دھواں دھاری زندگی


وہ سات سال کا تھا جب اس نے گلی کی نکڑ پر کھڑے ایک نوجوان کو سگریٹ کے بڑے بڑے کش لگا کر منہ سے دھواں نکالتے ہوئے دیکھا۔
ایک لمبا، گہرا کش جو سگریٹ کو جلا کر راکھ کر دے اور پھر اسی جلی ہوئی راکھ کا جسم ہوا میں اڑتے دھوئیں کی طرح شامل ہو جائے اور یہ منظر بالکل ایسا جیسے کوئی خوابی منظر تحلیل ہو رہا ہو۔

نجانے کیوں اسے اس اڑتے ہوئے دھوئیں کا انداز بہت شاہانہ لگا جیسے کوئی بڑی شان سے سگریٹ کو جلانے کا اہتمام کرے، اسے ہونٹوں میں تھامے، جلائے اور راکھ بن جانے پر اک خمار بھری سلامی دے جس میں دھوئیں کی پرتیں آہستہ آہستہ کھلنے لگیں۔

ایک رات چھت پر شام سے کچھ دیر پہلے اس نے بھی چوری چھپے سگریٹ کا ایک ایسا ہی کش لگایا۔
ایک لمبا کششششش ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اس کی سانس پھول گئی اور اسے اس کش کو بیچ راستے چھوڑنا پڑا۔

کش سے نکلتا دھواں آہستہ آہستہ ہوا میں غائب ہونے لگا اور اسے یوں محسوس ہوا جیسے یہ غائب ہوتا دھواں اس کے وجود کو بھی ہلکا ہلکا غائب کر رہا ہو۔
اسے یونہی سرشام کش لگاتے کچھ لمحے بکھر گئے اور اب لمبے کش پر اس کی سانس نہیں پھولتی تھی وہ 80 کی دہائی کا دور تھا اور اس کی جوانی کے ابتدائی دن!

ہر طرف رومانوی گانوں کی دھنیں کانوں میں کسی ریکارڈ کی طرح بجتی اور پھر تھک ہار کر یادداشت کے کسی گوشے میں سو جاتی لیکن وہ ان دھنوں کو سونے نہیں دیتا اور رات بھر گنگناتا رہتا۔
اسے ان لفظوں اور اشعار کی کوئی خاص پہچان نہیں تھی لیکن وہ منہ میں جوڑ توڑ کرتے ہجوں سے ان لفظوں کو گنگنانے کی کوشش کرتا اور پھر اچانک سو جاتا۔

صبح نلکے پر منہ ہاتھ دھوتے ہوئے بھی ایک آدھ گانا اس کے لبوں پر ہوتا جس پر اسے اکثر ابا کی ڈانٹ اور مار پڑتی لیکن وہ پھر بھی ڈھیٹ ہو کر گنگناتا رہتا لیکن قدرے کم آواز میں !

”ایک میں اور ایک تو، دونوں ملے اس طرح ۔ ۔ اور یہ جو ہو رہا ہے تن، من میں! یہ تو ہونا ہی تھا۔ “
اسے اندر ہی اندر یہ چیزیں بڑا لطف دیتی تھیں۔ سگریٹ، گانے، غنچے اور اس طرح کی تمام وہ چیزیں جو اسے خوش رکھتیں۔

بڑا بھائی قرآن حافظ بن رہا تھا، اس سے چھوٹا ابا کا ریڑھی میں ہاتھ بٹاتا اور سب سے چھوٹا گھر میں سارا دن روتا رہتا لیکن وہ !
وہ سارا دن گلیوں کی خاک چھانتا، دور تالابوں میں نہانے چلا جاتا، گلی کے بچوں کے ساتھ غنچے کھیلتا اور روز سہ پہر کو چوری چھپے سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگاتا۔

تھوڑا بڑا ہوا تو زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئی، بڑا بھائی امام مسجد بن چکا تھا جبکہ ابا نے دوسرے بڑے بھائی کو اپنے ساتھ ایک اور ریڑھی لگوا دی تھی، چھوٹا بھی اب زیادہ روتا نہیں تھا کیونکہ وہ بڑا ہو چکا تھا اور پاس کے سرکاری سکول میں تختی سیکھ رہا تھا۔

اور وہ ! وہ نہیں بدلا بلکہ ہمیشہ کی طرح اپنی مستی میں مگن۔ ہاں لیکن ایک تبدیلی یہ ضرور آئی کہ اب اسے سگریٹ کے لیے چھت پر جانے کی ضرورت نہیں رہی۔
کوئی فلم ایسی نہیں تھی جو ریلیز ہوگئی ہو اور اس نے دیکھی نہ ہو۔ کوئی گانا ایسا نہیں تھا جس کی کیسٹ اس نے سنبھال سنبھال نہ رکھی ہو۔

میلے میں جان پہچان والے ایک حلوائی کے ساتھ کام کر کے اس نے اتنے پیسے کما لیے کہ جس سے ایک ٹیپ ریکاڈر اور سپیکر خریدا جا سکے اور یوں سارا دن گلی میں گانے گونجتے اور محلے کی عورتیں شکایتیں لے کر اس کی ماں کے پاس آتی

پر محلے کی بعض نازنیں ایسی بھی تھی جو راہ چلتے ان گانوں کے بول سن کر سر اٹھا کر چوبارے کی طرف دیکھتی جہاں وہ کھڑا ہنستے چہرے کے ساتھ گانے گنگنا رہا ہوتا۔
ایک دو راہ چلتی ان لڑکیوں کی طرف اس نے فلمی کہانیوں سے متاثر ہو کر پیار بھرے خط بھی پھینکے جو کبھی کسی نے اٹھا لیے اور کبھی کسی نے روند دیے لیکن اسے آج تک ایسے کسی خط کا جواب نہیں آیا۔

جوانی یونہی گزر رہی تھی کہ اس کے چاچے نے برادری کی لاج رکھتے ہوئے کام نہ ہونے پر بھی اپنی بڑی بیٹی کی شادی اس سے کر دی۔

گھر والوں کا خیال تھا کہ ذمہ داری بڑھے گی تو خود ہی عقل ٹھکانے آجائے گی اور ہو سکتا ہے یہ رومانوی اور افسانوی طرز زندگی چھوڑ کر کسی ڈھنگ کے کام سے اپنی روزی روٹی کمانی شروع کر دے لیکن یہ باتیں محض خیالی ثابت ہوئیں وہ اس مستی سے باہر ہی نہیں نکلا جس کی عادت اسے بچپن سے ہو گئی تھی۔

وہ سارا دن اپنی خوشی میں گم رہتا، گانے سنتا، بیگم کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتا، گھر والوں کی گالیاں سن کر بھی ہنستے ہوئے کم سالن اور آدھی روٹی پر گزارا کرتا اور ہر وقت چہکتا رہتا بالکل کسی سات سال کے بچے کی طرح۔ ۔ ۔ ۔

باپ بستر مرگ پر تھا اور ماں کا رو، رو کر برا حال۔ اس نے ماں کو دلاسہ دینے کے لیے گلے لگانا چاہا لیکن اماں نے اسے ایک جھٹکے سے پرے کر دیا اور کہا کہ وہ ساری عمر ایک اچھا بیٹا ثابت نہیں ہوسکا اور ساری عمر لاپرواہی میں کم عقلی میں گزار کر اپنے بوڑھے ماں، باپ کا سہارا نہیں بن سکا۔

اچھا بیٹا نہیں بن سکا؟ یہ سوال اس کے دماغ میں کھٹک گیا۔
کیسے اچھا بیٹا نہیں بن سکا؟ وہ جنازے کی تدفین کے وقت قبر کے پاس کھڑا سوچ رہا تھا۔

اس نے سوچا، بہت گہرا سوچا لیکن اسے کچھ خاص یاد نہیں آیا۔
اسے یاد نہیں ٰآیا کہ کبھی اس نے اونچی آواز میں ابا سے بات کی ہو یا ان کی مار پر ان کا ہاتھ روکا ہو۔

اس نے سوچا میں نے کب اماں کو سنیارے کے بیٹے کی طرح گالی دی۔
”سنیارے کے لڑکے نے تو اپنی اماں کو دھکے دے کر باہر نکال دیا تھا اور وہ بیچاری اسی صدمے سے مرگئی تھی لیکن میں سے ایسا کیا، کیا؟

میں نے ٹیپ ریکارڈر اپنے پیسوں سے خریدا، رنگ برنگے رومال اپنے پیسوں سے خریدے، اپنی من مرضیوں پر اپنی جیب خرچ کی اور ہاں شادی کا جوڑا بھی مجھے میرے یار رفیق نے تحفے میں دیا، لیکن!“
وہ ایک ناکام بیٹے کے طور پر اپنی بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرنے میں بھی ناکام تھا۔

اس نے سوچا شاید گھر والے اسے روٹی دیتے ہیں، وہ اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح روٹی کما کر نہیں کھاتا شاید اسی لیے وہ ایک اچھا بیٹا نہیں بن سکا کیونکہ حافظ بھائی بھی تو ختم کی ہر چیز گھر لاتا ہے، خود بھی کھاتا ہے اور گھر والوں کو بھی کھلاتا ہے۔

چھوٹا بھی ہر جمعرات کی جمعرات پیسے گھر دیتا ہے اور گھر میں ایک بس وہی ہے جو یوں پیسے یا روٹی گھر نہیں لاتا اور اسے گھر والے اسے روٹی دیتے ہیں۔
اس نے سوچا اب وہ روٹی کمائے گا اور خود بھی کھائے گا، گھر بھی لائے گا۔

وقت گزرا اور اماں بھی چل بسی لیکن اس نے سبزی کی دکان ڈال کر اپنی کمائی سے اماں کو بہت خوش رکھا، وہ اماں کو دیسی گھی کھلاتا اور سبزی منڈی سے کبھی کبھی فروٹ بھی لا کر دیتا۔
ہسپتال میں بھی اماں نے اسے بڑی دعائیں دی اور رو پڑی کہ میرا کملا پتر اب سیانا ہو گیا اور کماؤ بن گیا ہے اور بس یہی وہ آخری باتیں تھیں جو اماں نے اس کے ساتھ کیں۔

ان سب باتوں کے باوجود اس کے اندر ایک خالی پن تھا۔ اس نے چوبارے پر گئے عرصہ بیت چکا تھا اور وہاں اس کی پڑی ہوئی پرانی کیسٹیں گرد آلود ہو کر مٹی میں ڈھکی پڑی تھیں۔
اسے اب سگریٹ کے کش میں بھی مزا نہیں آتا تھا بلکہ اسے لگتا تھا کہ سگریٹ سے اڑتی راکھ اب آزاد ہونے کی بجائے اندر ہی اندر کہیں قید ہو رہی ہے۔

اس کی اٹھکھلیاں ختم ہو چکی تھی، اللہ نے اسے دو بیٹے اور ایک بیٹی دی جن کی پرورش اور سبزی کی دکان کے چکروں میں اب وہ پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔
چہکنے کی بجائے اب اس کا زیادہ تر وقت حساب کتاب اور گاہوں کو راضی کرنے میں گزرتا۔

بچے پڑھ لکھ گئے اور ڈھلتی عمر نے اس کی ان پرانی یادوں کو مزید قصہ پارینہ بنا دیا اور وہ دن بھی آن پہنچا جب وہ بھی بستر کے ساتھ لگ گیا۔
ڈاکٹروں نے اسے ٹی بی بتائی لہذا بہت سی کھانے پینے کی چیزیں اس کے لیے بند کر دی گئیں اور وہ سارا دن لیٹا بس کبھی آسمان اور کبھی پرانی چھت کو گھنٹوں دیکھتا رہتا۔

بہن کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہونے کے بعد بڑے بھائی نے چھوٹے سے مشورہ کیا اور مکان کی از سر نوء تعمیر کا سوچا۔
چھوٹے نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اور مکان کی نئی تعمیر کو بہتر سمجھا، ویسے بھی گھر کی در و دیوار بھی اپنی عمر گزار چکی تھیں اور اس محلے میں محض ایک ان ہی کا مکان رہ گیا تھا جو اس قدر پرانا تھا۔

اس نے مکان کی تعمیر کا سنا تو دل کیا کہ ایک دفعہ چوبارہ پر جا کر اپنی کیسٹ کے ڈبے سنبھال لے اور ہر کیسٹ کو جی بھر کر سنے لیکن اس کوشش میں وہ آخری سیڑھی سے گر کر پہلی سیڑھی پر آن گرا۔ سر میں شدید چوٹ آئی اور ایک ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔

گھر میں اس کے لیے ایک مستقل چارپائی مقرر کر دی گئی جو دن بھر گلی میں دروازے کے آگے اور اندھیرا چھاتے ہی کمرے میں قید کر دی جاتی۔

ایسے میں گرمی کی ایک شام ایسی آئی کہ گلی میں کھیلتے ایک بچے نے ہاتھوں میں ٹیپ ریکارڈ اٹھا رکھا تھا جو کہ خراب ہو چکا تھا اور محض ریڈیو سناتا تھا۔
اس نے بچے کو اشارے سے بلایا اور ریڈیو کی ٹیون سیٹ کرنے لگا۔ اچانک محمد رفیع کی مدھر آواز میں گانا بج اٹھا۔ ”یاد نہ جائے، بیتے دنوں کی۔ ۔ ۔ “

اس نے ریکاڈر کان کے ساتھ لگا لیا۔ اسے سگریٹ کی طلب ہونے لگی لیکن گھر والوں نے اسے منع کر رکھا تھا جبکہ ڈاکٹر کی خاص ہدایات تھیں کہ سگریٹ والا شخص ان کے پاس بھی نہ بیٹھے لیکن نجانے کیوں آج طلب کچھ زیادہ ہی تھی اس نے بچے کے ہاتھوں میں دو سکے تھمائے اور ایک سگریٹ کے ساتھ ایک سکے کا لالچ دیا۔

بچہ سگریٹ لے آیا، اس نے راہگیر سے ماچس طلب کی اور ٹیب ریکارڈ کانوں کو لگا کر گانا سننے میں محو ہو گیا۔
سگریٹ کے لمبے کش چل رہے تھے اور گانے کی مدھر دھنیں اس کے جسم کو ویسی ہی مدھوشی دے رہی تھیں جو آج سے ساٹھ سال پہلے اس نے بچپن میں محسوس کی تھی۔
پاس کھڑا بچہ بڑے غور سے سگریٹ کے سلگتے انگاروں اور منہ سے نکلتے دھوئیں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔

اس نے بچہ کی جانب مشکوک نظروں سے دیکھا اور اسے اس کا ٹیپ ریکارڈر تھما کر روانہ کر دیا اور خود سگریٹ پیتے پیتے گانے کے شعر گنگنانے لگا لیکن کھانستی آواز میں اور اس شدید کھانسی میں بھی اس کا شوق تھا کہ وہ اشعار کی ادائیگی اسی طرز میں کرے جس طرح وہ جوانی میں گایا کرتا تھا لیکن گلہ کھانسی کی وجہ سے ساتھ نہیں دے رہا تھا۔

کچھ دیر بعد بڑا بیٹا مستری کو مکان دکھانے کے لیے آیا تو اس نے ابا کو چار پائی سے اٹھا کر اندر لیٹ جانے کو کہا لیکن ابا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ بے سدھ تھا۔
اس نے تجسس میں ابا کو ہلا، جلا کر دیکھا اور سانسیں چیک کی لیکن شاید اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا تھا۔

سخت کھانسی کے بعد بھی اس کے چہرے پر کوئی سلوٹیں نہیں تھیں بلکہ ایک گہرا اطمینان اور سکون تھا بالکل ایسا سکون جیسا اسے کشور کمار کو جوانی میں سن کر ملتا تھا۔
چالیسویں کے بعد مکان کی تعمیر کے لیے کمروں کی صفائی کی گئی اور تمام پرانی کیسٹیں اٹھا کر کباڑ کو بیچ دی گئیں۔

چند دن بعد رات کے کسی پہر کسی نشئی نے کباڑ کے گودام میں ہاتھ صاف کیے اور جو ہاتھ لگا اٹھا کر لے گیا۔
اسی سامان میں وہ چند کیسٹیں بھی تھیں جو نئے مکان والوں نے کباڑ کو بیچی تھیں۔ نشئی نے تمام سامان کو اکٹھا کیا اور قبرستان کے ایک کونے میں اپنے ٹھکانے پر لے آیا۔

رات سگریٹ کے دم مارتے وقت ایک چنگاری کہیں پاس پڑی ردی کو لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے پھیل گئی۔
سامان کا رکھوالا ڈر کے مارے بھاگ گیا اور صبح تک سارا سامان جل کر خاکستر ہو گیا، انہی میں ان چند کیسٹوں کی آخری باقیات بھی شامل تھیں جو دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).