پٹواریوں کو مت چھیڑو


کچھ عرصے سے میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہا ہوں کہ ایک سیاسی جماعت کے حامیوں کو مسلسل ” گنوار پٹواری، جاہل پٹواری ” جیسے القابات سے نوازا جا رہا ہے۔ مجھے اس بات سے کوئی مسئلہ نہیں کہ ان کو ان کے سیاسی مخالفین گنوار اور جاہل کہتے ہیں۔ مجھے مسئلہ ہے تو صرف پٹواری کے لاحقے سے۔ اور اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ والد گرامی پٹواری تھے۔ اب پٹواریوں کے دفاع میں میں قلم نہیں اٹھاؤں گا تو کون اٹھائے گا؟

آج کل ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر جو یہ لکھتے ہیں ان کی پچھلی نسلوں کا ایک مشہور مقولہ تھا ” اتے رب باری، تھلے پٹواری ”۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر پٹواری سے بگڑ گئی تو جس مکان کی وہ دوسری منزل بنانے کا سوچ رہے ہیں اس کا فرد کل کو کسی رحمے نائی یا گامے کمہار کے نام بھی نکل سکتا ہے۔ اور ان کی فریاد پھر صدر پاکستان بھی نہیں سنے گا کیونکہ صدر کی آبائی زمین بھی کسی پٹواری کے رحم و کرم پر ہے۔ اور پٹواری پٹواری ہوتا ہے

پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں کرپشن کا سب سے زیادہ الزام پٹواری پر ہی لگتا ہے۔ اور سب سے کم ثابت بھی پٹواری پر ہی ہوتا ہے۔ اس کی دو وجوہات قابل ذکر ہیں۔ پہلی یہ کہ کرپشن کی اس کثیر المنزلہ عمارت کی پہلی اینٹ اور بنیاد یہی پٹواری ہے۔ یہ ساری عمارت پٹواری کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ اور عمارت کبھی یہ گوارا نہیں کر سکتی کہ اس کی بنیاد پر کوئی آنچ آئے۔ اور دوسری جو سب سے اہم ہے وہ یہ کہ پٹواری سب سے زیادہ محتاط ہوتے ہیں۔ ان کی احتیاط کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ” دوروں دوروں اکھیاں مارے منڈا پٹواری دا ” اور یہ ابھی پٹواری کے ” منڈے ” کی احتیاط کا عالم ہے کہ آنکھ بھی مارتا ہے تو دور دور سے۔ تو اندازہ لگائیے کہ پٹواری صاحب خود کتنے محتاط ہوں گے

میرے فہم کے مطابق آج کل جو لوگ پٹواریوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں ان کی زرعی زمین ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور غالب گمان ہے کہ وہ رہائش بھی کرائے کے مکان میں رکھتے ہوں گے۔ ورنہ ایک نیام میں دو تلواریں اور ایک جنگل میں دو شیر تو ہو سکتے ہیں لیکن زمین کی ملکیت اور پٹواری دشمنی ایک ساتھ نہیں چل سکتے

کاش ان فیس بک، انسٹا گرام اور واٹس ایپ کے عاشقوں نے وہ دور بھی دیکھا ہوتا جب کسی دل جلی نے کہا تھا ”جا سجنا وے سد پٹواری، میں جند تیرے ناں لاواں“ ۔ مطلب پکی رجسٹری اور کسی ”قبضہ گروپ“ کا کوئی خطرہ نہیں۔

پٹواری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جنرل ایوب خان جب صدر پاکستان تھے تو ان کو ایک بڑھیا نے دعا دی کہ خدا تمہیں پٹواری بنائے۔ اور قدرت اللہ شہاب ” شہاب نامہ“ میں لکھتے ہیں کہ ایوب خان کی والدہ ایوب خان سے اس وجہ سے ناراض ہو گئی تھیں کہ ان کے حلقے کا پٹواری پہلے ان سے پچاس روپے فصلانہ وصول کرتا تھا اور ایوب خان کے صدر بننے کے بعد اس کا مطالبہ سو روپے ہو گیا تھا۔ ایوب خان یہ بات سن کر ہنس دیے تھے۔ ارے کم فہموں پٹواریوں کے آگے تو ایوب خان جیسا دبنگ صدر بھی پر نہیں مارتا تھا تم کس کھیت کی مولی گاجر ہو۔

ایک لطیفہ جو ابھی مجھے یاد آ رہا ہے کہ ایک دفعہ ایک پٹواری کہیں جا رہا تھا تو راستے میں ایک کتے نے اس پر بھونکنا شروع کر دیا۔ پٹواری صاحب نے کہا۔ تمہاری اگر ایک مرلہ بھی ملکیت ہوتی تو تم مجھ پر کبھی نہ بھونکتے۔

تو حاصل بحث یہ ہے کہ جس پٹواری کے سامنے نواب آف کالا باغ اور صدر پاکستان جنرل ایوب خان جیسی ہستیاں نہیں ٹک پائیں اس کے ساتھ آپ بھی مت الجھیں۔
تو یہ میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ ” پٹواریوں کو مت چھیڑو“۔ ابھی پٹواری آپ کو سیریس نہیں لے رہے۔ اگر پٹواری سیریس لے گئے تو یہ پانچ گریڈ کا ملازم آپ کے لئے ایسا مسئلہ کھڑا کرے گا کہ آپ کی پانچ نسلیں یہی کہتی پھریں گی ” اتے رب باری، تھلے پٹواری“۔
اور اگر یہ نہ بھی کہا تو موجودہ سیاست کا ایک نعرہ ضرور کچھ اس طرح لگائیں گے ”ایک پٹواری۔ سب پہ بھاری“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).