قندوز: جو ظلم تو دیکھتا ہے مذمت نہیں کرتا


قتیل شفائی نے اپنی غزل کے ایک مشہور شعر میں اُس شخص کی خوب خبرلی ہے جو ظلم سہنے کے باوجود بھی بغاوت کرنے کی جرات نہیں کر پاتا،
دنیا میں قتیل اُس سا منافق نہیں دیکھا
جو ظلم تو سہتا ہے، بغاوت نہیں کرتا،
یہی شعر تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ عرض ہے،

دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں دیکھا
جو ظلم تو دیکھتا ہے، مذمت نہیں کرتا

اس گلے سڑے معاشرے میں ظلم کے حوالے سے ہم بھی طرح طرح کی منافقتوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اولا ً، ظلم سہنے اور بغاوت نہ کرنے کی منافقت۔ ثانیاً، ظلم کو دیکھنے اور مذمت نہ کرنے کی منافقت۔ جبکہ تیسری قسم کی منافقت ہم یوں کرتے ہیں کہ کسی کی مظلومیت کوماپنے کے لئے ہمارے ہاں جنس، مذہب، قومیت اورلسانیت کے پیمانے مقر ر ہیں۔ مثلا ً انسان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو تو ہم ظلم کا نام دیتے ہیں لیکن اگر یہی زیادتی کسی دوسری مخلوق کے ساتھ ہو، تو یھر یہ ہماری کتاب میں ظلم نہیں۔ چوتھی قسم کی منافقت ہم اس وقت کرتے ہیں جب مظلوم کے لئے مذہب کا پیمانہ استعمال کرتے ہیں۔ گویا اس حساب سے مسلمان ایک تھپڑ رسید ہونے پرتو مظلوم بن جاتاہے لیکن ایک غیرمسلم بے چارہ مفت میں گولی کھانے کے باوجود بھی مظلوم سمجھا نہیں جاتا۔

ظالم اور مظلوم کے معاملے میں پانچواں منافقت ہم یوں کرتے ہیں کہ یہاں ہم لسانیت، قومیت، برادری اور کمیونٹی کے پیمانوں سے حساب لگاتے ہیں، مثال کے طور پر ہمارے ہاں صرف وہ ستم رسیدہ انسان تو قابل رحم ہوتا ہے جن کا تعلق ہماری زبان، قومیت، لسانیت یابرادری سے ہو، ورنہ دوسری صورت میں ہمارے حساب سے ان پر مظلوم کا اطلاق نہیں ہوتا، علیٰ ہٰذالقیاس۔ گو کہ ہم نے ظالم اور مظلوم کی تعریفات کو شرمناک حدتک مسخ کیا ہے۔ پیرکو افغان صوبے قندوز کے دشت آرچی میں ایک دینی مدرسے پر ہونے والی افغان فضائیہ کی بمباری بھی ہر حوالے سے ظلم کی بدترین مثال تھی۔ اس فضائی بمباری کا سب سے المناک پہلو یہ تھا کہ وہاں پر زیادہ تعداد میں قرآن درجنوں معصوم حفاظ اور عام بے گناہ لوگ نشانہ بنے۔

اگرچہ سوشل میڈیا گردش کرنے والی ان شہداء کی خون آلود تصویریں ہر دل کو آٹھ آٹھ آنسو رلانے کے لئے کافی تھیں لیکن بدقسمتی سے ہم اس موقع پربھی برادری اور کمیونٹی، دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم کا بری طرح شکار رھے۔ اس مدرسے کے ان پھول جیسے بچوں کی شہادت اہل مدارس کے لئے المناک اور بھاری دن تھا لیکن اُن لوگوں کے لئے یہ ایک معمول کا دن تھا جن کا مطمح نظر لسانیت اور قومیت رہتاہے۔ کوئی توہمیں سمجھا دیں کہ مدرسہ ہاشمیہ کے ان بے گناہ حفاظ قرآن پر ڈھانے والا ظلم پشاور کے اُس ”اے پی ایس‘‘ کے بچوں پر ہونے والے ظلم سے کتنی کم تھی جس کی یاد میں پشتون حقوق کی نام نہاد علمبردارجماعتیں آج بھی موم بتی مافیا بنی ہوئی ہیں؟ دشت آرچی افغانستان کے شمالی صوبے قندوز کا ایک مشہور ضلع ہے جس کی اکثریت آبادی پشتون ہے۔

حملے میں نشانہ بننے والا مدرسہ دارالعلوم ہاشمیہ بھی مذکورہ ضلع کے دفتانی گاؤں میں واقع ہے۔ یہاں کے اکثر مدارس کی طرح وہاں کے دینی مدرسوں کے سالانہ تقریبات بھی رجب ہی کے مہینے میں ہوتی ہیں۔ مذکورہ مدرسے جامعہ ہاشمیہ میں بھی دستار بندی کی ایسی ہی تقریب کو افغان فضائیہ نے گزشتہ پیر کو میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ اس بے رحم کارروائی میں قرآن کریم کے نہ صرف وہ معصوم حفاظ ِ قرآن کو خون میں نہلائے گئے جن کے سروں پر سفید عمامے اور سینوں پر پھولوں کے ہار سجے تھے بلکہ بے شمار عام شہری اور علماء بھی شہیدہوئے۔ کارروائی کرنے کے فوراً بعد افغان حکام کی طرف سے پہلے تو بھونڈے انداز میں میڈیا کو بتایا گیا کہ حملے میں دشمن کا ایک اہم مرکز نشانہ بنایا گیا جس میں صرف طالبان کمانڈرز اور کوئٹہ شوریٰ کے ارکان شامل تھے جوآئندہ حملوں کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔

ایسی بے رحمانہ کارروائی کرنے کے بعد افغان حکام کو اگرچہ اپنے آقاووں کی طرح فوری طورپر معافی مانگنی چاہیے تھی لیکن یہ پھربھی انتہائی ہٹ دھرمی کے ساتھ سینکڑوں معصوم افغانوں کی ہلاکت کی تردید کرتی رہی۔ گزشتہ دنوں طلوع نیوز کے صحافیوں کی ایک ٹیم کو بھی اس علاقے میں واقع مدرسے کا دورہ کرایا گیا۔ ان صحافیوں کو عام لوگوں اور عینی شاہدوں کی طرف سے کہا گیا کہ بمباری مدرسہ ہاشمیہ کی سالانہ دستار بندی کے اجتماع پر کیاگیا جہاں حفاظ کرام اور دیگر فضلاء کو ڈگریاں دی جانی تھیں ‘‘۔ ان مقامی افراد اور عینی شاہدوں کے علاوہ محکمہ صحت کے حکام نے بھی اس حملے میں بے شمار سویلینز، طلباء کی شہادتوں اور زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ افغان حکومت کے اس دعوے کو اگر مان بھی لیا جائے کہ مذکورہ اجتماع میں طالبان کمانڈرز اور کوئٹہ شوریٰ کے ارکان شریک تھے تو بنیادی سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا ہزار سے پندرہ سوافرادپر مشتمل اس علمی اجتماع میں طالبان کے جنگجو سینکڑوں کی تعدادمیں موجودتھے یابہت کم تعداد میں شریک تھے؟

رحیم اللہ یوسفزئی افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی ہیں، گزشتہ روز ان سے اس بارے میں بات ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق ہزاروں کے اس مجمع میں ان لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی جو طالبان کمانڈرز یا کوئٹہ شوریٰ کے ارکان باور کرائے جاتے ہیں ‘‘۔ بے شک، یہی وہ غلطیاں ہیں جو نیٹو اتحادی افواج سے زیادہ اس وقت افغان فوج اور افغان طالبان دونوں طرف سے باربار دہرائے جارہے ہیں۔ افغان فضائیہ اور بری افواج کا اگربے گناہ شہریوں اور مدارس کے معصوم طلباء کو اس طرح بے رحم طریقے سے نشانہ بنانا کا عمل جاری رہا توپھر میرا نہیں خیال کہ اشرف غنی صاحب اور عبداللہ عبداللہ کی لڑکڑاتی حکومت کبھی پائیدار بن سکے گی۔

حالیہ فضائی کارروائی اگرچہ افغان حکومت اپنے لئے ایک پراگریس سمجھتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان سے متوقع امن مذاکرات کا پراسس مزید بھی پس منظرمیں جاسکتاہے۔ دوسری طرف افغان طالبان کی بے شمار حالیہ کارروائیوں بھی شفافیت سے با الکل عاری دکھائی دیتے ہیں۔ شفافیت کا مطلب یہ کہ ان کی ہر کارروائی میں ان کے مبینہ اہداف بہت کم جبکہ عام شہری، خواتین اور بچے زیادہ تعداد میں نشانہ بن رہے ہیں۔ امریکہ کے مفادات پر منتج ہونے والی اس طویل جنگ کا سب سے بدقسمت پہلو یہ ہے کہ میزائلوں، راکٹوں، زمینی ماینز اور بارودی حملوں کی زیادہ قیمت عام بے گناہ افغانوں کو چکانی پڑرہی ہے۔ پہلے بھی عرض کیاتھا اور اب بھی مکرر عرض ہے کہ اس قضیے کا واحد حل صرف اور صرف شفاف اور اخلاص پر مبنی مذاکرات ہی کے ذریعے ممکن ہے۔

اب اگر اپنی دھاک بٹھانے کی خاطردونوں طرف سے عام شہریوں، مدارس کے بے گناہ طلباء اور خواتین وبچوں کو نشانہ بنانے کا یہ ظالمانہ عمل جاری رہا تو بدقسمتی سے ماضی کا رتی بھرمتوقع مذاکراتی عمل بھی رک سکتا ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ سترہ سال گزرنے کے باوجود حالات تسلی بخش ہونے کے بجائے دن بہ دن قابل رحم انداز میں خرابی کی طرف جارہے ہیں۔ کیایہ کم بدنصیبی ہے کہ بیرونی طاقتیں ہر فریق کو آب ِ حیات کی لالچ میں مسلسل موت کاسَراب دکھا کر اب بھی احمق بنارہے ہیں؟ کاش، باہمی مفاہمت کے ذریعے یہ دونوں فریق مکار امریکہ موجودگی کا وہ جواز مزید ختم کریں جس کی آڑ میں یہ خطے کی مستقل تھانیداری کا خواب دیکھ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).