اصولوں پر سمجھوتے سے نواز شریف کی سیاست کو نقصان ہو گا


سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے کہ انتخابات بروقت منعقد ہوں گے اور وہ آئین کی بالا دستی کو یقینی بنائیں گے۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کا وعدہ خوش آئیند ہے لیکن انہیں اپنے عملی اقدامات سے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ وہ ملک میں حقیقی جمہوریت کا راستہ روکنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ آج اسلام آباد میں نیب عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے وہ نکات بھی پیش کئے ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یہ ’ثابت‘ کرسکتے ہیں کہ انتخابات واقعی آئین کے تقاضوں کے مطابق ہوں گے اور کسی ایک پارٹی یا فرد کے ساتھ انتخابات کے دوران زیادتی نہیں ہوگی۔ ان شرائط میں پہلی شرط تو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور لیڈروں کےخلاف نیب کی کارروائی کی روک تھام کے لئے انتخابات تک نیب کو غیر مؤثر قرار دیا جائے کیوں کہ نواز شریف کے بقول 1999 کے آرڈی ننس کے ذریعے انہیں نشانہ بنانے کے لئے ہی یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ اس طرح وہ جو کام پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود کرنے میں ناکام رہے ہیں، اس مقصد کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے ’سو موٹو‘ کے اختیار کے تحت حاصل کروانا چاہتے ہیں۔ بطور سیاست دان یہ مطالبہ خود پر دباؤ کم کرنے اور اپنی سیاسی حیثیت کو چیلنج کرنے والے اداروں کے بارے میں رائے عامہ متاثر کرنے کا ہتھکنڈا تو ہو سکتا ہے لیکن عوامی جمہوریت اور پارلیمنٹ کے اختیار کی بات کرنے والے کسی رہنما کو بنیادی نوعیت کے معاملات سو موٹو کے ذریعے حل کروانے کی بات کرنا زیب نہیں دیتا۔

نیب کے خلاف سپریم کورٹ کے اقدام کے علاوہ نواز شریف سپریم کورٹ سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ نیب عدالت میں ان کے خلاف ہونے والی کارروائی کو براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے کا حکم دیا جائے۔ یہ مطالبہ بھی ذاتی سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے ایک ہتھکنڈے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس وقت نیب عدالت میں چونکہ ان کے وکیل کی طرف سے استغاثہ کے اہم گواہ اور جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا سے سوال جواب کا سلسلہ جاری ہے ، اس لئے نواز شریف کو لگتا ہوگا کہ مقدمہ کی کارروائی براہ راست دکھانے سے ایسے ٹیلی ویژن چینل بھی ان کا مؤقف پیش کرنے پر مجبور ہوں گے جو ان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے مقصد سے کام کرتے ہیں۔ لیکن سیاست اور عدالتوں میں مقدمات بھگتنے کا طویل تجربہ رکھنے کی وجہ سے انہیں یہ بھی علم ہوگا کہ چیف جسٹس اس قسم کے سیاسی مطالبات کو ماننے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ تاہم جسٹس ثاقب نثار اور سپریم کورٹ کے دیگر سینئر ججوں پر مسلسل سخت تنقید کرنے اور اپنا سیاسی بیانیہ عدالت مخالف ’مجھے کیوں نکالا‘ اور ’ ووٹ کو احترام دو‘ جیسے نعروں پر استوار کرنے کے بعد اب جسٹس ثاقب نثار کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان سے تعاون کی اپیل کرنے کا اہم ترین پہلو مفاہمت کا اشارہ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ گزشتہ جولائی میں وزیر اعظم کے عہدے سے نااہل قرار پانے کے بعد سے عدلیہ مخالف مؤقف پر قائم رہے ہیں۔ انہوں نے جی ٹی روڈ سے لاہور کا سفر کرکے اس سیاسی مہم جوئی کا آغاز کیا تھا حالانکہ خبروں کے مطابق شہباز شریف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنما نواز شریف کی اس پالیسی کے خلاف تھے۔ اس کے بعد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز سپریم کورٹ کو بطور خاص اور اسٹیبلشمنٹ کو بالواسطہ طور سے تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ اس دوران ان کے متعدد ساتھیوں کو توہین عدالت کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے خلاف بھی عدلیہ کی توہین کرنے پر متعدد درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں۔ ان میں سے بعض درخواستیں مسترد بھی کی جاچکی ہیں کیوں کہ شاید سپریم کورٹ بھی تصادم کی اس سطح تک جانا مناسب نہیں سمجھتی جہاں وہ ملک کے سب سے اہم اور مقبول لیڈر کو جیل بھیجنے پر مجبور ہوجائے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار ان خیالات کا اظہار بھی کرچکے ہیں ۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ وقت آنے پر ہر شخص کے خلاف کارروائی ہوگی۔ اس وقت سپریم کورٹ نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی دو درخواستیں ایک بار پھر سماعت کے لئے منظور کرچکی ہے۔ اس ماحول میں اور اوپر بیان کئے گئے پس منظر میں نواز شریف کی طرف سے چیف جسٹس کے بیان کا خیر مقدم اور ان کے لئے ’خیر سگالی‘ کا اظہار معنی خیز ہے۔ اسے نودریافت شدہ ’نظریاتی ‘ نواز شریف کی طرف سے تصادم اور ٹکراؤ کی حکمت عملی سے گریز اور مفاہمت کی طرف بڑھنے کا اشارہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ اشارے سامنے آچکے ہیں۔ ہفتہ عشرہ قبل وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملے تھے۔ اگرچہ بعد میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے وکیلوں سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے یقین دلایا تھا کہ اس ملاقات سے عدالت کو ہی فائیدہ ہؤا ہے اور اس نے کھویا کچھ نہیں ہے۔ اس لئے ان کے سینئر وکیل جمع خاطر رکھیں اور ان کی نیت پر شبہ نہ کریں۔ اس حوالے سے اگرچہ سوشل میڈیا پر ہر قسم کی چہ میگوئیاں اور قیاس آرائیاں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن یہ بات بہر طور طے ہے کہ نہ تو شاہد خاقان عباسی اتنی کچی گولیاں کھیلے ہیں کہ وہ نواز شریف کی طرف سے ریلیف کی درخواست لے کر چیف جسٹس سے ملتے اور نہ ہی چیف جسٹس اتنے بھولے ہیں کہ وہ وزیر اعظم کو اس قسم کا غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام کرنے کی اجازت دیتے کہ وہ ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت مقدموں پر ’سفارش‘ کر سکتے۔ یہ ملاقات تنہائی میں ہوئی تھی لیکن دونوں جانتے تھے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ لیکن اس ملاقات سے یہ تاثر بہر صورت سامنے آیا ہے اور برقرار ہے کہ نواز شریف اور سپریم کورٹ کے درمیان مفاہمت کے اشاروں کا تبادلہ کیا جارہا ہے۔

اسی قسم کا اشارہ فوج کی طرف سے بھی سامنے آچکا ہے۔ چند ہفتے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے صحافیوں اور اینکرز کے ایک گروپ سے طویل غیر رسمی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ملک کی سیکورٹی کے علاوہ متعدد سیاسی معاملات پر کھل کر بات ہوئی اور مختلف میڈیا ذرائع میں ان باتوں کے حوالے سےغیر مصدقہ معلومات سامنے بھی آتی رہیں اور ان پر تبصرے بھی ہوتے رہے۔ آف دی ریکارڈ ہونے کے باوجود صحافیوں سے آرمی چیف کی یہ ملاقات ملک میں یہ تاثر پیدا کرنے کا سبب بنی کہ فوج مرکز کو مضبوط کرنے کی خواہش مند ہے اور اس حوالے سے اٹھارویں ترمیم کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ فوج کو نواز شریف قبول نہیں ہیں اور وہ سپریم کورٹ کی اتھارٹی کو برقرار رکھنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ اس ملاقات کی ’رپورٹنگ‘ سے یہ تاثر بھی قوی ہؤا کہ فوج اور سپریم کورٹ ‘ایک پیج‘ پر ہیں اور نواز شریف تن تنہا ان کے ’مد مقابل ‘ ہیں۔ لیکن اس دوران یہ اشارے بھی سامنے آتے رہے کہ نواز شریف تنہا ہونے کے باوجود ووٹ کے احترام اور اپنی نااہلی کو بے بنیاد بتانے کے مؤقف کی وجہ سے عام شہریوں میں مقبولیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔ اس کے علاوہ خفیہ نمبروں سے پر اسرار ٹیلی فون وصول ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) میں کوئی بڑا شگاف نہیں ڈالا جاسکا۔ نواز شریف کی یہ طاقت اور رائے عامہ کے اس اظہار ہی کا سبب تھا کہ گزشتہ ہفتے کے شروع میں آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ فوج اٹھارویں آئینی ترمیم کے خلاف نہیں ہے اور وہ صوبوں کو حقوق دینے کی حامی ہے۔ یہ بیان چونکہ وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات کے ایک روز بعد سامنے آیا تھا، اس لئے اس کی ٹائمنگ بھی معنی خیز تھی۔ اسی لئے اسے فوج اور عدالتوں کی طرف سے ’جنگ بندی‘ کا اعلان کہا جاسکتا ہے۔ نواز شریف کے بیان کواگر اس تناظر میں پڑھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اب نواز شریف باقاعدہ طور پر یہ تصدیق کررہے ہیں کہ یہ ’جنگ بندی‘ یک طرفہ نہیں ہے بلکہ وہ بھی اس کے لئے تیار ہیں۔

اگر ان اشاروں کو اس طرح سمجھا جائے کہ سیاست دان اور ادارے کھلم کھلا تصادم سے گریز کو اہم سمجھتے ہیں تو ملک کے الزامات اور شبہات سے بھرپور منظر نامہ میں یہ ایک اچھی خبر ہے۔ لیکن اگر اس کا یہ مقصد برآمد ہؤا کہ نواز شریف نے چند ماہ مزاحمت کرنے کے بعد ان ’اصولوں‘ پر سمجھوتہ کرلیا ہے جن کا اعلان کرتے ہوئے وہ اپنے نظریاتی ہونے کے دعوے کررہے تھے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان نواز شریف کی سیاسی طاقت اور مقبولیت کو ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali