اساں یار دی اکھ چوں پیتی اے


سیدھے سادھے اور بول چال کے انداز میں اپنے درد اور جذبات کا اظہار کرنے والے شاعر میرتقی میر کی شاعر ی خود کلامی ہے، جسے پڑھ کر لگتا ہے انسان خود سے باتیں کررہا ہے، میرؔ کی شاعری ایک نشے کی مانند ہے، جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔

یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں

اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں

اک زمانہ تھا جب صرف شراب کا نشہ ہی نشہ تصور کیا جاتا تھا۔ زمانہ بدلتا گیا، نشے بھی کئی ہوگئے، نشے کی اقسام اور معیار سب بدل گئے۔ ہر نشہ پہلے سے مختلف اور زیادہ تیکھا ہوتا گیا۔ پر حضرت انسان کو لگا نشے کا نشہ ۔ ۔ جو سب سے زیادہ طاقتور رہا۔

نشہ کیا ہے ۔۔۔

جب کوئی کسی چیز کا عادی ہو جائے اور وہ نہ ملے تو زندگی میں دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ کوئی چیز اچھی نہیں لگتی، اور انسان چڑچڑے پن کا شکار ہو کر ڈیپریشن میں چلا جاتا ہے۔ نشہ ایک ایسی کمال شے ہے جس میں نہ کسی کی جیت ہوتی ہے نہ ہار۔ ۔ بس ایک کیفیت مسلسل ہے جو کم اور زیادہ تو ہو سکتی ہے، ختم نہیں۔ ۔

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

اردو کے مشہورشاعر اسد اللہ خان غالبؔ کو قرض لینے کا نشہ تھا اور وہ قرض نشے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے لیتے تھے۔ اور بقول ابراہیم ذوقؔ

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

دولت کا نشہ ۔ ۔ ۔ انسان کے پاس جب بے تحاشہ دولت آجاتی ہے تو وہ اپنے ساتھیوں سے ملناتک گوارا نہیں کرتا۔ دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ غریبوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتا ہے ۔

عہدے کا نشہ۔ ۔ اختیار، اقتدارمل جائے توانسان اپنی اوقات بھول جاتا ہے ۔ ما تحتوں کے لیے فرعون بن جاتا ہے ۔ اور سامنے والے کو سراسرنقصان پہنچاتا ہے ۔

خوبصورتی کا نشہ ۔ ۔ اس کے لیے صنفی تقسیم لازم نہیں۔ نسوانی حسن کے نشے میں چور خواتین جنس مخالف کو تو چارہ ڈالتی نہیں، بلکہ دوسری خواتین کو بھی کمتر سمجھتی ہیں، بالکل اسی طرح مردانہ وجاہت کے حامل افراد کسی کو خاطر میں نہیں لاتے، اپنے آپ میں مگن اپنا ہی نقصان کر ڈالتے ہیں ۔ ۔

کسی بھی نشے کا ایک اصول ہے، اول تو وہ سکون پہنچاتا ہے اور پھر نقصان۔ ۔

انٹرنیٹ کا نشہ۔ ۔ اس کے لیے باقاعدہ طبی اصطلاح Internet Addiction Disorder وضع کی جا چکی ہے، جس کا مطلب ہے’انٹرنیٹ کے استعمال میں خود پر قابو نہ رکھ پانا، جس کی وجہ سے مریض جسمانی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ ‘

سیلفی کا نشہ ۔ ۔ اسے Selfitis کہتے ہیں ۔ ۔ کوئی شخص ایک دن میں چھ سے زیادہ سیلفی لےکراسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ذہنی خلل کاشکار ہے۔

لندن کے ایک شہری کے تو کیا کہنے، ، جناب ایک دن میں 200 سیلفیاں لیتے اور انسٹاگرام پر پوسٹ بھی کرتے ہیں۔

کچھ لوگوں کو لکھنے کا نشہ ہوتا ہے ۔ ۔ کوئی بھی موضو ع، شے، ترکیب ملے بس لکھنا شروع کردیتے ہیں بھلے اس کا کوئی نتیجہ نکلے نہ نکلے ۔ ۔ لکھنا ہے تو بس لکھنا ہے ۔

کچھ لوگوں کو کتابیں پڑھنے کا نشہ ہوتا ہے دن بھر میں 10- 12 کتابیں نہ پڑھ لیں تو سکون نہیں ملتا۔

کچھ لوگوں کو بولنے کا نشہ ہوتا ہے، ، منہ میں جب جہاں جیسے آتا ہے کہہ دیتے ہیں، نہ سامنے والے کی عزت کا پاس نہ اپنی کا خیال۔ ۔ نہ اس بات کا پتہ کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا، اچھا ہوگایا برا، بس بولنا ہے ۔

لکھنے، پڑھنے اور بولنے کے نشے پر بات ہورہی تھی تو ہمارے ایک ساتھی صحافی، سینئر پروڈیوسرعبدالقادر قاسم کہنے لگے کہ صحافت بھی ایک نشہ ہے، کھانے کو ہو نہ کمانے کو پہننے کو۔ فیملی کے لیے وقت ہو نہ اپنے لیے۔ زندگی میں سکون ہو نہ دوپل سونے کو۔ بس صحافت جاری رہنی چاہیے، ویسے بھی اب صحافت ایک دھندا بن گئی ہے۔

کچھ لوگوں کے لیے تو صحافت میں آنا اور کسی کی بھی جے جے کار کرنا بھی نشہ ہی ہے ۔

گزشتہ دنوں ایک اور نشہ سامنے آیا جس کی نشاندہی کی، وفاقی وزیرمملکت مریم اورنگزیب نے ۔ ۔ کہتی ہیں نواز شریف بھی ایک نشہ ہیں، جسے دیکھنے، سننے اور نظرئیے پر عمل کرنے کے لیے عوام کا سمندر کھنچا چلا آتا ہے ۔

اسے آپ شخصیت کا نشہ بھی کہہ سکتے ہیں، ویسے ایک بات ہے۔ نشے میں ڈوبے افراد کی حرکتیں معقولیت کی سرحدوں سے پرے ہی رہتی ہیں ۔ جب عقل کا دامن ہاتھ سے جانے لگے تو دہن سے ایسے ایسے پھول جھڑتے ہیں کہ یقین آ جاتا ہے کہ نشہ جس کو لگ جائے، اس کی مت مار ی جاتی ہے۔

غم دنیا بھی غم یار میں شامل کرلو

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

شراب کی خاص خوبی سکون دینا ہے۔ کوکین تحریک دینے اور ہیروئن درد ختم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ چرس خیالات اور نظریات بدل دیتی ہے۔ تاہم ان کا تواتر سے استعمال انسان کی صلاحیتوں اور ان خصوصیات کو زنگ آلود کردیتا ہے ۔ پھریہ عادت نشہ بن کر مریض کیلئے دردِ سر ہوجاتی ہے۔

دنیا میں جتنے لوگ نشہ کرتے ہیں اتنی ہی نشہ کرنے کی وجوہات ہیں، جن میں سے چند ایک گھریلو ناچاقی، جنسی کمزوری، ڈپریشن، عشق میں ناکامی، خرابی صحت، بیروزگاری، بوریت اور ٹینشن ہیں۔ جنگ اور محبت کی طرح نشے میں مبتلا شخص اپنی ہر حرکت کو جائز سمجھتا ہے۔ نشے کی خاطر وہ غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ فحش فلموں کی عادت بھی نشہ ہے، یہ لت کسی کو ایک بار لگ جائے تو اس سے جان چھڑانی مشکل ہو جاتی ہے ۔ انسان کے دماغ میں کیمیکل ”ڈوپامین“ کا اخراج بڑھ جاتا ہےاورا سے سکون ملتا ہے۔ ماہرین کے مطابق فحش مواد دیکھنے سے قوت حافظہ کمزور ہوتی ہے ۔ زندگی میں آگے بڑھنے کا جذبہ ماند پڑجاتا ہے۔ چہرے کی تازگی اور خوبصورتی بھی متاثر ہوتی ہے۔

اس وقت 25 سے زائد اقسام کی اشیائےنشہ موجود ہیں۔ جسے غریب طبقہ سے لے کر امیرلڑکیاں لڑکے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں بوٹی، بھنگ، ہیروئن، چرس، صمد بونڈ، انجکشن، کوریکس، ٹینو شربت، کوکین، شراب، پیٹرول، نشہ آور 81گولیاں، نشہ آور پکوڑے، بھنگ کے پاپڑ، افیون، گانجا، گٹکا مقبول ہیں ۔

طلبہ میں، منشیات کی ایک نئی قسم ’آئس یا کرسٹل میتھ ‘(میتھ ایمفیٹامین) کااستعمال بڑھ رہا ہے، جو کہ حشیش سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ۔ بیشترطلبہ نیند بھگانے اور تا دیرپڑھائی کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں ۔ ۔ کرسٹل میتھ ایک کیمیائی عمل کے ذریعے ایفیڈرین سے بنایا جاتا ہے جو وقتی طور پر توانائی دینے کے ساتھ انسان کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر نقصان پہنچاتا ہے۔

اور اب ایک آخری مگر اہم بات:

ایک نشہ ہوتا ہے پیرو مرشد کی صحبت کا، ان کے عمل اور فیض کا، مرشد کی اک نظر پیروکاروں کی دنیا وآخرت سنوار دیتی ہے ۔

خبردار !کسی نے پیر کو پیرنی پڑھا ہو تو ۔۔۔

تینوں ساڈے ورگی نئیں چڑھنی

اساں یار دی اکھ چوں پیتی اے

ربیعہ کنول مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ربیعہ کنول مرزا

ربیعہ کنول مرزا نے پنجاب اور پھر کراچی یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ صحافت میں کئی برس گزارے۔ افسانہ نگاری ان کا خاص شعبہ ہے

rabia-kanwal-mirza has 34 posts and counting.See all posts by rabia-kanwal-mirza