گرل فرینڈ نے میرے پاس ویاگرا دیکھ کر اس کےبارے میں پوچھا تو مجھے ٹھنڈے پسینے آ گئے


اس کہانی میں بالغوں کے لیے معلومات ہیں تاہم اپنی کہانی بیان کرنے والے شخص نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

میں نے کئی راتیں روتے ہوئے گزاریں۔ مختلف ڈاکٹروں سے ملنے کے بعد میری تکلیف بڑھ گئی تھی۔ ہر لمحے میری مایوسی اور میری پریشانی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اپنے مسئلے کے حل کے لیے میں انڈیا سے چوری چھپے کئی سو پاؤنڈ کی ویاگرا منگوا چکا تھا۔ ایک پیکٹ 20 گولیوں کا آتا تھا اور ایک گولی کی قیمت ڈیڑھ سو روپے تھی۔ باتھ روم جا کر میں گولی کھاتا اور یہ محسوس کرنے کی کوشش کرتا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہے۔

گولیوں کا اثر

میری عمر 25 سال ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ مجھے اس عمر میں ہی ان سب کا سامنا کیوں کرنا پڑا۔ میری گولیاں ختم ہو جاتیں تو میں صدمے میں آ جاتا۔ کیونکہ پھر جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے مجھے بہانے بنانے پڑتے۔ یہ گولیاں اپنا اثر دکھاتی تھیں تاہم میں سیکس سے لطف اندوز نہیں ہو پاتا تھا۔ ہر وقت دماغ پر ایک خوف سا چھایا رہتا تھا۔

میں جب 16 سال کا تھا اس وقت مشت زنی کرتے ہوئے مجھے اپنی کمزوری کا احساس ہوا تھا۔ صبح کے وقت ارکشن ہونا بند ہو چکی تھی اور یہ پہلی علامت تھی۔ اگلے 12 ماہ میں صورتحال تیزی سے خراب ہوتی گئی اور مشت زنی اور سیکس میرے لیے مشکل ہوتا گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ میری گرل فرینڈ کو بھی میری کمزوری کا علم ہو گیا تھا اور یہ بات میرے لیے بہت ہی تکلیف دہ تھی۔

سب مبالغہ آرائی کرتے تھے

میرا ایسا کوئی بھی نہیں تھا جس سے میں اپنی باتیں بتا سکتا۔ سکول کے دوست میرا مذاق اڑاتے، گھر میں شرم کی وجہ سے والد سے بات نہیں کر پایا۔ بلکہ اپنی جنسی زندگی کے بارے میں دوستوں کے ساتھ ڈینگیں مارا کرتا تھا جیسا کہ وہ سب کرتے تھے۔ میرا خیال تھا کہ جنسی کمزوری صرف بوڑھے لوگوں میں ہوتی ہے۔ لیکن نوجوانوں کے ساتھ بھی یہ مسئلہ بڑا ہے۔

ایک حالیہ مطالعے میں یہ پتہ چلا ہے کہ 40 سال سے کم عمر کے ہر چار افراد میں سے ایک جنسی کمزوری کا شکار ہوتے ہیں۔ میری ڈاکٹر نے مجھے بتایا ہے کہ ہر دس مرد میں سے ایک میں یہ زندگی میں کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ پھر بھی یہ ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں بات کرنے کے لیے آپ کو کم ہی لوگ ملتے ہیں۔ ایسے لوگ جو کہ مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ سن سکیں۔

میرا خیال تھا کہ پورن فلموں سے کچھ مدد ملے لیکن حقیقی زندگی میں اس طرح کا کچھ بھی نہیں ہوتا جو دکھایا جاتا ہے۔ ایک بار میری گرل فرینڈ نے ویاگرا کی گولیاں دیکھ کر مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس کی بات کو نظر انداز کرنے میں ہی میری پیشانی پر پسینہ آ گیا۔ آج ایسا لگتا ہے کہ مجھے اس سے بات کرنی چاہیے تھی لیکن شرمندگی کے باعث ایسا نہیں کر سکا تھا۔

‘میں مر جانا چاہتا تھا’

کچھ سال پہلے میں یہ محسوس کرنے لگا تھا کہ مجھے خودکشی کر لینا چاہیے۔ میرے لیے محبت کرنا اور رشتہ نبھانا مشکل ہو گیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ میرے بچے کبھی نہیں ہوں گے اور میری جنسی کمزوری کے سبب یہ رشتہ بھی ٹوٹ جائے گا۔ میں یہ شمار نہیں کر سکتا کتنی راتیں میں نے رو کر گزاریں۔ ہر وقت اسی کے بارے میں سوچا کرتا تھا۔

ذہنی دباؤ سے فرار کے لیے میں نے منشیات لینا شروع کر دیا۔ لیکن پھر یہ خیال آیا کہ جنسی کمزوری کے لیے اپنے جسم کو مزید نقصان پہنچانا درست نہیں۔ ایک دن میں نے اپنے تمام مسائل کے بارے میں اپنی ماں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔میں نے انھیں بتایا کہ میں مر رہا ہوں۔ یہ کمزوری میری جان لے رہی ہے۔ وہ میری بات سن کر دنگ رہ گئيں۔ لیکن انھوں نے ہی میری مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نئے ڈاکٹر سے ملنا چاہیے۔ نئے ڈاکٹر نے مجھے مختلف قسم کی گولیاں، جیل اور انجیکشن دیے۔ میں پورے اعتماد کے ساتھ ان سے علاج کروا رہا تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ سب چیزیں سیکس کے دوران پورن سٹارز کی مدد کرتی ہیں۔ یہ علاج انتہائی دردناک تھا۔ چھ ہفتوں میں ہی میں نے ان کو چھوڑ دیا۔

مسئلے کا حل

ایک ماہر نفسیات نے یہ کہا کہ یہ سب چیزیں ذہنی ہوتی ہیں۔ ان کی بات سن کر میں دوبارہ ان سے ملنے نہیں گیا کیونکہ صرف میں ہی جانتا تھا کہ میں کن حالات سے دوچار ہوں۔ میرے ٹیسٹ جاری رہے۔ ایک ٹیسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ میرے عضو تناسل کے گرد خون کا بہاؤ معمول پر نہیں ہے۔ اسے وینس لیک کہا جاتا ہے۔ تاہم بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف اس وجہ سے نہیں ہوتا۔ بالآخر ایک ڈاکٹر نے کہا کہ آپ عضو تناسل امپلانٹ کروا لیں۔ اس طرح اس کمزوری کو مختلف انداز سے دور کیا جا سکتا ہے۔ میں نے اس ڈاکٹر کی بات مانی اور ایک بڑا آپریشن کروایا اور آج میں اپنے عضو تناسل کو کنٹرول کر سکتا ہوں۔

لوگوں کو مشورہ

میری نئی گرل کو اس بات کا علم ہے۔ میں نے مذاقاً اسے یہ بات بتا دی۔ اس نے میری بات سمجھی۔ مجھے یہ خیال آتا ہے کہ کاش میں اس سے پہلے ملا ہوتا تو زندگی بہت آسان ہوتی۔ اب میرے دوستوں کو بھی اس کا علم ہے۔ وہ مجھے روبوٹ مین کہہ کر میرا مذاق اڑتے ہیں۔ وہ مجھ سے اس کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں۔ ایسے مسئلے سے دوچار لوگوں کو میرا یہ مشورہ ہے کہ جلد از جلد کوئی ایسا شخص ڈھونڈ لیں جس سے آپ اپنی دشواری کے بارے میں بات کر سکیں۔ بات کرنے سے تسکین ہوتی ہے۔ کوشش کریں کہ اس کا علاج ہو سکے۔ اور اگر ممکن ہو تو ایسا پارٹنر تلاش کریں جو آپ کی کیفیت کو سمجھ سکے۔ اور ویاگرا جیسی دیگر ادویات پر اپنا وقت اور پیسہ ضائع نہ کریں کیونکہ ان سے مسئلہ کا حل مشکل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32193 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp