آزاد پاکستان اور غلام قوم کے غلام بچے!


سب سے پہلے تو میں ہم سب کی شکر گزار ہُوں جو مجھے کچھ کہنے کا موقع ملا ہے۔ اس کے بعد سعدیہ احمد کی جنہوں نے ہم سب سے رابطہ کرنے میں میری مدد کی تھی۔ تو اب آتے ہییں اصل موضوع کی طرف۔ پاکستانی بچے ہمارے بچے ہیں۔ اور پاکستان کا مستقبل ہیں۔ خواہ وہ غریب کے بچے ہو ں یا امیر کے بچے ہوں۔ اور ہم ان بچوں کو بچپن سے ہی غلامی سیکھا رہے ہیں۔ جو بچے لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں۔ ان کو انسان تو کیا جانور سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔ انسان کا بچہ سولہ سال کی عمر تک سیکھتا ہے۔ اسے جو سکھایا جائے۔ اور ہم لوگوں کے گھر بھیج کر غلام بنا رہے ہیں۔

کہنے کو تو یورپ غیر مسلم ہیں لیکن بچوں کے حقوق اتنے دیتے ہیں جو ماں باپ بھی نہیں دے سکتے۔ تب جاکر ایک خود مختار معاشرہ بنتا ہے۔ جب تک ہر بچے کو ایک ہی تعلیم ایک ہی سوچ نہیں دی جائے گی جیسے سیاست دان اپنے بچوں کو دے رہے ہیں۔ تب تک پاکستان غلام ہی رہے گا اور پاکستانی پاسپورٹ والوں کی الگ لائن ایئرپوٹ پہ لگتی رہے گی۔ باہر کےمُلک اس کے لئے بہت پیسہ دیتے ہیں۔ جو سیاست دان خود کھا جاتے ہیں۔ اور چھوٹے بچے جو امیروں کے گھر کام کرکے غلام بنتے ہیں۔ وہ ہمیشہ غلام ہی رہتے ہیں۔

کبھی سیاست میں آتے ہیں تو الطاف بھائی کے غلام بن جاتے ہیں۔ بوری بند لاشیں اٹھاتے اٹھاتے اور گٹکا پیتے پیتے صولت مرزا بن کے وہی موت مر جاتے ہیں۔ زرداری کے پاس جاتے تو بھٹو کو زندہ کرنے پہ لگا دیے جاتے ہیں۔ یہاں تک آتے آتے عزیر بلوچ بن جاتے ہیں۔ نوازشریف کے پاس جایئں تو کہا جاتا پاکستان قائداعظم نے نہیں، نواز شریف نے بنایا تھا یہی تمھارا قائد ہے۔ اور کیپٹن صفدر تمھارا لیڈر ہوگا۔ اگر دینی جماعتوں جائیں تو وہاں بھی یہی حال ہے۔ مولانا فضل الرحمان۔ جماعت اسلامی سب کہتے ہیں کہ امریکہ اور مغرب ہمارے دشمن ہیں اور سازش کر رہے ہیں۔ اور خود کو ویزہ ملے تو کلین شیو بھی کرا لیں گے۔ خیر آخر میں یہی بچے تحریک طالبان پاکستان بن کے حکیم اللہ محسود کی طرح مارے جاتے ہیں۔

تو اس سب میں نقصان تو پاکستان کا ہی ہو رہا ہے۔ ہم سب کو مل کر اس کا کچھ کرنا ہوگا۔ ہم اپنی ذات کا نہیں اپنی قوم کا سوچیں۔ ہمیں پاکستان کے مستقبل کا سوچنا ہو گا۔ ورنہ اللہ نہ کرے ہم پہ بھی عربوں والا زوال آئے۔ ایک خود مختار قوم بنانی ہوگی۔ سیاست دانوں کو تاج پہنائے جاتے ہیں اور پاکستان کے مستقبل سے برتن صاف کرائے جاتے اور بھیک منگوائی جاتی ہے۔ یورپ میں انسانی حقوق دیکھ کر اپنی جہالت اور خود غرضی پہ افسوس ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی کا پاکستان ابھی چودھویں صدی سے بھی پیچھے کا لگتا ہے۔

بہت سے امیر لوگ میری بات سے اتفاق نہیں کریں گے۔ لیکن جو یہاں آکے دیکھا اسے بیان کیا ہے۔ ہم بچوں کو احساس کمتری دے رہے ہیں اور غلام بنا رہے ہیں۔ ان کی سوچ آزاد نہیں رہتی اس لئے آگے جاکر ایک غلام قوم ہی بنتی ہے۔ اور پاکستان میں چھوٹا سا طبقہ امیر ہے اور زیادہ تعداد غریبوں کی ہے۔ اس لئے آگے جاکر غلام زیادہ ہوتے ہیں۔ اور ہم ان کو بے شعور قوم کہتے ہیں۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کو بے شعور بنایا کس نے ہے۔ ہم پیسے کی دوڑ میں انسانیت ہی بھول گئے ہیں۔ اللہ نے تو انسانوں کو برابر پیدا کیا ہے۔ ہم نے مالک اور چھوٹو بنا دیے ہیں۔

پاکستان کی بات کرتے کرتے بھول ہی گئے کہ ہم نے اپنی گاڑی دھونی تھی، یہاں تو کوئی چھوٹو ہوتا نہیں ہے۔ یہ لوگ تو اپنے کام خود کرتے ہیں۔ قانون ہے کہ اٹھارہ سال تک بچہ کچھ نہیں کر سگتا سوائے تعلیم کے۔ یہاں تک کہ ڈرائیونگ بھی نہیں کر سکتا۔ ہمیں اپنی ذات سے نکل کر سوچنا چاہیے اور اپنے ضمیر زندہ کرنے چاہئیں ورنہ اللہ نہ کرے جو زوال آئے جیسا عربوں پہ آیا ہے۔ کفر کا نظام چل رہا ہے اور ظلم کا مٹ رھا ہے۔ اپنی خود غرضی سے ڈر لگتا ہے۔ اللہ پاکستان کو خود مختار قوم دےجو نہ بھیک مانگے نہ غلام ہو۔ سیاست دان یہ بھول گئے ہیں کہ اپنی اولاد کو تو آقا بنا دیا لیکن پوری قوم کو جب غلام بنایا تو تمھارے بچے اس قوم کے لیڈر بنتے ہیں جو ایک مردہ قوم کہلاتی ہے۔ تو ایسے لیڈر کی کیا اوقات ہو گی جو مردہ قوم کا لیڈر ہوتا ہے۔
میرے حصے میں کتابیں نہ کھلونے آئے۔
خواہش رزق نےچھینا میرا بچپن مجھ سے۔

جب لوگ ریسٹورینٹ پہ جاتے اور فیڈر بیگ ان کو دے کر طرح طرح کے کھانے کھا رہے ہوتے ہیں۔ تو شاید بھول جاتے ہیں کہ انسانیت کیا ہوتی ہے۔ سوال تو ہم سب سے بنتا ہے۔ لیکن شاید جواب ہم میں سے کوئی نہ دے سکتا ہو۔ ہم عاصمہ جہانگیر کو دوزخ اور ممتاز قادری کو جنت بھیجنے کے لئے تو آواز اٹھا سکتے ہیں لیکن اس پر نہیں کہ ہم سب نے ایک ایک چھوٹو گھر میں رکھا ہوا ہے۔ چاہے وہ برتن دھونے کے لئے یاوضو کا لوٹا اٹھانے کے لئے بس نام الگ دیا ہوتا ہے۔ مدنی مُنا یا تحریک لبیک کا مرید یا پیر کا خلیفہ یا اپنے قائد کے کہنے پہ جان دینے والا وفادار سیاسی کارکن ۔ ہم محض جعلی فیس بک اکاؤنٹس بنا کر گالی گلوچ کے قابل رہ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).