اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا



قومی المیے سیاسی عدم استحکام اور نظام کو بہتر کرنے کی بجائے اس کے خلاف سازشوں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ لیکن تاریخ کے بدترین سچ میں سے یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ تاریخ سے کسی نے کبھی سبق نہیں سیکھا اور تاریخ یونہی دہرائی جاتی رہی ہے۔ ہم دوسری جنگ عظیم اور نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد اگر ممالک کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو واضح فرق محسوس کریں گے کہ جن ممالک نے رائے عامہ کی رائے کے مطابق اپنے نظام برقرار رکھے اور شخصی خواہشات کو جمہوریت کے قتل کی خاطر استعمال نہیں کیا وہ ممالک ان ممالک کی بہ نسبت جن میں روز پتلی تماشے سجائے گئے۔ اپنے عوام کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنے میں کامیاب رہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کے عوام کے سامنے بھی یہ سوال بار بار زبردستی لا کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ ان کو کنٹرولڈ ڈیموکریسی چاہیے یا مکمل جمہوریت میں وہ سانس لینا چاہتے ہیں۔ حالانکہ آج اگر ہم کنٹرولڈ ڈیموکریسی یا اپنی پسند کے اپنے حلقوں تک محدود سیاسی دانوں کے ذریعے اقتدار پر قابض رہنے کے واسطے تخلیق سیاسی جماعتوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ جماعتیں ہمیں تاریخ کے کوڑے دان میں ہی ملیں گی۔ ایوب خان نے اپنی ذاتی مسلم لیگ بنائی۔ آج صرف ایک آمر کی حاشیہ بردار کے طور پر اس کا ذکر ہوتا ہے۔ مشرف نے بھی ایک مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ تخلیق کی۔

آج پیپلز پارٹی پیٹریاٹ تو سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ جبکہ ق لیگ کی یہ حالت ہے کہ اس کی قیادت اپنے انتخابی حلقے سے بھی کامیابی کے لئے بے یقینی کے سایوں میں موجود ہیں۔ اس کے برعکس ماضی میں دو منتخب وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے خلاف غیر آئینی اقدامات اٹھائے گئے۔ پھانسی اور جلاوطنی مقدر ٹھہرے مگر آج بھی ان دونوں وزرائے اعظم کی قیادت کو تسلیم کرنے بلکہ ان کی مالا جپنے والی سیاسی جماعتیں قومی سیاست میں پوری طرح موجود ہیں۔ مصنوعی قیادت مسلط کرنے والے اور اس کی خواہش رکھنے والوں کے لئے اس میں بڑا سبق موجود ہے۔

ایک اور حقیقت بھی سامنے ہی موجود ہے کہ دونوں منتخب وزرائے اعظم سے جس نوعیت کا سلوک آمروں نے کیا بچ خود بھی نہ پائے۔ جنرل ضیاء نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک پہنچا کر ان کا زندگی سے ناطہ تڑوا دیا مگر خود بھی زندہ اقتدار سے واپس نہ جا سکے۔ جنرل مشرف نے نوازشریف کو جبراً جلا وطنی کی زندگی کی جانب دھکیل دیا اور آج خود بھی جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بلکہ ان کے اقتدار کے بعد ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ سمجھی جاتی ہے کہ کمر ٹوٹ جانے کا دعویٰ کر کے وہ مفرور ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ کیا کوئی اب بھی ایسے انجام کا شکار ہونا چاہتا ہے؟ افسوس ناک ہو گا۔

ابھی حال ہی میں یہ دعویٰ سنائی دیا کہ اگر ملک کو غیر آئینی نظام حکومت کی جانب دھکیل دیا جائے تو بین الاقوامی برادری کو اس سے کوئی خفگی نہیں ہو گی۔ نہ جانے یہ دل میں کیسے سما گیا یا کس نے یہ پٹی پڑھا دی کہ ماضی میں غیر آئینی اقدامات پر بین الاقوامی برادری نے جوان بیوہ کی مانند سوگ کیا تھا۔ ایوب، یحییٰ، ضیاء اور مشرف کے آنے پر بین الاقوامی سیاست میں کارفرما ممالک کے سربراہوں نے جوش جذبات میں دیواروں سے سر پھوڑ لیا تھا کہ اب پاکستان میں سیاسی بے یقینی جو سماجی انتشار اور پستی کا باعث ہو گی پاکستان کا مقدر ہو گی۔ جناب عالی! اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ بین الاقوامی طاقتوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ پاکستان میں کونسا نظام حکومت ہے۔ بلکہ ان کے مفادات اس میں ہوتے ہیں کہ وہ دیکھے کہ کن حالات میں وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ سمیٹ سکتے ہیں۔ اور آمرانہ ادوار ان کے لئے پسندیدہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ اپنی کمزور سیاسی پوزیشن اور غیر آئینی حکومت کی بناء پر آمر کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ بڑی طاقتوں کا دباؤ برداشت کر سکیں۔

اس کا نتیجہ کیا کیا نکلا؟ سیٹو، سینٹو وہ جہاد جو اب فساد قرار دیا جا رہا ہے۔ ضرورت کے وقت معاہدوں کی تشریح آمریت کے ہتھیاروں کی پابند ہے۔ ملک ٹوٹ جانا کہ جس کے متعلق علانیہ کہا کہ ہاں ہم پاکستان توڑنا چاہتے تھے مگر اسی دوران جب چین تک امریکہ کو سفارتی راہداری دی جا رہی تھی تو ملک کے لئے کوئی فائدہ مند شے حاصل کرنے کی بجائے گردن جھکا کر یہ مانگا جا رہا تھا کہ ہمیں قبول رکھیں۔ مستقبل میں بھی خدانخواستہ اگر کوئی سانحہ ہوا تو گردن جھکی ہی رہے گی۔ پانچ منٹ میں اقتدار کے سنگھاسن پر ممکن ہے کہ بیٹھا جا سکتا ہو مگر اس کے بعد حالات یہاں تک پہنچ جاتے ہیں کہ جس میں اپنے ماتحتوں کو جو آج بھی قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ یہ ہدایت جاری کرنی پڑ جاتی ہے کہ اپنی پہچان والے لباس میں مت نظر آنا ورنہ خاک میں ملا دیے جا سکتے ہو۔ یہ کوئی تاریخ کے گمشدہ اوراق نہیں ہیں بلکہ صرف ایک دہائی قبل کا المیہ ہے۔

کسی میڈیا گروپ سے ذاتی پرخاش رکھتے ہوئے یہ دعویٰ سنائی دے رہا ہے کہ اگر چاہیں تو بند کروا دیں۔ آپ بند کروا بھی دیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کیا رائے عامہ آپ کی ہمنوا ہو گی یا نفرین بھیجے گی۔ کیا ماضی میں اس اخبار اور اس کے نیوز چینل پر پابندی مستقل برقرار رہ سکی۔ کیا جب یہ واپس آئے تو قارئین اور ناظرین کی تعداد مزید بڑھ نہیں گئی۔ کسی میڈیا ریٹنگ والے سے پوچھیں۔

مگر بدقسمتی سے جو آج کل پوچھ رہے ہیں اور جنہیں آپ سے بھی پوچھنا چاہیے وہ تو آپ کے اشاروں پر قدم اٹھا رہے ہیں۔ حالانکہ جسٹس سعید الزمان صدیقی مرحوم بیان کرتے تھے کہ جب مشرف نے ان کو روکنا چاہا تو ایک کیپٹن کے ذریعے چیف جسٹس آف پاکستان کو گھر پر پابند کر دیا۔ لیکن جسٹس صدیقی مرحوم قابل احترام آج بھی ہیں کہ وہ آئین کے تحفظ کے لئے روکے گئے تھے۔ کتنا افسوس ناک وہ منظر ہو گا اگر کوئی غیر آئینی نظام لانے والوں کا ہمنوا ہوا اور پھر مزاج شاہی نے ٹشو پیپر کی طرح اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ تو وہ اس وقت لائق احترام بھی نہیں ہو گا۔ بلکہ ”دیکھے مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو“ بنا بیٹھا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).