پی ٹی ایم جلسہ یا لاپتہ افراد کا اجتماع


پشاور میں پشتون تحفظ تحریک یا پی ٹی ایم کے زیر اہتمام ہونے والا جلسہ بظاہر صوبے اور فاٹا میں گزشتہ کئی سالوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین کا بڑا اجتماع دکھائی دے رہا تھا۔

رنگ روڈ پشاور پر منعقد ہونے والے اس جلسے کےلیے ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا تھا جس کے تقریباً چاروں اطراف لمبی لمبی دیواریں تھیں جبکہ درمیان میں ایک بہت بڑا میدان تھا جس میں ہزاروں افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔

جلسہ گاہ میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے جو نمایاں چیز نظر آئی وہ لاپتہ افراد کے پوسٹرز اور بینرز تھے جو چاروں اطراف میں جگہ جگہ دیواروں پر چسپاں کیے گئے تھے۔ جلسہ گاہ میں لوگوں کے درمیان بھی درجنوں افراد اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی بڑی بڑی تصویریں ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔ پہلی نظر میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے بظاہر یہ جلسہ صرف لاپتہ افراد کےلیے منعقد کیا گیا ہے کیونکہ سارا میدان ان کی تصویروں اور پوسٹروں سے مزین تھا۔

لاپتہ افراد کے لواحقین میڈیا کے نمائندوں کو بار بار التجا کرکے ان کو اپنی طرف ایسے انداز سے متوجہ کرتے رہے کہ جیسے ان کی آواز برسوں سے کسی نے نہیں سنی اور وہ کیسے اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی ایک جھلک دیکھنے کےلیے ترس رہے ہیں۔

ان لواحقین میں مردوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی بھی تھی جن کے لیے سٹیج کے قریب سے نیچے ایک جگہ بنائی گئی تھی۔

اس موقعے پر خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والی بصرو بی بی نامی ایک خاتون نے جلسے سے خطاب بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ ان کے خاوند کو گھر سے اٹھا کر لے گئے لیکن آج تک اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی کہ اس نے کیا جرم کیا ہے۔

انھوں نے سٹیج پر موجود اپنے بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘میرے ساتھ اتنا ظلم نہ کریں کیونکہ خاوند کے لاپتہ ہونے کے بعد میرا اب کوئی سہارا نہیں، میں کیا کروں، میرے بچوں کا پیٹ کون پالے گا، ان کی تعلیم کا خیال کون رکھے گا؟’

انھوں نے کہا کہ ‘میں خاتون ذات ہوں اور قبائلی علاقے سے آئی ہوں، میرا اب منظور پشتین کے سوا کوئی سہارا نہیں ہے اور میں حکومت اور تمام اداروں سے اپیل کرتی ہوں کہ خدا کے واسطے میرے خاوند کو بازیاب کرایا جائے۔’

جلسہ گاہ میں موجود باجوڑ کے ایک ادھڑ عمر کے باشندے نے ہاتھوں میں اپنے بیٹے کی ایک تصویر اٹھائی ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ چار سال پہلے ان کے بیٹے کو سکیورٹی اہلکار چکدرہ دیر کے مقام پر گھر جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے اور نہیں معلوم کہ وہ اب زندہ ہے یا مر چکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘اگر میرا بیٹا قصور وار ہے تو ان کو سب کے سامنے قرار واقعی سزا دی جائے لیکن اگر بے گناہ ہے تو اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا جاتا یا کم از کم ہمیں بتایا جائے کہ وہ کہاں ہیں، زندہ ہے یا مردہ؟’

انھوں نے کہا کہ ان کی سات بیٹیاں ہیں اور ان کا وہ اکلوتا بیٹا تھا۔

جلسے میں فاٹا، بلوچستان اور صوبے کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جن میں مختلف سیاسی اور قوم پرستوں جماعتوں کے رہنما اور سول سوسائٹی نمائندے قابل ذکر ہیں۔

عوامی جلسوں میں اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ وہاں سیاسی جماعتوں یا تنظیموں کے جھنڈے بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں لیکن اس جلسے میں کوئی جھنڈا نظر نہیں آیا بلکہ اس کی جگہ ایک مخصوص ٹوپی نظر آئی جسے اب ‘پشتین کیپ’ بھی کہا جاتا ہے۔

جلسہ گاہ میں تقریباً ہر دوسرے نوجوان نے یہ کیپ پہنی ہوئی تھی جہاں دور دور تک ہر طرف لوگوں کے سروں یہ ٹوپیاں نظر آئیں۔

سرخ اور کالے رنگ پر مشتمل اس کیپ کو عام طورپر ‘مزاری ٹوپی’ کہا جاتا ہے جو افغانستان کے صوبے بلخ کے صدر مقام مزار شریف میں تیار ہوتی ہے۔ تاہم منظور پشتین ابتدا ہی سے عوامی جلسوں میں اس ٹوپی کا استعمال کرتے رہے ہیں جس کی وجہ اب یہ پی ٹی ایم کی علامت بن گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp