قندوز کے بچے اور میلانیہ ٹرمپ کے ہاتھوں میں تھمی بائیبل


مجھ میں تو اتنا بھی حوصلہ نہیں کہ میں قندوز کے بچوں کی لہو لہان تصاویر دیکھ سکوں یا ان کے گھر والوں کے بیان سن سکوں لیکن مجھے اعتماد ہے کہ یہ میری طاقت ہے کمزوری نہیں۔ اس لیے کہ میں امن اور برابری کی بات کرتا ہوں جنگ اور غلبہ پانے کی نہیں۔ دوسری جانب کچھ درندہ صفت انسانوں کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ ہم جیسے سیکڑوں انسانوں کو محض ایک بٹن دبا کے مار سکتے ہیں اور وہ ایسا خوف ناک بٹن دبا بھی دیتے ہیں۔ یہ ان کی طاقت نہیں بلکہ کمزوری ہے۔ فتح کا جنون ان کے سر پر سوار رہتا ہے۔ وہ غلبہ پانے یا غلبہ قائم رکھنے کی کوشش میں پاگل ہوئے رہتے ہیں۔ اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں چاہے بچوں کا قتل ہی کیوں نہ ہو۔

قندوز میں مرنے والے بچو، ہم تمہارا لہو کس کس کے ہاتھوں پر تلاش کریں۔ کوئی چالیس سال پیچھے جانا پڑے گا۔ تاریخ میں چالیس سال تو پلک جھپکنے سے بھی کم ہے کیونکہ میری عمر کے کروڑوں لوگ جنہوں نے یہ سب کچھ ہوتے دیکھا یا کیا ابھی تک زندہ ہیں۔ یہ سب کرنے یا دیکھنے والوں نے جو پیشن گوئیاں کیں اور جو جو دلیلیں دیں سب کچھ ریکارڈ پر ہے اس لیے سچائی تک پہنچنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اور سچائی تک پہنچنا بہت ہی ضروری ہے تاکہ اس پاگل پنے کو روکا جا سکا اور آئندہ کے لیے اے پی ایس پشاور کو طالبان سے اور قندوز کے مدرسے میں جانے والوں کو امریکی گولہ باری سے بچایا جا سکے۔

تو یہ سب شروع ہوا اس وقت جب امریکہ اور سوویت یونین ایک دوسرے کے ساتھ جنونی کولڈ وار میں گتھم گتھا تھے جس کا مقصد صرف اور صرف دوسرے کو شکست دینا تھا۔ اس مقصد میں ریگن اور اس کے حواری اور برزنیف اور اس کے حواری پاگل ہو چکے تھے۔ عین اس وقت افغانستان کی حکومت اور اپوزیشن نے ایک آئیڈیل موقع فراہم کیا۔ وہ اپنے گھر کی لڑائی خود آپس میں طے نہ کر سکے تو افغان حکومت نے سوویت یونین سے مدد مانگ لی اور افغان اپوزیشن نے امریکہ سے مدد قبول کر لی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی چونکہ بہت دور تھے انہیں افغان مجاہدین کو اسلحہ اور ڈالر پہنچانے کے لیے اسی علاقے میں ایک ایجنٹ کی ضرورت تھی اس ایجنٹی کے لیے پاکستانی ڈکٹیٹر مرد مومن مرد حق اور جماعت اسلامی تیار بیٹھے تھے۔ لہٰزا امریکہ اور سوویت یونین نے افغانستان کی زمین پر ایک خونی جنگ شروع کر دی۔ سوویت یونین کی فوج تو خود لڑ رہی تھی لیکن امریکہ اور اس کے حواری برطانیہ اور سعودی عرب نے اپنی فوجوں کو اس جنگ میں استعمال نہیں کیا۔ اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔

امریکہ نے افغان، پاکستانی اور مڈل ایسٹ کے عام مسلمانوں کی جہالت اور جذباتیت اور مسلمان لیڈروں (the likes of dictator Zia Ulhaq and Jamat Islami) کی اپنی قوم کے ساتھ غداری کو خوب استعمال کیا۔ امریکہ نے سعودی عرب، ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق اور جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر اسے اسلام اور کفر کی جنگ کہا۔ ساری دنیا میں زوردار پروپیگنڈا کیا اور پاکستان میں مدرسوں کا جال بچھایا۔ ہمارے اور افغانی بچے مدسوں میں دو جمع دو چار کلاشنکوف پڑھتے رہے اور اسلام کے نام پر امریکہ اور سوویت یونین کی اس جنگ کا ایندھن بنتے رہے۔ عوام کے بچوں کے لیے جنت میں انتظار کرنے والی حوروں کے نئے نئے ماڈل سامنے آتے رہے۔ جبکہ ڈکٹیٹر ضیا الحق اور اس کے حواریوں اور جماعت اسلامی کی لیڈرشپ کے اپنے بچے مزے سے دنیا کی ماڈرن یونیورسٹیوں سے میڈیکل، انجینرنگ اور اکاؤنٹس کی بظاہر غیر اسلامی تعلیم حاصل کرتے رہے تاکہ وہ اسی عارضی زندگی میں جنت کے مزے لے سکیں۔

سوویت یونین کی جانب سے یہ جنگ سوویت یونین ہی ہارا لیکن امریکہ کی جانب سے یہ جنگ افغانستان اور پاکستان ہار گئے۔ امریکہ کی بلا سے۔ سوویت یونین جب جنگ ہار گیا تو امریکہ کا مقصد پورا ہو گیا۔ امریکہ جنگ سے الگ ہو گیا۔ اس کے لیے جنگ ختم ہو گئی لیکن پاکستان اور افغانستان کے لیے یہ جنگ آج چالیس سال بعد بھی جاری ہے۔

وہی پروپیگنڈا جاری ہے۔ مدرسے قائم اور دائم رہے اور انہیں بھرنے کے لیے فیملی پلاننگ کو عورتوں کی پہنچ سے دور رکھا گیا۔ اوریا مقبول جان، زید حامد، حمید گل، لال مسجد اور پتا نہیں کیا کیا اور کون کون مذہبی جنگی جنون کو پھیلاتے رہے اور ہم امن کی بجائے غلبہ پانے کے نعرے لگاتے رہے۔ بین الاقوامی حالات نے بھی جنگی جنون ہی کو ابھارا۔

امریکہ نے اپنا غلبہ قائم رکھنے کے لیے ساری دنیا میں جنگیں اور معصوم انسانوں کا قتل جاری رکھا۔ بوسنیا، چیچنیا، عراق، شام، لبنان اور یمن کی جنگیں ہوتی رہیں اور معصوم بچے قتل ہوتے رہے۔ شہر کے شہر برباد ہوئے۔ کروڑوں بے گھر ہوئے۔ ایک امید، عرب سپرنگ آیا تو اسے بھی امریکہ نے لوکل غداروں کے ذریعے لوگوں سے چھین لیا۔

برصغیر کی بدقسمتی کی انتہا ہو گئی جب مودی جیسا مذہبی جنونی انڈیا کا وزیراعظم منتخب ہو گیا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے سراج الحق پاکستان کا وزیراعظم بن جائے۔ پاکستانی ووٹر بھارتی ووٹر سے بہت بہتر کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں جماعت اسلامی صرف مارشل لا کے دور میں حکومت آ سکتی ہے جب کہ بھارتی جماعت اسلامی یعنی بی جے پی باقاعدہ ووٹ لے کر حکومت بناتی ہے۔ انڈیا میں ہندو انتہا پسندی پاکستان میں مسلم انتہا پسندی کو پروان چڑھاتی ہے۔

ساری دنیا کو گلوبل ولیج بنانے کا امریکہ کو فائدہ یہ ہوا کہ مکڈونلڈ اور کے ایف سی ہر جگہ پہنچے لیکن نقصان یہ کہ طالبان اور داعش بھی یورپ اور امریکہ پہنچے۔ نائن الیون ہوا تو امریکہ کو دوبارہ جنگ لڑنے کا موقع مل گیا البتہ اس دفعہ اپنی فوج بھی لانا پڑی۔ اب ہار امریکہ کی بھی تھی۔

پچھلے پندرہ سال سبھی کرداروں نے افغانستان میں امریکہ اور سوویت یونین کی پہلی جنگ میں اپنے اپنے گھٹیا کردار کا اعتراف کر لیا ہے سوائے جماعت اسلامی کے۔ امریکہ نے پہل کی یہ کہنے میں کہ پاکستان اور افغانستان میں مذہبی جنگی جنون اور طالبان پیدا کرنے میں ان کا ہاتھ ہے۔ ہمارے چیف صاحب نے ڈکٹیٹر ضیا الحق کے تحت ہمارے مشکوک کردار کا اقرار کر لیا ہے۔ اب تو سعودی عرب نے بھی کہہ دیا کہ یہ مذہبی جنگی جنون کی فنڈنگ اسلام کی ترقی کی خاطر نہیں تھی۔ اب صرف جماعت اسلامی بضد ہے اور اسے ابھی بھی اسلام کی سر بلندی کی جنگ ہی قرار دیتی ہے۔

اب جماعت اسلامی اپنی غلطی کا اقرار کرے تاکہ حالات درست کرنے کی جانب پہلا قدم اٹھایا جائے۔ ہم بھی اپنے بچوں کو دنیا میں امن اور انسانوں کے درمیان برابری کا سبق سکھائیں۔ ہماری حکومتیں اپنے لوگوں پر یقین رکھیں اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن کی فضا قائم کریں تاکہ امریکی اسلحہ، امریکی فوج اور امریکی اڈوں کی ضرورت نہ ہو۔ اور امریکہ کو ہمارے بچوں پر گولے برسانے کے بہانے نہ مل سکیں۔ ورنہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ملانیہ ٹرمپ کے ہاتھوں میں تھمی بائیبل پر ہاتھ رکھ کر گویا یہی قسم کھائی تھی کہ وہ امریکی غلبہ قائم رکھنے کے لیے ساری دنیا کے بچوں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik