ہاف فرائی انصاف، فل فرائی پولیس مقابلے اور دیپک کا درد


اس کے پاس نفسیات میں ماسٹر کی ڈگری ہے، وہ نوجوان تھا اور خوبصورت بھی، اس کا کسی سے کوئی لینا دینا بھی نہیں تھا، کچھ عرصہ قبل اس نے لو میرج کی تھی، ایک دن ریاست کے رکھوالے پولیس والے منہ پر نقاب چڑھائے ان کے گھر آئے اور اس نوجوان کو دبوچ کر اٹھا لے گئے،

یہ تین سال پہلے کی بات ہے، پولیس نے اسے گاڑی میں ڈالا، وہ نوجوان اپنا تعارف کرواتا رہا، شناختی ثبوت دکھائے، کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ دیا، اپنی یونیورسٹی کا کارڈ نکالا، لیکن پولیس والے اندھےاور بہرے ہونے کا ناٹک کرتے رہے، البتہ وہ گونگے نہیں تھے۔ پولیس اس ہندو نوجوان کی شناخت بدلنے کے چکر میں بس یہ ہی کہتی رہی کہ تم وہ نہیں جو بتا رہے ہو، البتہ تم وہی ہو جو ہم بتا رہے ہیں، پولیس والے اسے نئی شناخت دے کر کہہ رہے تھے کہ تم ڈاکو ہو اور تمہارہ نام شریف کھوسو ہے، کسی بند کمرے میں باندی بنانے کے بعد پولیس اہلکاروں نے اس نوجوان کو ٹانگوں، بازووں اور سر پر گولیاں ماریں، اور پولیس مقابلہ دکھا دیا۔

اس نوجوان کا نام دیپک کمار ہے، وہ اس جعلی پولیس مقابلے میں بچ گیا، اب بھی وہ زندہ ہے لیکن زندگی کی خوشیاں اور رونقیں پولیس کی بندوق سے نکلی گولیوں کی بوچھاڑ کی نذر ہوچکیں، دیپک کمار کی اب حالت یہ ہے کہ ڈاکٹرز نے ایک ٹانگ کاٹ دی ہے، گولیوں کی وجہ سے ان کی دوسری ٹانگ بھی کام نہیں کرتی، وہ ٹانگ بھی ان کے لیے ایک ناسور اور بوجھ بن چکی ہے، ان کے بازو اور ہاتھ سلامت ہیںِ، پولیس نے سر میں جو گولی ماری وہ ان کے ماتھے کو چھو کر نکل گئی۔وہ نوجوان چلنے پھرنے سے قاصر ہے، اپنی بیوی اور چھوٹے بچے کے ساتھ کراچی میں کرایہ کے گھر میں اپاہجوں کی زندگی گذار رہا ہے۔

دیپک کی بیوی سنیتا لبرل خیالات کی پڑھی لکھی اور باہمت خاتوں ہیں، وہ مسلسل دو سال اپنے شوہر کی دیکھ بھال کے لیے کراچی کے ہسپتالوں میں رہی ہیں، انہوں نے ہرفورم پر انصاف کے لئے پکارا اور اس ظلم پر آواز بلند کی، لیکن مسلسل بے حسی کے عالم میں گذارنے والی خاتوں اب تھک چکی ہے۔

یہ ایک جعلی پولیس مقابلہ تھا، بالکل ایسا ہی مقابلہ جیسا ابھی راؤ انوار نے کیا تھا، نقیب اللہ کی شاید جان پہچان بڑی تھی، اس کے خاندان کا نیٹ ورک وسیع تھا، وہ آپریشن زدہ علاقہ سے تھا، اس لئے ایک بااثر ہونے کے باوجود اس کا قاتل اس لیے پکڑا گیا، نقیب اللہ کے تو کئی وارث نکل آئے ہیں لیکن دیپک کے لئے تو نہ کوئی سرکار ہے نہ کوئی وسیلہ، اس جہاں میں اس کا ہونے کو کوئی تیار نھیں۔

کیا نقیب اللہ اکیلا اور آخری شخص تھا جو جعلی پولیس مقابلہ میں مارا گیا ہے؟ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے، سندہ میں کئی دھرتی دھنی اورمقامی باشندے ایسے کئی مقابلوں کا نشانہ بنے، لیکن ان کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، جعلی مقابلوں میں ملوث پولیس افسران آج بھی سینے پر بیجوں کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں، کوٹری کے مقتول مزدور معشوق بروہی سے لیکر ان گنت لوگوں کو بغیر ثبوت و سبب کے گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا۔

دیپک کمار کے ساتھ یہ واقعہ تب پیش آیا جب عرفان بلوچ نامی دبنگ پولیس افسر ایس ایس پی حیدرآباد بن کر آیا تھا۔ سندہ میں تین چار سال پہلے ھاف فرائی اور فل فرائی کی ایک مہم چلی، آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ سندہ کے نوجوان و نیک نام پولیس افسروں کو یہ ٹاسک کہاں سے ملا، لیکن ان پولیس افسروں نے وہی کام کیا جس کے لئے راؤ انوار سے لیکر انسپیکٹر عابد باکسر جیسے پولیسے مشہور ہیں۔

ہاف فرائی اور فل فرائی فارمولہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، فل فرائی مطلب کہ بندہ کو پھڑکا دو، ایسے جعلی مقابلوں کے لئے مرحوم چودھری اسلم یا راؤ انوار مشھور رہے ہیں، ہاف فرائی میں کسی کو بھی پکڑ کر اپاہج بنا دیا جاتا ہے، جس شخص پر شک ہو یاوہ کچھ مقدمات میں ملوث ہو اسے ٹانگوں اور بازووں میں اس جگہ گولیاں ماری جاتی ہیں، جہاں سے یقین ہو کہ ٹانگ اور بازو کاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، اچانک ایسی مہم میں سندہ کے تقریباً تمام اضلاع میں دھڑا دھڑ مقابلےہوئے، ایک سروے ہونا چاہیے کہ سندہ میں پیر محمد شاہ، عرفان بلوچ، مصطفی کورائی، اور کچھ دوسرے پولیس افسران کی ہدایات پر کتنے لوگوں کو ہاف فرائےاور فل فرائے کیا گیا ہے۔ سندہ میں جعلی مقابلوں میں کتنی جانیں جا چکی ہیں اس کا کوئی حساب نہیں، جعلی مقابلے خود قانون اور استغاثہ نظام کے کمزور ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔پاکستان میں جعلی مقابلوں کی تحقیقات کے لیے کسی کمیشن کا مطالبہ کرنا بھی بے سود اس لیے ہے کہ راؤ انوار جیسے کئی پولیسیوں کو مقابلے کے لئے ملزمان تحفے میں ملتے تھے۔ اس سارے کیس کا ایک دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ بقول دیپک اور اس کی بیوی سنیتا کہ پولیس افسر عرفان بلوچ نے ان کے آگے اپنی غلطی تسلیم کی کہ آپ کو غلطی میں اٹھایا گیا، اس کے بعد پولیس کے خرچے پر دیپک کا کچھ عرصہ علاج بھی ہوتا رہا، پولیس نے دونوں میاں بیوی کو یہ راز فاش کرنے سے روک دیا تھا، میاں بیوی کی مجبوری تھی، دیپک اس جعلی مقابلے میں بچ گیا تھا، وہ ایک نئی زندگی تھی، سنیتا اسے کھونا نہیں چاہتی تھی اس لئے انہوں نے شروع میں پولیس کی مشروط پیشکش کو مان لیا، لیکن پھر ہوا یہ کہ پولیس نے ہاتھ نکال دیے، سندہ میں دیپک جیسے لوئر کلاس لوگوں کے لیے سرکار نامی تو کوئی چیز ہی نہیں جو ایسے معاملات میں کسی کا سہارا بنے، اس لیے مجبوری میں دیپک گھر منتقل ہو گیا، شہریوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، یہاں ریاست کی فورس اپنے شہریوں کی قتل کرتی یا معذور بنا دیتی ہے، دیپک کو افغان فوج یا پولیس نے نہیں اپنے دیس کی پولیس نے معذور کیا ہے، جس سے اس کا پورا خاندان بے حال ہے، اب سہاری دینا بھی ریاست کا فرض ہے، سنیتا اور دیپک کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان کا علاج بیرون ملک سے ہونا چاہیے، اور ان کے روزگار کا مستقل بندوبست ہو، دیپک کا معصوم بچہ کسی ایسی دستک کا منتظر ہے جو ان کے دکھ درد کو کو دور کرے اور دکھی خاندان کی زندگی پھر سے خوشیوں میں بدل جائے

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar