دست نگری، مفت خوری اور موکل ریاست کا بحران


چند استثناؤں کو چھوڑ کر، کوئی نہیں ہے جو معیشت کے اصل بحران کی نشاندہی کر رہا ہو یا پھر دست نگر معیشت، مفت خوری اور موکل ریاست کی سیاسی معیشت یعنی نجی و ریاستی مقتدر ڈھانچے کی لائی بربادی پہ توجہ دے رہا ہو۔ تقریباً سبھی کا زور ہے تو بیماری کی علامات (بیروزگاری، مہنگائی اور خساروں) پر اور اس کےمظاہر پر (مالی و کرنٹ اکائونٹ خساروں پر)۔ تحریک انصاف ہو، مسلم لیگ ن ہو، پیپلزپارٹی ہو یا مذہبی جماعتیں سب کی سب منڈی کے کھیل اور اُمرا و طاقتور لابیز کے مختلف حصوں کی نمائندہ ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ وہ واشنگٹن اتفاق رائے اور نیو لبرل اکنامکس کی پیروکار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں استحصالی طبقوں اور غالب اداروں کے مفادات سے وابستہ ہیں۔ زیادہ سے زیادہ وہ عوامی شکایات و تکالیف پہ توجہ دیتی بھی ہیں تو اشک شوئی، خیراتی امداد اور پاپولزم کی نعرہ بازی سے جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مختلف ایڈیشنز۔ سب حکومتیں کاسہ گدائی لیے دنیا بھر میں پھرتی رہیں اور سبھی مشرف بہ آئی ایم ایف پروگرامز ہوئیں۔ IMFکے کوئی 22 پروگرامز پہ دستخط کیے گئے، پورا صرف ایک ہوا اور جس اسٹرکچرل تبدیلی کا بیڑہ اٹھایا گیا تھا وہ خرابیاں جوں کی توں ہیں اور اب ہمارے پرائیویٹ سیکٹر کے گُرو مشیر خزانہ شوکت ترین آئی ایم ایف کی سخت تر پیشگی شرائط کو مان کر منہ دکھائیں تو کیسے سوائے کھسیانی تاویلوں کے۔ پچھلی حکومتوں سے عمران حکومت کو کوئی بات ممیز کرتی ہے تو بس یہ کہ پالیسی کے عدم تسلسل اور بد انتظامی میں اس نے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔

پہلے ہم ذرا موجودہ معاشی بحران پہ نظر ڈالتے ہیں کہ اس کی سنگینی کا اندازہ ہوسکے۔ رواں مالی سال میں بیرونی قرض اور اس پر ادائیگیاں 95 ارب ڈالرز (2017-18) سے بڑھ کر 127 ارب ڈالرز ہوگئیں۔ اب مجموعی اندرونی و بیرونی قرضہ اور ادائیگیاں  50.5 کھرب روپے ہو گئیں جس میں 20.7 کھرب روپے کا اضافہ گزشتہ 39 ماہ میں ہوا ہے۔ جو فی کس 1لاکھ44ہزار روپے (2018) سے بڑھ کر 2لاکھ35ہزار روپے ہوگیا ہے۔ نتیجتاً ماسوا ئے قرض کی ادائیگی کے تمام تر اخراجات اُدھار لے کر پورے کیے جانے ہیں۔ قرضوں پر 3000 ارب روپے سود ادا کرنے کے بعد تجارتی خسارہ 15 ارب ڈالرز اور قرضوں کی قسط پر 11 ارب ڈالرز،مجموعی کرنٹ اکائونٹ خسارہ 26 ارب ڈالرز ہوگا۔ درج ذیل اخراجات اُدھار لے کر پورے کیے جانے ہیں: دفاع معہ پنشنز 1800ارب روپے، سول ملازمین پنشنر 600 ارب روپے، سرکاری کارپوریشنز کے خسارے 850ارب روپے، ان پر قرضوں کی گارنٹی 1500 ارب روپے، سول انتظامیہ کے اخراجات وفاقی سطح پر 600 ارب، صوبوں سمیت انتظامی اخراجات 2000 ارب روپے، بجلی کا سرکلر قرضہ 2500 ارب روپے، یوں نہایت پسماندہ معیشت پہ اخراجات کا بوجھ 10,250 ارب روپے ہوگا اور کل بجٹ خسارہ 2750 ارب روپے ہوگا جو جی ڈی پی کے 7 فیصد سے زیادہ ہے۔ یہ تو ہے اخراجات کا بھاری بھرکم بوجھ۔ محاصلات جو جی ڈی پی کا بمشکل 10 فیصد ہیں،ایک فیصد زمینداروں کے پاس 22 فیصد زمین ہے اور ان کی آمدنی 1000 ارب روپے سے زیادہ ہے اور وہ ٹیکس صرف 3 ارب روپے ادا کرتے ہیں۔ شہری جائیدادوں پہ کرائے کی آمدنی 900 ارب روپے ہے جبکہ ٹیکس صرف 8 ارب روپے ہے۔ مطلب یہ کہ مفت خور دیہی و شہری اُمرا کا ٹیکس میں حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ایک فیصد امرا کو 4500 ارب روپے کے قریب استثنائیں اور رعایتیں دستیاب ہیں۔ جبکہ 75 فیصد ٹیکس بالواسطہ ہیں جن کا زیادہ تر بوجھ عوام پر ہے۔ لیکن عوام کو کیا ملتا ہے؟ تعلیم و صحت پہ صرف 1300 ارب روپے اور ہر طرح کے احساس پروگراموں پر فقط 400 ارب روپے یعنی قومی آمدنی کا ایک فیصد سے بھی کم خرچ کیا جارہا ہے۔ رہی سہی کسر اشیائے صرف پر مہنگائی کی شرح 18.64 فیصد اور حساس اشیاء کے انڈکس میں مہنگائی کی شرح 25 سے 30 فیصد پوری کر دیتی ہے۔

ان تمام اعداد و شمار کے پس پردہ حقیقی تضادات کی سیاسی معیشت کار فرما ہے ۔ پاکستان کو بنیادی تضادات اور بحرانوں کا سامنا ہے، جنہیں حل کیے بنا اب چارہ نہیں اور ایک ممکنہ انہدام (Implosion)کا سامنا ہے۔ دست نگر و پسماندہ معیشت کا بحران۔ پسماندہ ذراعت اور کم ترویلیو کی اشیائے صرف کی پیداوار اور خدمات کا کمزوربنیادی ڈھانچہ جس پر مفت خور جاگیرداروں و ٹھیکیداروں اور بھاڑے دار سرمایہ داروں کی اجارہ داری ہے اور جو عالمی سرمایہ داری کے ساتھ دست نگری کے رشتے میں بندھی ہے جس کا اظہار قرض کے جال کی صورت ”قومی معیشت“ کو جکڑتا چلا جارہا ہے۔ اس کمزور معاشی بنیاد پر ایک دیو ہیکل قومی سلامتی کی موکل ریاست (Client State)لاد دی گئی ہے جس کے بڑھتے ہوئےغیر پیداواری اخراجات محدود پیداواری ڈھانچے اور محنتی و پیداواری طبقات کو کھائے جارہے ہیں اور ہمارے مالی و مالیاتی خسارے اسی کی دین ہیں ۔ IMF کا سارا زور بیماری پہ نہیں بیماری کی علامات پر ہے ۔ دوسرا اہم تضاد حکمران طبقوں، اداروں اور مافیاز کی مفت خوری اور کرایہ خوری ہے جو ہماری قومی دولت کا بڑا حصہ ہڑپ کرجاتے ہیں اور عوام کو سوائے غریبی، محتاجی، بیماری، جہالت اور بے امیدی کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ اس کے اوپر جو بڑا تضاد ہے وہ ہے قومی سلامتی کی گیریژن ریاست جو نوآبادیاتی دور کی باقیات ہے اور عالمی استعمار کی موکل ریاست رہی ہےاور عالمی استعمار کی اسٹرٹیجک ضروریات کے لیے کرائے کا سپاہی بنے رہنے پہ ہمہ وقت تیار رہتی ہے تاکہ بیرونی امداد کے ذریعہ داخلی ذرائع کی کمیابی کو پورا کیا جائے اور اپنے قد سے بڑھ کر علاقے میں کردار میسر آسکے۔ لہٰذا، دست نگری کی مفت خور معیشت کے بنیادی ڈھانچے اور موکل قومی سلامتی کی ریاست کے بالائی ڈھانچے کو بدلے بنا مملکت پاکستان اسی طرح کے بحرانوں کا شکار رہے گی۔ بدقسمتی سے اس کایا پلٹ کے لیے کوئی انقلابی ایجنڈا عوام کے سامنے آیا ہے نہ اُس ایجنڈے پہ محنت کش عوام اور پیشہ ور عناصر کو متحرک کرنے والی قوت متحرکہ موجود ہے۔ لہٰذا، بحران بڑھتا جائے گا تاآنکہ یہ پھٹ پڑے اور آگے کی خبر نہیں کہ کیا ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

امتیاز عالم

بشکریہ: روزنامہ جنگ

imtiaz-alam has 58 posts and counting.See all posts by imtiaz-alam

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments