لبیک تحریک: عقیدے کے نام پر استحصال


لاہور میں داتا دربار کے باہر لبیک تحریک کا دھرنا جاری ہے اور اب اس میں ایک ہفتے کی توسیع کردی گئی ہے۔ دھرنا کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ آئیندہ جمعرات تک اگر پنجاب حکومت نے نومبر میں فیض آباد دھرنا کے خاتمہ کے لئے ہونے والے معاہدہ پر پوری طرح عمل نہ کیا تو ملک بھر میں احتجاج شروع کیا جائے گا۔ فیض آباد دھرنا کے موقع پر خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے اسی قسم کی اطلاعات سامنے آنے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس معاملہ کو ’مفاہمت‘ سے حل کرنے پر زور دیا تھا۔ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے اصرار کے باوجود زبردستی دھرنا ختم کروانے کے لئے فوجی کمک فراہم کرنے سے گریز کیا تھا۔ اس کی بجائے پنجاب رینجرز کے سربراہ نے دھرنا ختم کروانے میں ثالث کا کردار ادا کیا اور ایک میجر جنرل کی گواہی میں وفاقی حکومت کو لبیک تحریک کی شرائط پر معاہدہ کرنا پڑا تھا، تاکہ دھرنا ختم ہو سکے۔ اب لاہور میں ویسی ہی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اگرچہ اس کی نوعیت مختلف ہے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے کیوں مذہبی گروہوں کے استحصال کا شکار ہورہے ہیں۔

اس سوال کا جواب تو فوج سمیت تمام متعلقہ اداروں کو دینا چاہئے۔ کیوں کہ ذمہ داری کو ایک دوسرے کی طرف لڑھکا دینے سے نہ تو امن و امان کا مسئلہ حل ہوگا اور نہ ہی حکومت کی عمل داری قائم ہو سکے گی۔ ملک میں اس وقت سیاسی جماعتیں جمہوریت کے تحفظ کا نعرہ بلند کررہی ہیں جبکہ عدالتیں قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کا اعلان کرتی ہیں۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ ریاست کی مختلف قوتیں ایک دوسرے کا امتحان لیتے ہوئے ایسے گروہوں کو کھل کھیلنے کا موقع دے رہی ہیں جو اپنے مخصوص مفادات کے لئے مذہب کو استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ لبیک تحریک کو بھی اس سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے ۔ اگرچہ اس کے لیڈر اس معاملہ کو حرمت رسولﷺ کے تحفظ کا اصول قرار دے کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تو ایک اہم مذہبی اصول کی بنیاد پر احتجاج کررہے ہیں۔ تاہم لبیک تحریک کے سیاسی عزائم پوشیدہ نہیں ہیں۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتا ز قادری کی حمایت میں شروع ہونے والی اس تحریک نے اب خود کو سیاسی پارٹی کے طور پر رجسٹر کروا لیا ہے۔ گزشتہ چند ضمنی انتخابات میں اس پارٹی نے سیاسی میدان میں مقابلہ بھی کیا ہے اور ہر حلقہ میں چند ہزار ووٹ لے کر اپنی سیاسی اہمیت سے بھی متاثر کیا ہے۔ یہ پارٹی اور اس کے لیڈر ملک کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے اسلامی نظام نافذ کرنے کے دعوے دار ہیں۔ اس حد تک تو اس گروہ کی کارروائیاں قابل قبول ہیں۔ لیکن ملک کی دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں یہ پارٹی ختم نبوت کے مسئلہ پر رائے عامہ کو متاثر کرتی ہے اور لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اگر ان لوگوں کے خلاف بات کی تو ان کا ایمان خطرہ میں پڑ جائے۔ اس گروہ کا یہی ہتھکنڈا اسے دیگر مذہبی پارٹیوں سے ممتاز کرتا ہے اور یہ اس وقت ملک میں ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے۔

انتخاب میں جیت کر حکومت بنانا اور اپنے منشور کے مطابق فیصلے کرنا یا نظام میں تبدیلیاں لانا ہر سیاسی یا مذہبی سیاسی جماعت کا حق ہے ۔ لیکن مذہبی سیاست کرنے والے کسی بھی گروہ کو دوسرے کے ایمان پر شبہ کرنے، فتوے جاری کرنے اور یہ دعویٰ کرنے کا حق و اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ صرف اس کا مؤقف درست ہے۔ لبیک تحریک یہی کام کررہی ہے اور اسے اس خطرناک طریقہ کار سے روکنے کی کوئی واضح حکمت عملی بھی دکھائی نہیں دیتی۔ فیض آباد دھرنا کے نتیجہ میں وفاقی حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کو استعفی دینے پر مجبور کیا۔ کیوں کہ لبیک تحریک کے لیڈروں نے ختم نبوت پر ان کے ایمان پر سوال اٹھا دیئے تھے ۔ وفاقی حکومت فوج کے دباؤ کی وجہ سے اس حد تک جانے پر مجبور ہوئی تھی۔ اس وقت بھی اس مطالبہ کو ماننے کی سنگینی واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن سیاسی مجبوریوں اور ضرورتوں کی وجہ سے انہیں خاطر میں نہیں لایا گیا۔ حکومت اور فوج نے یہ سمجھا تھا کہ مطالبات ماننے کی صورت میں تضاد ختم ہو جائے گا۔ اس وقت بھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ ایک انتہا پسند مذہبی گروہ ایک خاص ڈھب سے عقیدہ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی سیاسی قوت و حیثیت منوانے کی کوشش کررہا ہے۔ اب وہ صورت حال لاہور کے دھرنے کی صورت میں سامنے آرہی ہے اور پنجاب حکومت ’مصالحت‘ کے ذریعے اس سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے۔

موجودہ دھرنے کی قیادت بھی علامہ خادم رضوی کررہے ہیں جنہیں اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کے حکم پر اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔ اب یہ مفرور لیڈر دھرنا کی طاقت کے درپردہ دراصل نہ صرف یہ کہ گرفتاری سے بچنا چاہتے ہیں بلکہ قانون کے شکنجہ سے مستقل بنیاد پر گلو خلاصی بھی چاہتے ہیں۔ پنجاب حکومت امن و مان قائم رکھنے کے نام پر وفاقی پولیس کے مفرور ملزمان کو گرفتار کرنے سے انکار کررہی ہے۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے اس حوالے سے کہا ہے کہ’ لبیک تحریک نے تیسرے فریق کی ضمانت پر وفاقی حکومت سے معاہدہ کیا تھا۔ اب پنجاب حکومت وفاقی حکومت اور لبیک تحریک کے درمیان غلط فہی دور کروانے اور تنازعہ کو خوش اسلوبی سے حل کروانے کی کوشش کررہی ہے۔ لبیک کے لیڈروں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات وفاقی پولیس نے درج کئے ہیں اس لئے پنجاب حکومت اس سلسلہ میں کچھ کرنے سے قاصر ہے‘۔ رانا ثنا اللہ یہ دعویٰ کرتے ہوئے جمعہ کو منعقد ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران لبیک تحریک کے چیئر پرسن پیر افضل قادری کے اس اعلان کو نظر انداز کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ’ پنجاب حکومت نے رانا ثنااللہ کو علما کے سات رکنی کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ کمیٹی صوبائی وزیر قانون کے ایک متنازعہ انٹرویو پر پوچھ گچھ کرکے فتوی جاری کرے گی، جو پنجاب حکومت اور رانا ثنا اللہ ماننے کے پابند ہوں گے‘۔

اس بیان کی روشنی میں لبیک تحریک کے لیڈروں کے عزائم واضح ہوجاتے ہیں اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پنجاب حکومت اصل صورت حال کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ بیان اس شبہ کو بھی یقین میں بدلتا ہے کہ ایک مذہبی گروہ کس طرح دوسرے لوگوں کے عقائد کے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار حاصل کرکے ملک میں عدم برداشت اور سماجی انتشار کو فروغ دینے کا سبب بن رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں معاملہ کو ایک دوسرے کی ذمہ داری قرار دینے کی بجائے اس اصول پر اصرار کرنے کی ضرورت ہے کہ مذہبی بنیادوں پر بلیک میل کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ جو غلطی نومبر میں فیض آباد دھرنے کے موقع پر کی گئی تھی، اگر اب بھی اسی کو دہرایا گیا تو اس ملک میں مذہبی آزادی کے اصول کو خدا حافظ کہنے کی نوبت آجائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali