عاصمہ جہانگیر کنونشن کا اعلامیہ


(منعقدہ 7-8 اپریل 2018) 

کنونشن کے شرکاء جن میں انسانی حقوق کے کارکن، مزدور، کسان، طلبہ، وکلاء، سماجی تنظیموں کے ارکان، خواتین، اقلیتوں اور محنت کشوں کے حقوق کے لیے سرگرم شہری، ادیب، استاد اور صحافی شامل ہیں، مشترکہ طور پر یہ عہد کرتے ہیں کہ:

1۔ پاکستان میں جمہوریت، وفاقیت اور مساوی شہریت کی اقدار کے مکمل حصول تک ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

2۔ پاکستان کے دستورکے آرٹیکل 3 جس میں ریاست کے ہر نوع کے استحصال کے خاتمے کی ذمہ داری دی گئی ہے اور ہمیں یہ حق دیا گیا ہے کہ تمام شہری محنت کے مطابق باعزت روزگارحاصل کر سکیں، اس آرٹیکل پر مکمل عمل درآمد تک ہم ہر طرح کے قانونی اورسماجی اقدامات اٹھائیں گے۔

3۔ انسانی حقوق کی تحریک کو اس کی تمام جہتوں کے ساتھ کامیاب بنائیں گے اورسیاسی و شہری حقوق کے ساتھ ساتھ سماجی، معاشی اورثقافتی حقوق کی پاسداری کے لیے کوشاں رہیں گے۔

4۔ عملی طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ خواتین کے حقوق کی تحریک ہو یا مساوی شہریت کے حصول کے لیے مذہبی اقلیتوں کی تحریک، اگران تمام تحریکوں کا تعلق آپس میں اورمحنت کشوں اورقومی حقوق کے لیے چلنے والی تحریکوں سے نہیں جوڑا جائے گا اورمشترکہ جدوجہد نہیں کی جائے گی تب تک ہماری تحریکیں مئوثرنہیں ہوں گی۔ ہم اپنی کامیابی کے لیے مکمل ہم آہنگی اوراتفاق کے ساتھ کام کرتے رہیں گے اورآپس میں اتحاد قائم کریں گے۔

5۔ ہم اظہاررائے پر لگنے والی علانیہ اورغیرعلانیہ قدغنوں کو مکمل طورپرمسترد کرتے ہیں۔ ہم کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیے بغیر اظہار کی آزادی اور فکر کی آزادی کے اپنے انفرادی اوراجتماعی حقوق استعمال کرتے رہیں گے۔

6۔ ہمیں سیاسی اورسماجی کارکنوں اور فعال شہریوں کی جبری گمشدگیوں پر شدید تشویش ہے اور ہم ان غیرانسانی و غیرقانونی گمشدگیوں کے مکمل خاتمے تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔

7۔ تنظیم سازی اوریونین سازی بنیادی حقوق ہیں جن کے پاسداری ریاست پرفرض ہے۔ ایک مہذب اورمساویانہ معاشرے کی تشکیل ان حقوق کی تکمیل کے بغیرممکن نہیں۔ ہم تنظیم سازی اورمحنت کشوں، طلبہ اورپیشہ ورگروہوں کی یونین سازی کے لیے کوشاں رہیں گے۔

8۔ ہم کسی بھی ریاستی دبائو کا مقابلہ کریں گے اور سول سوسائٹی کے لیے تنگ کی جانے والی زمین کو کشادہ کرتے رہنے کے کوششوں سے دستبردارنہیں ہوں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک کامیاب ریاست اپنے شہریوں اورعوام کی امنگوں کی عکاس ہوتی ہے۔

9۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معاشی اورمادی ترقی کا مطلب ایک عام شہری کی ترقی ہے۔ ماحولیات کی خرابی بھی طبقہ امرا واشرافیہ کی ہوس زر کا نتیجہ ہے۔ چناں چہ ہم ایک مسایانہ اورمنصفانہ سماج کے قیام کے لیے اپنی جدجہد جاری رکھیں گے اورصرف ایسے ترقیاتی منصوبوں کی تائید کریں گے جو نہ ماحولیات پرمنفی اثرات مرتب کریں اورنہ صرف امیرکو امیرتربنانے پرمرکوز رہیں۔ ملک کے ایسے تمام حصوں میں جہاں قانون کی عملداری نہیں ہے جیسے فاٹا اورگلگت بلتستان، وہاں انسانی حقوق کے احترام کا نظام قائم کرنا ضروری ہے۔

10۔ پاکستان کے دستورمیں ایسی تمام شقیں جو کسی بھی صنف یا مذہب کو ترجیح دیتی ہوں، ان کی تبدیلی کے لیے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ پاکستان کے تمام شہری بلالحاظ رنگ، نسل، جنس، مذہب، طبقہ یا معذوری، برابر ہیں اور رہیں گے۔ خصوصا مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کسی قسم کا امتیاز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انتہاپسندی اورعدم برداشت ہمارے معاشرے کی صحت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں، ان کا سدباب کرنا ضروری ہے۔

11۔ موجودہ صورت حال میں ہم ریاست کے تمام اداروں کے مابین تقسیم کاراورتقسیم اختیار کی آئینی اورقانونی حدود پرقائم رہنے کی حمایت کرتے ہیں اورپارلیمان کے بالادستی کے لیے کوشاں رہنے کا اعلان کرتے ہیں۔ خصوصا 18 ویں ترمیم میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کی مزاحت بھرپورانداز میں کریں گے۔

12۔ آئندہ انتخابات پر ہماری گہری نظر ہے اور ہم کسی غیرآئینی، غیرقانونی اورغیراخلاقی طریقے سے ان انتخابات پر اثرانداز ہونے والی قوتوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ عوام کے حق استصواب میں خیانت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ہماری اپنی ذاتی سیاسی آراء ہیں مگرہم مشترکہ طور پر ایک شفاف جمہوری انتخابی عمل کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔

آخرمیں ہم اپنی رہنما عاصمہ جہانگیرمرحومہ کی دکھائی ہوئی راہ پرچلنے اوراس جدوجہد کو جاری رکھنے کا عہد کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک روشن خیال اورعوام دوست ریاست اور ایک منصفانہ اور مساویانہ سماج قائم ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).