سگمنڈ فرائیڈ، خواب، جنس اور مذہب


انسانی ذہن صدیوں سے عوام و خواص کے لیے ایک معمہ رہا ہے۔ بیسویں صدی میں بہت سے نفسیات دانوں، فلاسفروں اور دانشوروں نے اس کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی۔ ان کی بصیرتوں اور تحقیقات نے انسانی ذہن، شخصیت اور طرزِ زندگی کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کی۔ جوں جوں ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ہم نفسیاتی مسائل کا بہتر علاج کرنے کے قابل ہو رہے ہیں۔ وہ ذہنی بیماریاں جو ایک صدی پہلے ناقابلِ علاج سمجھی جاتی تھیں اب ان کا کامیاب علاج ہو رہا ہے۔ ایسے علاج سے انسانوں کے دکھ کم ہو رہے ہیں اور سکھ بڑھ رہے ہیں اور بہت سے ذہنی مریض ایک صحتمند، خوشحال اور پرسکون زندگی گزارنے کے قابل ہو رہے ہیں۔

جب نفسیات دانوں نے انسانی نفسیات کے علم میں گرانقدر اضافہ کیا ان میں سے ایک اہم نام سگمنڈ فرائڈ کا۔ بہت سے لوگوں نے ان کا نام تو سن رکھا ہے لیکن وہ ان کی خدمات سے واقف نہیں۔ میں اس کالم میں آپ سے ان کا تعارف کروانا چاہتا ہوں۔

سگمنڈ فرائڈ بابائے تحلیلِ نفسی مانے جاتے ہیں۔ ماہرِ نفسیات بننے سے پہلے وہ ایک ڈاکٹر تھے۔ ان کی انسانی لاشعور میں دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب ان کے والد کا 1896 میں انتقال ہوا۔ اگلے تین سال تک فرائڈ اپنے خوابوں کا تجزیہ کرتے رہے اور 1900 میں انہوں نے اپنی مشہور کتاب INTERPRETATIONS OF DREAMS لکھی جو نفسیات کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ کتاب تخلیق کرتے وقت فرائڈ کی عمر چالیس برس تھی۔

فرائڈ کو ذہنی امراض میں لاشعور کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا جب ان کے ایک رفیقِ کار JOSEPH BREUR نے اپنی ایک مریضہ انہیں بھیجی۔ نفسیات کی تاریخ میں وہ عورت ANNA O کے نام سے جانی جاتی ہے۔ وہ عورت ہسٹیریا کی مریض تھی جو ان دنوں یورپ میں ایک عام بیماری تھی۔ جب جوزف برائر اس مریضہ کا علاج کر رہے تھے تو مریضہ ان کے عشق میں گرفتار ہوگئی تھی۔ ایک دن مریضہ نے برائر کو خبر سنائی کہ وہ حاملہ ہو گئی ہے۔ اس نے کہا کہ وہ سب لوگوں کو بتائے گی کہ ڈاکٹر برائر نے اسے حاملہ کیا ہے۔

ڈاکٹر برائر جو ایک شریف النفس انسان تھے بہت گھبرائے۔ چونکہ ان کے بیوی اور بچے بھی تھے اس لیے وہ بدنامی کے خوف سے شہر چھوڑ کر چلے گئے۔ جب فرائڈ نے اینا او کا علاج شروع کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ وہ حاملہ نہ تھی۔ اس کا اپنے آپ کو حاملہ ظاہر کرنا اس کی نفسیاتی بیماری کا عارضہ تھا۔

فرائڈ نے اپنی نفسیاتی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا کہ ہسٹیریا کا مرض ان عورتوں کو ہوتا ہے جو اپنے جنسی جذبات خواہشات او تضادات کو اپنے لاشعور میں دھکیل دیتی ہیں۔ آہستہ آہستہ فرائڈ نے ہسٹیریا کے مرض کا نفسیاتی علاج دریافت کیا اور بہت سے مریضوں کا کامیاب علاج کیا۔ کچھ عرصہ بعد فرائڈ اور برائر نے مل کر ہسٹیریا پر ایک مقالہ بھی لکھا۔

فرائڈ نے اپنے طریقہِ علاج کو PSYCHOANALYSIS کا نام دیا۔ فرائڈ نے یہ دریافت کیا کہ مریض اپنے ماضی کے جذبات اور احساسات اپنے معالج کی طرف TRANSFER کرتا ہے اور اپنے حال کو ماضی کے آئینے میں پرکھتا ہے جو اسے حقیقت سے دور لے جاتا ہے۔ نفسیاتی علاج میں جوں جوں مریض ماضی کے تعصبات سے چھٹکارا پاتا ہے وہ موجودہ حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے جس سے وہ صحتمند ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

فرائڈ اپنے کلینک میں ہر روز چند مریض دیکھتے تھے۔ انہوں نے کئی مریضوں کا چند مہینوں اور چند سالوں تک علاج کیا اور ان کی لاشعوری گتھیوں کو سلجھایا۔ انہوں نے یہ تصور پیش کیا کہ وہ جذبات و احساسات جنہیں انسانی ذہن تکلیف دہ سمجھتا ہے اسے اپنے لاشعور میں دھکیل دیتا ہے۔ فرائڈ نے انسانی لاشعور کی چند حفاظتی تدابیر کی نشاندہی کی جس سے نفسیاتی مسائل کی تفہیم اور تشخیص آسان ہو جاتی ہے۔

فرائڈ اپنے مریضوں کو کہتے تھے کہ وہ کاؤچ پر لیٹ جائیں اور ان کے ذہن میں جو بھی باتیں آئیں اس کا بلا جھجک اظہار کریں اس طرح آزاد تلازمہِ خیال وجود میں آتا ہے۔ فرائڈ کا خیال تھا کہ ایسی FREE ASSOCIATION مریض کی نفسیاتی گتھیوں کو سلجھانے میں مدد کرتی ہے۔

فرائڈ نے جن DEFENCE MECHANISMS کی نشاندہی کی ان میں ایک DENIAL ہے۔ اس کی ایک مثال وہ مریض ہے جسے ڈاکٹر کہتا ہے کہ تمہیں کینسر ہو گیا ہے لیکن مریض اس تشخیص کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ دوسری حفاظتی تدبیرPROJECTION کہلاتی ہے۔ اس تدبیر سے انسان ساری حقیقت کو بدل دیتا ہے جب مریض کسی سے نفرت کرتا ہے تو بجائے یہ کہنے کے
میں اس سے نفرت کرتا ہوں
خود کو یہ باور کرا لیتا ہے کہ
وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے

ان غیر صحتمند حفاظتی تدابیر کے مقابلے میں صحتمند انسان صحتمند COPING MECHANISM استعمال کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال SUBLIMATION ہے۔ اس طریقے سے انسان اپنے منفی جذبات یا خواہشات کو مثبت کام میں بدل دیتا ہے۔ ایک شخص جس میں غصہ یا جارحیت بہت زیادہ ہو وہ اگر پہلوان یا باکسر بن جائے تو نہ صرف وہ انعام حاصل کر سکتا ہے بلکہ مشہور بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح وہ مرد جو گاڑی تیز چلانا چاہتا ہے وہ اگر ایمبولنس ڈرائیور بن جاتا ہے تو اس کی خواہش بھی پوری ہوجاتی ہے اور مریضوں کی مدد بھی ہوتی ہے۔
فرائڈ نے انسانی ذہن میں شعور ، تحت الشعور اور لاشعور کے تصورات پیش کیے۔

فرائڈ ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے لیکن وہ مذہبی اعتقادات پر تنقید کرتے تھے انہوں نے اپنی کتاب FUTURE OF AN ILLUSION میں یہ پیشین گوئی کی تھی کہ جوں جوں سائنس کا دائرہِ اثر بڑھے گا مذہب کا دائرہِ کار تنگ ہوتا جائے گا۔

فرائڈ چونکہ یہودی خاندان سے تھے اس لیے جرمنی اور آسٹریا میں ہٹلر کے مظالم کی وجہ سے ان کا دائرہِ حیات تنگ ہو گیا اور انہوں نے ہجرت کے بعد انگلستان میں سکونت اختیار کر لی۔
فرائڈ کو آخری دنوں میں جبڑے کا کینسر ہو گیا تھا۔

فرائڈ کے ساری دنیا میں ہزاروں لاکھوں چاہنے والے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ فرائڈ کے نظریات کو شاعروں ، ادیبوں اور فنکاروں نے بہت پسند کیا۔ فرائڈ کو اپنی زندگی میں طب اور سائنس کا تو کوئی ایوارڈ نہیں ملا لیکن انہیں ادب کا GOETHE AWARD ملا تھا۔ فرائڈ کو ادب سے بہت دلچسپی تھی۔ ان کا OEDIPUS COMPLEX کا تصور یونانی ادب سے ماخوز ہے۔ فرائڈ کا خیال تھا کہ شاعر ادیب ڈرامہ نگار اور ناول نگار وجدانی طور پر اور اپنے مشاہدات اور واردات سے انسانی نفسیات کے ان رازوں سے واقف ہو جاتے ہیں اور ان کا اپنے فن اورادب میں اظہار کرتے ہیں جنہیں ماہرینِ نفسیات اور سائنسدان بعد میں دریافت کرتے ہیں۔

جب میں آسٹریا گیا اور فرائڈ کے کلینک میں حاضری دی تو مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ فرائڈ کے کاؤچ پر ایک ایشیائی کالین بچھا تھا اور آسٹریا کے کرنسی کے نوٹ پر فرائڈ کی تصویر تھی۔ فرائڈ کی سوچ نے انسانی نفسیات کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا تھا۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail