن ثابت کر کے درویش کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں جام ساقی جیسے معصوم فطرت انسانوں کا زندہ رہنا ہی ایک معجزہ ہے۔ معذرت کے ساتھ پاکستان میں ترقی پسندوں اور عوام دوستی کا دم بھرنے والے محض کاغذی شیر ہیں یہ صرف ایک ٹائیٹل ہے جبکہ عمل میں پرلے درجے کے منافق اور پیسہ کماؤ لوگ ہیں جو ہمارے اطراف موجود ہیں۔

5 مارچ، 2018ء کو 73 برس کی عمر میں حیدرآباد میں جام ساقی اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ جام ساقی نے اپنے کردار، عمل، نظریہ اور انسان دوستی کی ایک عمدہ مثال اپنے پیچھے چھوڑی ہے۔ اس پر ان گنت لوگ دل سے آنسو بہا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).