ہم اتنے بھی احسان فراموش نہیں


ایک مریض کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں تھے، اس کی بیوی نے وزیر اعلیٰ سندھ کو مدد کے لیے خط لکھا، اس خط کے مندرجات اخبارات میں رپورٹ ہوئے، ممتاز کالم نگاروں نے اس پر کالم لکھے، وزیر اعظم نے نوٹس لیا، سندھ حکومت نے علاج معالجے کا ذمہ اٹھا لیا، صدر مملکت نے خود جا کر مریض کی مزاج پرسی کی، ملک کے مخیر حضرات نے اس مریض کے لیے امداد کا اعلان کیا اور یوں بطور قوم ہم ’سرخرو‘ ہو گئے۔ آخر یہ ’وی آئی پی‘ مریض کون تھا جس کے لیے اتنا تردد کیا گیا؟

یہ مریض اکبر علی خان تھا، شہید ملت لیاقت علی خان کا بیٹا، اور اس کی امداد کے لیے خط لیاقت علی خان کی بہو نے لکھا تھا۔ خط میں انہوں نے فریاد کی تھی کہ ان کے شوہر کے ڈائلیسس پر ماہانہ پونے دو لاکھ روپے خرچ آتا ہے جس کی وہ متحمل نہیں ہو سکتیں لہذا حکومت مدد کرے۔ سوال یہ ہے کہ کیا لیاقت علی خان کی بہو کو امداد کے لیے فریاد کرنی چاہیے تھی؟ کیا اس ملک میں لیاقت علی خان کا خاندان اس قدر در بدر ہو گیا ہے کہ ان کے پاس علاج کے بھی پیسے نہیں؟ کیا دنیا کے دیگر ممالک میں ایسا کوئی نظام ہے جس کے تحت قومی ہیروز کے خاندان کی داد رسی کی ذمہ داری تا قیامت حکومت کی ہوتی ہے؟ کیا واقعی ہم نے بطور قوم لیاقت علی خان فیملی کی قربانیوں کا صلہ نہیں دیا؟

لیاقت علی خان جب پاکستان آئے تو اپنی تمام دولت، جاگیر اور زمینیں ہندوستان میں چھوڑ آئے، یہاں انہوں نے کسی قسم کا کوئی کلیم بھی داخل نہیں کیا، بے شک یہ ان کے کردار کی عظمت تھی، مگر قوم نے بھی جواب میں کم نہیں کیا اور انہیں اپنے ملک کا وزیر اعظم بنا دیا۔ اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا تھا؟ جب ایک سازش کے تحت انہیں قتل کیا گیا تو قوم نے انہیں شہید ملت کا خطاب دیا، آج تک وہ ہمارے ہیرو ہیں، قائد اعظم کے پہلو میں دفن ہیں۔

ان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان کو اس قوم نے جو تکریم دی شاید وہ آج تک کسی اور خاتون کے حصے میں نہیں آئی۔ بیگم رعنا کو پاکستان نے تین ممالک ہالینڈ، اٹلی اور تیونس میں سفیر بنا کر بھیجا، بھٹو صاحب نے انہیں سندھ کا گورنر لگایا، وہ جامعہ کراچی اور سندھ یونیورسٹی کی چانسلر رہیں، متعدد قومی اور بین الاقوامی اعزازت سے انہیں نوازا گیا، ان کے نام پر کئی ادارے قائم کیے گئے، 1990 میں جب ان کا انتقال ہوا تو مزار قائد میں دفن کیا گیا۔

اس قوم نے لیاقت علی خان کے خاندان کو جو عزت دی اس کا دس فیصد بھی شاید یہاں بیان نہیں کیا گیا، اور صرف عزت ہی نہیں، بیگم رعنا تقریباً بارہ برس تک تین ملکوں میں سفیر رہیں اور تین برس تک گورنر سندھ رہیں۔ یہ تمام عہدے ایسے ہیں جن میں مراعات اس قدر زیادہ ہوتی ہیں کہ تنخواہ خرچ کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی لہذا یہ بات دل کو نہیں لگتی کہ بیگم رعنا نے اپنی زندگی میں تمام روپیہ خرچ کر دیا ہو گا اور اپنے بیٹے اکبر علی خان کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا ہو گا۔ اگر ایسا ہے تو اس میں قوم کا کوئی قصور نہیں، قوم نے انہیں خدمات کا پورا صلہ دیا، اور اگر ایسا نہیں ہے اور بیگم رعنا اولاد کے لیے روپے پیسے چھوڑ کر فوت ہوئیں تو ایسی صورت میں بھی ان کے بیٹے کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ یوں امداد کی درخواستیں دیں۔

کیا یہ اکبر علی خان کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اپنے مالی معاملات کو دانشمندی سے چلاتے اور برے وقت کے لیے کچھ رقم پس انداز کر لیتے؟ جس سطح پر ان کے خاندان کو نوازا گیا، اس کے بعد یہ کہنا کہ لیاقت علی خان کا خاندان اس ملک میں در بدر ہو گیا، مناسب بات نہیں۔

میں نے وہ ویڈیو دیکھی ہے جس میں صدر مملکت اکبر علی خان کی مزاج پرسی کے لیے ان کے گھر آ رہے ہیں، اسے دیکھ کر کہیں سے نہیں لگتا کہ یہ خاندان کسمپرسی کی حالت میں جھونپڑی نما مکان میں رہ رہا ہے، ایک شاہانہ گھر ہے جس میں لیاقت علی خان کے صاحبزادے رہائش پذیر ہیں، ایسا گھر شاید اس ملک کے ایک فیصد عوام کے پاس بھی نہیں ہو گا۔ بیشک بطور قوم ہمارا کردار قابل رشک نہیں، ہم احسان فراموش ہیں اور بعض اوقات اپنے ہیروز کی قدر نہیں کرتے، مگر کم از کم لیاقت علی خان کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ کیا مجھے کوئی بتائے گا کہ اس سے زیادہ اس خاندان کی کیا پذیرائی کی جاتی جس سے ہمارے ماتھے سے احسان فراموشی کا داغ دھل جاتا؟ کیا دنیا کا کوئی اور ملک اس سے بھی بڑھ کر کچھ کرتا جو ہم نے کیا؟ اور اگر ایسی کوئی مثال ہے تو ضرور پیش کریں۔

نہ جانے کیوں ہم ہر معاملے میں خود کو مطعون کرنے لگ جاتے ہیں، شاید ضمیر کی خلش کا مسئلہ ہے، ہر شخص چونکہ ملک کی بربادی میں کچھ نہ کچھ حصہ دار ضرور ہے اس لیے جب بھی ایسا کوئی معاملہ درپیش ہوتا ہے ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ اس میں ضرور ہمارا کوئی قصور ہو گا چنانچہ ہم بلا سوچے سمجھے خود ملامتی شروع کر دیتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم عزت نفس کے ہجے بھول چکے ہیں۔ لیاقت علی خان اور بیگم رعنا کے بیٹے کو امداد کی فریاد کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ کیا اس قسم کی درخواست دینا ان کے شایان شان ہے۔

ان کی امداد کی اپیل سے مجھے مہدی حسن خاں صاحب یاد آ گئے۔ جتنی شہرت، عزت اور دولت بر صغیر میں اس گلوکار کو ملی شاید اس دور میں کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ دنیا کا کوئی قابل ذکر ملک ایسا نہیں جہاں انہوں نے شو نہ کیا ہو، وہ منہ مانگے دام وصول کرتے تھے، ڈالروں میں کھیلتے تھے، مگر اس کے باوجود انہوں نے کوئی رقم پس انداز نہیں کی اور آخری عمر میں ان کے بیٹوں نے انہیں وہیل چئیر پر بٹھا کر کراچی سٹیڈیم کا چکر لگوایا اور ان کے علاج کے لیے بھیک مانگی۔

یہ کیا طرز عمل ہے؟ اگر آپ غریب، لاچار اور مجبور ہیں تو دوسری بات ہے، پھر حکومت اور ریاست آپ کی ذمہ دار ہے۔ لیکن اگر آپ کروڑ پتی تھے اور آپ نے اپنی حماقتوں سے دولت ضائع کر دی تو پھر یہ قوم کی ذمہ داری کیسے ہو گئی کہ تا حیات آپ کا ذمہ اٹھائے؟ علی اعجاز کا بھی یہی حال ہوا، اپنے عروج کے زمانے میں اس ہیرو کے گھر نئے نئے ماڈل کی گاڑیاں کھڑی ہوتی تھیں، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ رکشے کے انتظار میں سڑک کے کنارے کھڑے نظر آئے، کیوں؟ آخر جب یہ لوگ دولت مند ہوتے ہیں تو اپنے مالی معاملات کو ٹھیک کیوں نہیں کرتے، کوئی سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے، کوئی بیمہ پالیسی کیوں نہیں لیتے، کوئی رقم پس انداز کیوں نہیں کرتے؟ اس ضمن میں

قائد اعظم کا ماڈل ہمارے سامنے رہنا چاہیے، انہوں نے وکالت سے دولت کمائی اور پھر بے حد دانشمندی سے سرمایہ کاری کر کے اس میں کئی گنا اضافہ کیا۔ یہ تو زندگی گزارنے کے بنیادی اصول ہیں جن کے بارے میں ہر شخص کو تھوڑا بہت علم ہوتا ہے لیکن نہ جانے کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ بات کیوں بیٹھی ہے کہ جب ان کے پیسے ختم ہو جائیں گے تو ریاست انہیں اپنا داماد بنا لے گی؟ آج پاکستان کے مایہ ناز فنکار اندرون ملک اور بیرون ملک شو کرنے کے کروڑوں روپے لیتے ہیں، کل کو یہی لوگ اگر بڑھاپے میں بیمار ہو گئے تو کیا یہ محض اس لیے ریاست کی امداد کے حقدار ہونے چاہئیں کہ یہ فنکار تھے یا کسی بڑے خاندان کے چشم و چراغ تھے؟

لیاقت علی خان اور بیگم رعنا اگر آج زندہ ہوتے تو اپنی بہو کا خط پڑھ کر شرمندہ ہی ہوتے، مجھے یقین ہے کہ ان کا وقار ہرگز گوارا نہ کرتا کہ حکومت کو یوں امداد کی فریاد کی جائے۔ عاقل اور بالغ انسان اپنے شعوری فیصلوں کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں، اگر بیگم رعنا نے سفارت اور گورنری کی بھاری تنخواہوں میں سے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی اور تمام پیسے اپنی زندگی میں ہی خرچ کر دیے اور اولاد کے لیے کچھ نہیں چھوڑا تو اس کے لیے قوم ذمہ دار نہیں۔ اور اگر وہ یہ رقم چھوڑ کر فوت ہوئی تھیں اور اکبر علی خان نے اس میں سے کوئی سرمایہ کاری یا بچت نہیں کی تو بھی یہ ان کا قصور ہے، پاکستانی قوم کا نہیں۔

 

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments