برطانیہ کے ایک ٹیکسی ڈرائیور کی ڈائری(2)


\"moqaddus

 اگر آپ برطانیہ کے ٹیکسی ڈرائیوروں کا بغور جائزہ لیں تو ان میں ایک چیز مشترکہ نظر آئے گی کہ انکےکانوں میں بلیو ٹوتھ یا ہینڈز فری لازمی ٹھنسا ہو گا۔ کیونکہ یہ ہر وقت اپنے کسی ایک، دو یا دو سے زائد ساتھیوں سے محو گفتگو ہوتے ہیں۔ اور مسلسل اپنے محل وقوع، اردگرد کے حالات پر رننگ کمنٹری کر رہے ہوتے ہیں کہ آج ٹاون کتنا  مصروف ہے؟ سواریاں کتنی ملنے کا امکان ہے، کونسا پلاٹ چل رہا ہے؟ کہاں سے اچھی اور لمبی سواریاں مل سکتی ہیں۔ جس طرح حجام کی دوکان میں، کسی دیوار پر لکھی ہوئی اس تنبیہہ کے باوجود کہ \’\’سیاسی گفتگو کرنا منع ہے\’\’ وہاں نہ صرف سیاسی گفتگو شدّومد سے ہو رہی ہوتی ہے بلکہ حجام خود بھی اینکر کے فرائض، قینچی چلاتے چلاتے بار بار روک کر سرانجام دے رہا ہوتا ہے، اسی طرح ٹیکسی ڈرائیور بھی آپس میں برطانیہ کے رہن سہن، طرز معاشرت، روزمرّہ کے مسائل پر بات کرنے کی بجائے،پاکستانی سیاسی حالات پر بات کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ اس میں وہ کسی بھی سیاسی لیڈر کو اپنی پسند ناپسند کے مطابق فرشتہ یا شیطان قرار دے کر دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔ اور بار بار یہی بآور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کاش ان سے مشورہ لے لیا جائے تو پاکستان کی حالت یہ نہ ہو جو آج ہو چکی ہے۔ چاہے دوسری طرف اپنے بچے کنڑول میں نہ ہوں۔ دلچسپ بات ہے کہ  benefits یا ٹیکس کے متعلق فون پر کوئی بات نہیں کرتے کہ مبادا کوئی  MI5(برطانوی جاسوسی ادارہ) کا بندہ ان کی ٹیکس بچانے والی ترکیبیں خفیہ طور پر نہ سن لے۔ لہذا ایسی باتیں وہ سی سی ٹی وی کیمرہ کے سامنے بھی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

\"taxiاگر آپ پرائیویٹ ہائیر کے ڈرائیور ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ جس کمپنی کے ساتھ منسلک ہیں وہ آپ کو یونیفارم بھی پہنوا دے جو شائد کبھی ہم نے اسکول کے بعد ہی پہنا ہوگا۔ اسی یونیفارم کی پابندی سے تنگ آکر مجھے ایک ٹیکسی آپریٹنگ کمپنی کے منیجر سے کہنا پڑا کہ \’\’قبلہ جانے دیں چلانیاں ٹیکسیاں تے لانیاں ٹائیاں\’\'(چلانی ٹیکسی ہے اور اوپر سے ٹائی لگانی ہے) ۔ ہم نے کونسا کسی دفتر میں بیٹھ کر کمپیوٹر چلانا ہے یا ڈی پی او بن کر ضلع میں امن و امان پیدا کرنا ہے۔ مگر کیا کریں ان کمپنیوں کااصرار ہوتا ہے کہ اس سے سواری اچھا اثر لیتی ہے۔ اس کے برعکس بلیک کیب میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ ہر لحاظ سے آزاد ہوتا ہےاور صحیح معنوں میں اپنا باس خود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلیک کیب کے ڈرائیور،آپ کو نہ صرف شلوار قمیض میں ملیں گے بلکہ چہرے کی ریش مبارک، شلوار کی لمبائی، پین کی جگہ مسواک، ٹوپی کے انواع و اقسام کے رنگ اور ڈیزائین سے آپ بخوبی اندازہ لگا لیں گے کہ یہ حاجی صاحب الحمداللہ مسلمان تو ہیں ہی مگر کس فرقے، جماعت یا پیرِ طریقت سے ان کا بلاواسطہ یا بالواسطہ روحانی تعلق ہے۔ مگر وضع قطع چاہے جو کوئی بھی ہو، کرایہ یہ پورا ہی لیتے ہیں۔ اس معاملہ میں کسی قسم کی رعایت کو صریحاً حرام سمجھتے ہیں تا آنکہ کوئی ناہنجار ٹیکسی سے اتر کر بھاگ جانے کا گناہ کبیرہ نہ کرلے۔اب  اس بھاگتے ہوئے گناہ گار کو وہ نیکی کی تبلیغ تو کرنے سے رہے لہذا یہ شارٹ کٹ میں،پاکستانی سب و شتم کا طریقہ اپناتے ہوئے اسے کوسنے یا بدعاؤں کی بجائے انگریزی، اور مادری زبان کو مکس کر کے وہ صلواتیں سنواتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ کیونکہ کوئی سواری کرایہ نہ دے اور بھاگ جائے؟ یہ ایک ایسا فعل شنیع  سمجھا جاتا ہے جسے ٹیکسی ڈرائیور کبھی معاف نہیں کرتا اور اس وقت تک اپنے ساتھی ٹیکسی ڈرائیوروں کو اس سانحہ کے بارے بتاتا رہتا ہے جب تک کوئی اور گناہ گار سواری یہ فعل قبیح دوبارہ سرزد نہ کرلے۔

یہ کرایہ نہ دے کر بھاگنے والے جسے ہم مختصر زبان میں \’\’رنر\’\’ کہتے ہیں، پرائیویٹ ہائر میں زیادہ پائے جاتے ہیں جبکہ بلیک کیب میں جب تک کرایہ نہ دیں ٹیکسی لاک رہتی ہے لہذا اگر کوئی کرایہ نہ دے تو بلیک کیب والا اسے قریبی تھانے بھی لے جاتا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ کہ بلیک کیب میں سے بھی اتنے حفاظتی انتظامات کے باوجود، سواریاں بھاگ جانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ ایسی پھُرتیلی مفت خور سواریوں کو یقیناً داد دینا پڑے گی۔ مگر وہ ٹیکسی ڈرائیور جو برسوں سے ٹیکسی ڈرائیور ہیں اور جدی پشتی یہی کام کررہے ہیں اور وہ بلا معاوضہ، پرانے خلیفہ پہلوان کی طرح میرے جیسے نو آموز ٹیکسی ڈرائیوروں کی سر پرستی بھی فرماتے ہیں، ان کو پتہ ہوتا ہے کہ کون کون سے محلوں کے لوگ زیادہ تر بھاگنے والے ہوتے ہیں۔ لہذا ان کے بقول، مسافر سے اسکی منزل پوچھ کر اور جائزہ لے کر کہ بندہ کتنی دور جا رہا ہے اندازہ کر لیا کرو کہ اگر بھاگ جائے گا تو کتنے پیسوں کا نقصان پہنچائے گا۔ پھر یہ کہ وہ شکل سے کتنا معزز لگ رہا ہے؟ یا چہرے ہی سے چھٹا ہوا بدمعاش، یا کنگلا دکھتا ہے۔ اسکی مارفولوجی \"taxi01\"یا ہیئت دیکھ کر فوری اندازہ لگا لیں کہ یہ کرایہ دے گا یا معاشی نقصان کرے گا۔۔ یہ اسی طرح ہے کہ جب میں پاکستان میں شعبہ تدریس میں \’ملوث\’ تھا تو ایک پرائمری اسکول میں اپنے ایک پڑھے لکھے دوست استاد کو ملنے گیا۔ اس وقت دیہاتی اسکولوں میں قلم دوات کا رواج تھا۔ اچانک میرے دوست استاد کے پاس غالباً پہلی جماعت کا ایک طالب علم دوڑتا ہوا آیا اور اس طرح شکایت لگائی \’\’ماسٹر جی ماسٹر جی، جیدا میری دوات وچوں ڈوبے لین نوں پھر دا جے\’\'( کہ ماسٹر صاحب جیدا (اسکا کلاس فیلو) اسکی دوات میں سے اپنی قلم ڈبو کر لکھنے کی سازش کر رہا ہے)۔ بالکل اسی طرح میرے ٹیکسی کے اساتذہ نے بھی رنر سے بچنے کے لیے کچھ خصوصیات بتائیں کہ کیسے چہرہ شناسی کرنی ہے اور جیسے ہی بندہ مشکوک لگے تو کرایہ پہلے وصول کر لینا ہے۔ نیز یہ کہ  اگر وہ کہے کہ آگے جا کر یا گھر جا کر پیسے دے دوں گا تو اس کو وہیں اتار دینا ہے۔ اگر نہ اترے تو زبردستی اتارنا ہے، اگر زیادہ سواریاں ہوں تو رونق والی جگہ ہی رہنا ہے تا کہ آپ کی حفاظت بھی ہو سکے۔

میں نے بھی یہ ہدایات بغور سنیں اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش شروع کردی۔ مگر کیا کریں کسی سے مانگنے کی عادت تو تھی نہیں اسی وجہ سے مجھے کرایہ مانگتے ایسے ہی شرم آتی جیسے سواری سے قرض مانگ رہا ہوں۔ \"taxi68420938_o\"اسی شرم کے چکر میں، مجھے ہر ہفتے ایک آدھ رنر کا سامنا کرنا پڑتا۔ مگر دوستوں کے اصرار پر کہ \”کاظمی صاحب کچھ ٹھیٹ ہو جائیں ورنہ یہ شعبہ آپ کے لیے ٹھیک نہیں کوئی اور کام کریں\”۔ تو مرتا کیا نہ کرتا کہ میں نے تو لیکچر دینا ہی سیکھا تھا اور ماسٹری کا کام تو پاکستان میں کوئی ماننے کو تیار نہیں تو یہاں کون ہمیں استاد تسلیم کرے۔ جس طرح ہمارے ایک دوست ہیڈماسٹر صاحب تھے وہ کہا کرتے تھے کہ جب بھی میں چھٹیوں میں گھر جاتا ہوں تو گاؤں کا ایک بزرگ ہر دفعہ مجھ سے ضرور پوچھتا ہے کہ ملک صاحب کوئی نوکری ملی ہے کہ ابھی تک ماسٹر ہی ہیں۔

اب جبکہ ٹیکسی میں بیٹھی سواری کی میں نے خلیفہ ٹیکسی کی ہدایات کے تناظر میں  فیس ریڈنگ کرنا شروع کی کہ آیا یہ کرایہ دے گا یا بھاگ جائے گا تو ایفریقن برطانوی اور اپنے ایشیائی باشندوں کے علاوہ تمام گورے معزز ہی لگتے۔ ویسے بھی ہمارے اندر گوروں کی عزت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے کیونکہ آخر کو یہ ہمارے حکمران بھی رہے ہیں۔ ویسے بھی ہم تو جس سر زمین کے باسی ہیں ہم نے ہمیشہ حملہ آوروں، غاصبوں کی زیادہ تر مہمانداری کے ساتھ ساتھ \"taxi_2053243b\"وفاداری ہی کی ہے۔ گوروں سےاس اندھی محبت کی پٹی اسی وقت اتری جب یہ عقدہ کھلا کہ بھاگنے والوں کا تناسب تمام رنگ و نسل میں تقریباً ایک جیسا ہے سوائے چینیوں کے جو کم کم ہی بھاگتے ہیں۔جبکہ پھر بھی، ایفریقن برطانوی باشندے یا دیسی اپنے رنگ و نسل اور حرکات کی وجہ سے جلد ہی مشکوک ہو جاتے ہیں۔۔ اب آپ اسے نسلی تعصب نہ سمجھیے گا مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمیں دیسی سے زیادہ گوروں کی قربت کی خواہش ہوتی ہے اور اگر گوری مل جائے تو سونے پر سہاگہ۔ لیکن حقیقت ہے کہ محفوظ ہم پھر بھی اپنوں میں ہی زیادہ ہوتے ہیں یا محسوس کرتے ہیں۔

