موہن جو دڑو کا خزانہ


حکومت کی جانب سے موہن جو دڑو پر عالمی سیمینار منعقد کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد، مجھے ذمہ داری دی گئی تھی کہ میں پڑوسی ملک جا کر نہ صرف وہاں کے ادیبوں اور دانشوروں کو دعوت نامے پہنچائوں، بلکہ اس ملک میں موجود ایک بہت ہی اہم شخصیت کو بھی سیمینار میں شرکت کے لئے رضامند کروں۔

ہماری سرکار کے ثقافت والے سائیں کا خیال تھا کہ اس شخصیت کے شریک ہونے سے عالمی سیمینار کو چار چاند لگ جائیں گے۔ ثقافت والے سائیں کا کہنا تھا کہ شاہ لطیف نے تو اپنی شاعری میں چوراسی چاندوں کا ذکر کیا ہے لیکن چونکہ موہن جو دڑو کا سیمینار بھی عالمی پیمانے کا ہے، اس لئے اس سیمینار میں چوراسی نہیں تو چار چاند تو ضرور لگنے چاہییں۔ ہمارے ثقافت والے سائیں شاعری کا شوق بھی فرماتے ہیں اور چونکہ شاعری اور چاند کے آپس میں قدیم تعلقات بھی ہیں، اس لئے آثار قدیمہ کے معاملے پر ثقافت والے سائیں کے ساتھ ہاں میں ہاں ملانا اور ان کی ہر بات پر واہ واہ کرنا لازم تھا، اس لئے میں نے جی حضوری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ثقافت والے سائیں کے سنہری خیالات سے سو فیصد اتفاق کرنے پر وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے مجھے سرکار کا نمائندہ بنا کر دو دن کے لئے پڑوسی ملک بھیج دیا۔

پڑوسی ملک پہنچ کر میں نے سوچا کہ پہلے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو دعوت نامے پہنچا دوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلے دن دعوت نامے نہ پہنچانے پر پڑوسی ملک کے ادیب، شاعر اور دانشور بھی ہمارے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی طرح احتجاج شروع کردیں اور ان کے احتجاج کی وجہ سے دونوں ممالک کے بگڑے ہوئے تعلقات مزید بگڑ جائیں اور اس کی ساری ذمہ داری مجھ پر آن پڑے! اس خوف کی وجہ سے میں نے بلا تاخیر ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے دروازوں پر دستک دینا شروع کر دی اور ان کو دعوت نامے پہنچائے۔ اس فرض کی بجاآوری پر مجھے شاعروں کا کلام سن کر، سر درد کے باوجود واہ واہ اور مقرر ارشاد بھی کہنا پڑا۔ ادیبوں کے عشقیہ قصے بھی سننے پڑے اور دانشوروں کے نصیحت آمیز نقطے بھی اپنے پلو میں باندھنا لازم ٹھہرا۔

دو دن کے اس دورہ کے دوسرے دن مجھے سب سے اہم شخصیت سے مل کر سب سے اہم کام کرنا تھا۔ مجھے اس بے حد خوبصورت عورت سے ملکر اسے عالمی سیمینار میں شرکت پر رضامند کرنا تھا، جس کے آنے سے یقینی طور پر سیمینار کو چار چاند لگ سکتے تھے۔  دوسرے دن میں اس بے حد اهم شخصيت کی مالک خوبصورت عورت کو دعوت دینے اور عالمی سيمينار میں لازمي طور پر شریک ہونے کے لئے قائل کرنے کی غرض سے، صبح سويرے ہی اس کے دروازے پر حاضر ہوا تو وہاں مجھ سے پہلے ہی بہت سے مقامی اور غیر ملکی افراد پہنچ چکے تھے۔

میں جب اس بے حد خوبصورت عورت سے ملنے کے لئے، جدید سہولیات والی قدیم عمارت میں داخل ہوا تو وہ خوبصورت عورت لوگوں کے جھرمٹ میں کھڑی تھی۔ میں نے اس کے قریب پہنچ کر عرض کیا، “میں سندھ سے آیا ہوں اور مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔”

وہ سندھ کا نام سنتے ہی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ہجوم سے دور لے گئی اور کہا، “میری ہر سانس میں سندھ سمایا ہوا ہے۔ سندھ ہی میری پہلی اور آخری پہچان ہے۔ میں بہت شکر گزار ہوں کہ آپ مجھ سے ملنے کے لئے آئے۔” میں نے اسے ثقافت والےسائیں کا سلام کہا تو اس نے کوئی جواب نہ دیا۔

میں نے عالمی کانفرنس کا دعوت نامہ اور ثقافت والے سائیں کے خصوصی پیغام والا خط اسے پیش کرتے ہوئے کہا، “ہم موہن جو دڑو پر انٹرنیشنل سیمینار منعقد کروا رہے ہیں۔ ہماری سرکار کے ثقافت والے سائیں کا خیال ہے کہ آپ کے آنے عالمی سیمینار کو چار چاند لگ جائیں گے۔” میری بات سن کر اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا، “آپ کا اپنا کیا خیال ہے؟” میں نے اس کے بیحد حسین وجود کو دیکھتے ہوئے کہا، “ثقافت والے سائیں کا اندازہ غلط ہے۔ آپ کے آنے سے عالمی سیمینار کو چار نہیں، چوبیس چاند لگ جائیں گے!”

میں سمجھا تھا کہ میری بات سن کر وہ پھر مسکرائے گی لیکن اس کے چہرے پر کوئی تاثر پیدا نہ ہوا۔ اس نے کہا، “سیمینار بعد میں منعقد کروائیں، پہلے آپ لوگ برباد ہوتے ہوئے موہن جو دڑو کو تو بچائیں!” میں نے اسے بتایا، “ثقافت والے سائیں کو موہن جو دڑو کی بہت فکر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موہن جو دڑو عالمی ورثہ ہے، اسی وجہ سے ہم عالمی سطح کا سیمینار منعقد کروا رہے ہیں۔”

اس نے طنزیہ انداز سے کہا، “موہن جو دڑو کو عالمی ورثہ قرار دینے والے عالمی ادارے نے آپ لوگوں کے رویوں کی وجہ سے ہی، موہن جو دڑو کو عالمی ورثہ کی فہرست سے خارج کرنے کی دھمکی دی تھی!”  میں نے کہا، “ہم عالمی ادارے کی اس عالمی سازش کو ناکام بنا دیں گے۔ ہماری ثقافتی سرکار نے موہن جو دڑو پر مزید تحقیق کے لئے ریسرچ اینڈ ریسورس سینٹر بنانے کا اعلان بھی کردیا ہے۔”

اس نے تیز نظروں سے مجھے گھورتے ہوئے جواب دیا، “پہلے آپ نے کون سی تحقیق کرلی ہے۔۔۔ آپ لوگ تو اب تک موہن جو دڑو کے حروف تہجی بھی نہیں پڑھ سکے!” میں نے سر کھجاتے ہوئے کہا، “ہمارے ثقافت والے سائیں وسیع معلومات کے مالک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موہن جو دڑو کے لوگ جمھوریت پسند تھے اور موہن جو دڑو میں بادشاہت کا کوئی تصور نہیں تھا۔”

خوبصورت عورت نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور کہا، “آپ کا ثقافت والا سائیں بھی بادشاہ آدمی لگتا ہے! یہ بات اس نے کونسی تحقیق کی بنیاد پر کہی ہے؟”

میرے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب نہ تھا، اس لئے میں نے دوسری بات کی، “ہم نے ڈرائی کور ڈرلنگ کے کام پر بھی توجہ دی ہے، جس کے نتیجے میں موہن جو دڑو کا رقبہ چھ سو ایکڑ سے بڑھ کر بارہ سو ایکڑ بھی ہوسکتا ہے۔”

اس نے تھوڑا غصہ سے کہا، “آپ چھ سو ایکڑ کی حفاظت بھی نہیں کر سکے تو بارہ سو ایکڑ کی حفاظت کیسے کر سکیں گے!” میں نے جلدی سے کہا، “ہم تاریخی مقام پر کام کی نگرانی کے لئے نئی گاڑیاں بھی خرید رہے ہیں۔” اس نے پہلی بار بڑا قہقہہ لگا کر کہا، “دوسرے اعلانات پر عمل درآمد ہو یا نہ ہو لیکن گاڑیوں کی خریداری کے فیصلے پر ضرور عمل درآمد ہوگا۔۔۔!”

میں نے غور سے اس کا سراپا دیکھتے ہوئے کہا، “ہماری ثقافتی سرکار موہن جو دڑو کی ڈانسنگ گرل سمبارا کو واپس موہن جو دڑو لانے میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔” خوبصورت عورت نے فکرمندی سے کہا، “آپ تو موہن جو دڑو کے خزانے کی حفاظت بھی نہیں کر سکے، ڈانسنگ گرل کی کیا حفاظت کر سکیں گے!”

 میں ایک دم بولا، “موہن جو دڑو سے کوئی خزانہ نہیں ملا تھا۔” اس نے حیرت سے کہا، “جن چیزوں کو آپ مہریں کہتے ہیں، وہی موہن جو دڑو کا خزانہ تھا، جو چوری ہو گیا۔ اگر کوئی سمجھنے والا ہو وہ تاریخی مہریں بات کرتی ہیں۔ اب آپ کیا صرف موہن جو دڑو کی دیواروں پر تحقیق کریں گے!؟”

میرا حلق خشک ہو گیا۔ میں موہن جو دڑو کی کسی دیوار کی طرح خاموش کھڑا رہا۔

اس نے سرد لہجے میں کہا، “اپنی ثقافتی سرکار سے کہہ دیجئے گا کہ پہلے موہن جو دڑو کے میوزیم سے چوری شدہ مہروں کا خزانہ چوروں سے برآمد کروائے، اس کے بعد ہی ڈانسنگ گرل کو واپس اپنے دیس لانے کا سوچے!”

یہ کہہ کر موہن جو دڑو کی ڈانسنگ گرل سمبارا نے، انٹرنیشنل سیمینار کا دعوت نامہ اور خصوصی پیغام کے خط والا لفافہ میرے ہاتھ میں واپس تھمایا اور سیاحوں کے ہجوم کے درمیان سے گذرتی ہوئی، شیشے کی دیوار کے پیچھے اسی غیر ملکی میوزیم کے شوکیس میں واپس چلی گئی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).