پاکستانی میڈیا نے کس حد تک انتہا پسندی کو فرو غ دیا


پاکستانی ذرائع ابلاغ شروع سے ہی شدت پسندی کے مظہر کو بڑھاوا دینے میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ 1950میں حکومت پنجاب نے شدت پسندانہ خیالات کی اشاعت اور فروغ کے لئے ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا۔ اس وقت کی حکومت کے ڈائریکٹریٹ آف انفارمیشن نے ان اخبارات کو رقوم ادا کی جو احمدیوں کے خلاف شدت پسندانہ خیالات کی تشہیر کرتے تھے۔ یہ معماملہ ایک انکوائری کمیٹی کے رو برو پیش ہوا اور نوائے وقت کے حمید نظامی نے اس کی تو ثیق کی۔ ہر اخبار کی اپنی ایک پالیسی ہوتی ہے مثلا انگریزی اخبارات (Daily Times، Dawn) کی پالیسی شدت پسندی کے خلاف ہے جبکہ بعض اخبارات مثلا نوائے وقت کی پالیسی شدت پسندی کے حق میں ہے۔ اس اخبار کا ایک پورا صفحہ طالبان کے لیے وقف ہے یہ طالبان اور دہشتگردوں کو عسکریت پسند کہتا ہے۔

ضیاء الحق کے دور حکومت میں ذرائع ابلاغ پر اثر انداز ہونے کی با قاعدہ منصوبہ بندی کی گئی۔ جماعت اسلامی چونکہ جنرل ضیاء الحق کے بہت قریب تھی اور ضیاء نے جماعت اسلامی کو افغان جنگ میں بھی استعمال کیا تھا، اس کے بہت سے لوگ ذرائع ابلاغ میں شامل ہو گئے۔ جنہوں نے پنجاب یونین آف جرنلسٹس کی بنیاد رکھی وہ تمام جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ عسکریت پسند تھے اور اپنے اپنے نظریات کی بنیاد پر لوگوں کی جانیں لے رہے تھے اس گروپ کے لوگوں نے اپنے اپنے لوگ شامل کیے اس کے علاوہ انہوں نے بہت سے ذرائع ابلاغ کے لوگوں کو مبینہ طور پر خریدا اور اپنے اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا۔ اس قسم کے لوگ اگر چہ اخبارات کی پالیسی کو براہ راست متاثر نہیں کرتے تاہم اگر اک شخص نیوز روم میں یا رپورٹنگ میں ایک خاص سوچ لے کر بیٹھا ہواہے تو اس کے پاس موقع ہوتاہے وہ کسی بھی خبر کو بڑھا چٹرھا کر پیش کرے یا کوئی خبر اس طرح دے کہ اس کیاہمیت کم ہو جائے۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ بالواسطہ طور پر اور دبے لفظوں میں شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بول ٹی وی چینل اس کی واضح مثال ہے۔ لال مسجد کے ایشو کو لے لیں اس پر میڈیا نے یکطرفہ کردار ادا کیا۔ 2010میں عامر لیاقت نے اپنے ایک پرو گرام میں احمدیوں کو واجب القتل قرار دیا اور اور اس کے 3دن بعد ہی احمدیوں کے ایک راہنما کا قتل کر دیا گیا۔ سلمان تاثیر کے قاتل کو سر عام ہار پہنائے گئے اور اس کے حق میں نکلنی والی ریلیوں کی براہ راست کووریج دکھائی گئی۔ فضل اللہ نے سوات پر قبضے کے بعد اپنی خاص مذہبی اور دہشتگردی کی تبلیغ کے لئے FMریڈیو اسٹیشن کا سہارا لیا۔ اس میڈیا کو فضل اللہ نے اس طرح استعمال کیا کہ سوات کے لوگ اس کی باتوں کے قائل ہو گئے اور اپنے نوجوان لڑکوں کو جہاد میں شمولیت کی دعوت دی۔

جن تنطیموں پر پا بندی ہے ان کی خبریں بھی مسلسل چھپ رہی ہیں صرف ان کے نام کے ساتھ سابقہ کا لفظ لگ جاتا ہے۔ شدت پسندی سے جڑے ہوئے واقعات کو جس قدر تشہیر ملنی چاہیے ہمارا میڈیا بریکنگ نیوز کے چکر میں ان واقعات کو زیادہ تشہیر دے جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔

آج کل سوشل میڈیا پر ملالہ کے خلاف پراپگنڈا زوروں پر ہے جس میں اس کو ایک سازشی مہرا قرار دیا جا رہا ہے اور اس کے خلاف بولنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جا رہی۔ میرے بہت اچھے دوستوں نے میری ملالہ کے حق میں کی گئی پوسٹ پر لعنتیں بھیجتے ہوئے ثواب حاصل کیا ہے۔ بلاگرز پر فتویٰ لگانا انتہا پسندوں لوگوں کا من پسند شغل بن چکا ہے۔ عورتوں کی خودمختاری کے خلاف پوری سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی جاچکی ہے۔ ایسی پوسٹس کی کچھ لوگ مذمت کرتے ہیں جبکہ وہ لوگ جو ایک جیسی ذہنی مطابقت رکھتے ہیں اس طرح کی پو سٹس سے متاثر ہوتے ہیں اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی ذہن سازی شروع کر رہے ہیں۔ یہ پوسٹس ہمارے معاشرے کو ایک مذہبی شدت پسندبنانے میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

پاکستانی میڈیا حال ہی میں جس نے ایک نئی طاقت اور اہمیت حاصل کی ہے وہ ساتھ ہی ساتھ شدت پسند گروہوں کا نشانہ بھی بنتا رہا ہے۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیانومولود ہے اور لوگ اس کے لیے مناسب طور پر تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں جب کوئی چیز تحریر ہوتی ہے تو تحریر کرنے والے کے پاس کچھ وقت ہوتا ہے کہ وہ اس کو دوبارہ دیکھ سکے اور پھر وہ تحریرمدیر کی نظر سے بھی گزرتی ہے۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ الیکٹرانک میڈیا کے رپورٹر وں کے پاس ضرورت سے زیادہ گنجائش ہوتی ہے۔ یہ ان عوامل میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے ہمارے ٹی وی چینل شدت پسندی سے متعلق واقعات کو اکثر غیر موذوں طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ مزید براں پاکستان میں پرنٹ میڈیا کے پاس کوئی ڈیڑھ سو سال کا تجربہ ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا مقابلتا نو خیز ہے۔

میڈیا دراصل آجکل مارکیٹ فورسز کے تحت چل رہا ہے۔ اب مارکیٹ کیا چاہتی ہے وہ معاشرے کا عمومی طرز عمل ہے میڈیا بھی اسی رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ اگر معاشرہ انتہا پسند نظریات سے لیس ہے، یعنی اگرریاست کی عمل داری کم ہو چکی ہے اور انتہا پسند حلقوں کا رسوخ معاشرے پر زیادہ ہے تو میڈیا میں بھی وہی چیز آپ کو نظر آئے گی۔ میڈیا عدم استحکام میں اضافے کا باعث بن رہا ہے، شاید اس لئے کہ اسے جو آزادی ملی ہے وہ ابھی نئی نئی ہے خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے تو یہی لگتا ہے اسے تجربہ نہیں ہے، رہنمائی بھی نہیں ہے، جو ہے وہ بڑی عوامی قسم کی ہے کہ چینل بڑا مقبول ہو جائے گا۔ یہ بڑی خطر ناک بات ہے۔ میڈیا اس امر کو مسلسل نظر انداز کر رہا ہے کہ ایسا کرنے سے مستقبل میں اظہار رائے کی آزادی بر قرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).