اگرچہ اب ہمیں دو تین سال کا ٹیکسی کا تجربہ بھی ہو چلا ہے مگر آپ خود ہی بتائیے گا کہ ایک بندہ تھری پیس سوٹ میں ہو اور گورا بھی ہو، شکل سے بھی معزز لگے تو ظاہر ہے کہ اس سے تو کرایہ نہیں مانگا جاسکتا ناں۔ اور اگر وہ بھی اپنی منزل کے قریب رکے اور کہے کہ ذرا ٹھہریے گا میں کرایہ لے کر آتا ہوں اور پھر اسی تھری پیس سوٹ سمیت بھاگ کھڑا ہو تو کیا کیا جائے؟ جی ہاں! میرے ساتھ ایسا ہوچکا ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ لباس، چہرے کی تراش خراش سے انسان معزز اور بے ضرر نہیں ہوسکتا بلکہ اندر سے وہ کیا ہے، اسکی تربیت کیسی ہوئی ہے، اسکا وہ مجموعی عمل ہی اسکی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس کے بعد کیا کیا جائے کیا بھاگنے والے کو کوسا جائے؟ گالیاں دی جائیں؟ کیا اس سے کرایہ واپس مل جائے گا؟  ہاں بھاگنے والے کی کم از کم دل میں تو بھاری بھرکم مذمت کرنے کے علاوہ ساتھی ٹیکسی ڈرائیوروں کو تو بتا سکتے ہیں جو اس غم میں برابر شریک ہو کر نہ صرف اس بھاگنے والے کے شجرہ نسب کے پنجابی زبان میں وہ قلابے ملاتے ہی کہ اگر وہ \’\’رنر \’\’ اپنی یہ تعریف سن لے تو آئندہ یہ گناہ کبیرہ کرنے کا سوچے بھی نہ۔

\"taxi-00005D\"جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ چونکہ ہم اکثر ایک دوسرے کے ساتھ بذریعہ موبائل فون محو گفتگو بھی رہتے ہیں مگر کوشش کرتے ہیں جب سواری ساتھ ہو تو سلسلہ گفتگو منقطع کر دیا جائے کہ یہاں یہ ادب و آداب کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی اگر گفتگو اپنے تئیں اہم ہو تو سواری سے اخلاقاََ اجازت لے کر پہلے تو یہ بتاتے ہیں کہ جا کہاں رہے ہیں اور پھر کسے لے کر جارہے ہیں۔ ظاہر ہے کسے لے جا رہے ہیں کے لئے ہم سواری کی شکل و شباہت اور انداز گفتگو سے اندازہ لگا کر ہم بھی \’ہم سب\’ کی طرح خط نسخ کی جگہ پنجابی خطِ منسوخ مگر یونیکوڈ میں،مختلف اصطلاحیں استعمال کر کے اگلے کو بتا دیتے ہیں کہ کون ہمارے ساتھ ہے۔ مثال کے طور پر افریقی برطانوی  بیٹھے ہوں تو کہتے ہیں کہ بٹ صاحب ساتھ بیٹھے ہیں، چینی بیٹھے ہوں تو کہتے ہیں کہ میٹھے بٹھائے ہوئے ہیں، کسی غریب یورپی ملک کا باشندہ ہو جسے انگریزی بھی عموماً اتنی ہی آتی ہے جتنی ہمارے ملک میں ایک نوجوان کو بی اے پاس کرنے کے بعد آتی ہے تو دوست کو بتایا جاتاہے کہ یورپی کمیّ بٹھائے ہوئے ہیں۔ کوئی عربی ہو تو اسے بدو تو کہنے سے رہے لہذا اس کو تیل کی مناسبت سے تیلی کا نام دیا جاتا ہے اور اگر کوئی اپنا دیسی ہوں تو کوئی بات نہیں کرتے صرف اتنا کہتے ہیں کہ راجہ صاحب ایک منٹ بعد بات کرتا ہوں۔ نشے میں دھت شرابی ٹیکسی میں بیٹھے ہوں تو کہتے ہیں کہ ملنگ یا ملنگنی (انکی صنف کے لحاظ سے) لے کر جارہا ہوں۔ ایسے ہی سیکس ورکر ہو تو طوائف وغیرہ وغیرہ۔ ان القابات کے جواب میں ساتھی ٹیکسی ڈرائیور ہر رنگ و نسل اور پیشے کے اعتبار سے اس پر پھبتی کستا ہے یا ہجو کرتا ہے۔

اسی طرح، بلیک کیب کو پرائیویٹ ٹیکسی والے لگڑ بگڑ بھی کہتے ہیں کیونکہ ان کی ٹیکسی کا پچھلا حصہ ایسے ہی پچکا ہوتا ہےجیسے لگڑ بھگڑ کی کمر ٹوٹی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ براہ مہربانی کوئی بلیک کیب کا ٹیکسی ڈرائیور یہ نہ سمجھے کہ ہم ان کو لگڑ بگڑ کہتے ہیں۔ توبہ توبہ جناب ایسی بات نہیں، بلکہ یہ خطاب صرف ٹیکسی کے لیے ہے نہ کہ ڈرائیور کے لئے۔ اب جو بات میں آگے کرنا چاہ رہا ہوں اسے آپ نسلی تعصب پر مبنی مت سمجھیے گا مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی  افریقی برطانوی باشندہ یا کوئی اپنا دیسی ہم وطن نوجوان خاص طور پر ٹین ایجر آپ کے ساتھ بطور سواری بیٹھ جائے، پھر چاہے وہ مرد ہو یا عورت، وہ آپ کو لمبے راستے سے گھر لے جانے والا چور یا لٹیرا ٹیکسی ڈرائیور ضرور سمجھے گا۔ اور جیسے ہی آپ آدھا سفر طے کریں گے وہ آپ پر الزام لگا دے گا کہ Ay Taxi man, you are taking us too long way  (اوے ٹیکسی والے، تم لمبے راستے سے لے جا رہے ہو) اس بات کے باوجود کہ اس نے آپ کو خود ہی اپنی منزل کی راہنمائی کی ہو۔ اب بتائیں کہ جب آپ ایمانداری سے اسے مختصر راستے سے \"taxies\"ہی اس کی منزل پر لے جا رہے ہوں تو یہ جملہ سن کر آپ کی کیا حالت ہوگی؟۔ یقیناً بندہ اپنے آپ کو چور ہی محسوس کرے گا ناں۔ شروع میں تو میں غصےمیں گاڑی روک لیتا اور کہتاکہ  تم بتاو کہاں سے جانا ہے؟ یا پھر اگر غصہ زیادہ آتا تو میڑ بند کر کے کہتا کہ اوکے میں واپس وہیں پر جا رہا ہوں جہاں سے تمہیں اٹھایا تھا اور پھر تم بتاو گے کہ کیسے جانا ہے۔ اس صور تحال میں یا تو وہ مزید سیخ پا ہو جاتا یا پھر میرے تیور دیکھ کر کہتا سوری یار غلطی ہو گئی تم چلتے رہو۔ اب بات نہیں کروں گا۔ مگر اس دفعہ میں پھر اسے کہتا کہ منزل کی ہدایات اب صرف تم ہی دو گے۔ اس کے بعد ان ناگوار لمحات سے نمٹنے کے لیے تو میں ایسا ہی کرتا کہ جب کوئی افریقی برطانوی یا دیسی دیکھتا ہوں تو اسے کہتا ہوں کہ منزل کی ہدایات بھی وہی دے گا۔ کیونکہ ذہن میں یہی ہوتا کہ ایک آدھ پاؤنڈ سے میں کون سا امیر ہوجاؤں گا۔ اسی لیے وقت گزرنے کے ساتھ یہ سیکھا ہے کہ ہر سواری سے سفر شروع کرنے سے پہلے پوچھ لیتا ہوں کہ اگر انکی نظر میں کوئی پسندیدہ یا ترجیحی رستہ ہے تو بتا دیجیے گا میں اسی راستے سے لے کر جاوں گا۔ مگر اتنی اختیاط کے باوجود اگر کوئی پھر بھی کہے کہ اے مین! تم لمبے راستے سے لے کر آئے ہو تو پھر آپ کا کیا کرنے کو جی چاہے گا؟

\"taxiیہ سوال تو پھر بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا کرایہ زیادہ بھی لیا جاتا ہے؟ جی ! لیا جاتا ہے اور یہ حرکت اکثر ٹیکسی ڈرائیور انجان مسافروں یا نشے میں دھت مسافروں سے کر جاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے اکثر لاہور کے رکشہ ڈرائیور، باہر کے مسافروں سے ہاتھ کر جاتے ہیں۔ اسے ہم مقامی زبان میں Rip Off کہتے ہیں۔ مثلاً نشے میں دُھت مسافر سے، سفر شروع کرنے سے پہلے کرایہ مانگا جاتا ہےجو وہ دے دے تو جب وہ منزل پر پہنچ جاتا ہے تو ایک دفعہ پھر کرایہ مانگ لیا جاتا ہے جو عموماً گورا مسافر یہ سمجھ کر کہ اس نے ابھی کرایہ دینا ہے، ایک دفعہ پھر شکریے کے ساتھ شرافت و ایمانداری سے کرایہ دے کر ٹیکسی سے اتر کر چلا جاتا ہے۔

اسی ضمن میں میرا ایک دوست ٹیکسی ڈرائیور بتا رہا تھا کہ ایک دفعہ نشے میں دُھت گورا مسافر میری ٹیکسی میں بیٹھا اور کہنے لگا کہ فلاں جگہ جانا ہے کتنے پیسے لو گے؟ تو دوست ْٹیکسی ڈرائیور نے جواب دیا \’\’یہی کوئی بیس پاونڈ؟\’\’ اچھا ٹھیک ہے! اور پھر وہ ٹیکسی میں بیٹھ گیا اور جیب سے بیس پاونڈ کا نوٹ نکال کر میرے دوست کو کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔ \’\’یہ لو بیس پاونڈ\’\’۔ میرے دوست نے شکریے کے ساتھ وہ پیسے جیب میں ڈال لیے۔ تھوڑی دیر بعد اس گورے نے پھر جیب سے بیس پاونڈ نکالے اور ٹیکسی ڈرائیور دوست کو دئیے کہ یہ لو بیس پاونڈ۔ میرے دوست \"taxiنے بصد شکریہ پھر جیب میں رکھ لیے، اسی طرح منزل تک پہنچتے پہنچتے وہ گورا اسے تقریباً سو پاونڈ دے چکا تھا اور میرا دوست وہ مال غنیمت بقول انجم چوھدری جہادی فنڈ سمجھتے ہوئےجیب میں ڈالتا رہا۔ اور اپنی منزل پر پہنچ کر اس گورے نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے پوچھا کہ آیا اس نے کرایہ دے دیا ہے؟ پھرمیرے دوست کے جواب سے پہلے ہی پھر سے بیس پاؤنڈ ادا کر کے انتہائی شکریہ کے ساتھ لڑکھڑاتا ہوا سامنے گھر کو چل دیا۔

میرے ساتھ بھی نشے میں دھت ایک خاتون کا واقعہ پیش آیا۔ ہو ا یوں کہ ایک نشے میں دھت عورت کو میں نے کسی ہوٹل سے اٹھایا۔ جسے بڑے پیار سے اس کے چاہنے والے نے میری ٹیکسی میں بٹھایا اور مجھے کہا کہ اس خاتون کو احسن طریقے سے گھر چھوڑ دیجیے گا۔ میں اس حسینہ کی منزل کا پوسٹ کوڈ لے کر اس کی منزل کی طرف چل پڑا۔ کوئی دس میل کا سفر تھا اور دل میں خوش تھا کہ بیس پچیس پاونڈ کرایہ تو بن ہی جائے گا اور اگر بخشش (Tip)بھی مل گئی تو فبہا۔ غرض دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا اس مسافرہ کی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ کیونکہ جب ٹیکسی ڈرائیور کو بیس پاونڈ کی سواری مل جائے تو وہ اسے لمبی سواری سمجھتا ہے۔  جیسے ہی میں نے اسے منزل پر پہنچایا اور حلیم لہجے میں اس سےکرایہ مانگا25  pounds please\’\’ \’\’ (پچیس پاونڈ پلیز)تو وہ کہنے لگی، کہ پیسے تو میرے دوست نے دینے تھے کیا اس نے نہیں دیے؟ میں ایک دم سیٹ سے اچھلا۔ مگر پھر اپنا غصہ پیتے ہوئے بولا \’\’جی نہیں اس نے نہیں دیئے\’\’، \’\’تو پھر میرے پاس بھی پیسے نہیں ہیں\’\’ وہ بے اعتنائی بولی۔ اب میرا سر پیٹنے کو جی کر رہا تھا۔ ایک تو وہ نشے میں دُھت، دوسرے عورت ذات، کہ اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا کہ ہاتھ لگا نہیں اور  ہراساں کرنے کا کیس بنا نہیں۔ ٹیکسی بیج تو کینسل ہوگا ہی ساتھ Ban بھی ہوں گا اور بونس میں جیل الگ۔ یا پھر اس وقت تک جیل کے پیچھے جب تک بے گناہ ثابت نہ ہوجاؤں۔ بس یہ سب سوچ کر تلخ لہجے میں کہا کہ جاؤ میری ٹیکسی چھوڑ دو اور اسے تنبیہی انداز میں کہا کہ خبردار جو آئندہ ایسی حرکت کی۔ وہ یہ سنتی رہی اور پھر شکریہ ادا کر کے ٹیکسی سے نکل کر چلی گئی۔ اور اس کا یہ شکریہ بھی مجھے کسی بھاری بھر کم پتھر کی طرح لگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments