دی ہائپوکریسی سنڈروم


میکاؤلی کی روح ہماری سیاست اورمعاشرے کے دوہرے معیار پہ خوشی سے سرشار ہو کے ناچ رہی ہو گی۔ کونسا ایسا شعبہ ہے جس میں ہم نےمنافقت کے شعبدے نہیں دکھاۓ؟ علامہ محمد اقبال(رح) فرماتے ہیں۔ “بحرظلمات میں دوڑا د‌‎‏‌یے گھوڑے ہم نے” پر ہم نے تو۔

دوڑائے گھوڑے دشت‏‎‌ نفاق کےسراب میں

بنایا فن نفاق کوغرق ہو گئے گرداب میں

” انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اترجاۓ تیرےدل میں میری بات” کیا کریں کہ یہاں منصف بھی اس شعرکی تصویر بنےپھرتے ہیں”عشق قاتل سےبھی مقتول سے ہمدردی بھی “بات تو سچ ہےمگربات ہےرسوا‏ئی کی” کےمصداق منافقت کےمیداں کارزارميں ہم نے کارہاۓ نمایاں سرانجام دیے ہیں۔حقوق نسواں کی جدوجہد میں گلابی گلابی سے ماحول میں گلابی گلابی باتیں کرکے کروڑوں ضائع ہوتے ہیں۔بس اتنا نہیں ہوتا کہ اسی پیسے سے کسی غریب خاتون کےسرپرگلابی شال اوڑھائی جا‎ۓ،یاچولھا گرم کرکےغریب بچیوں کے چہروں پرگلابی مسکراہٹیں پھیلائی جائیں۔ ما‏ؤں بہنوں کو سات پردوں میں دیکھنے کے خواہش مند گلی کوچوں میں خواتین کو مال غنیمت سمجھ کرکہتے ہیں، کیا مست چیزہے۔ تعلیم کے قدرداں بہت، لیکن بہت کم سرکاری سکولوں کی فکرکرتےاور بچے وہاں بیجھتے ہیں۔ سیاست کا ‌کچھ حصہ اک مکروہ دھندے اورمافیا کی شکل اختیارکرگیا ہے ۔

جو پارلیمانی دھندہ ہے

بڑا ہی گندہ ہے

سیاست نفرتوں کا کھیت

اور جھوٹ کا پلندہ ہے

یاں رہبر رہزن ہیں

کون نجات دہندہ ہے

بولی سب کی لگتی ہے

کون کس کا بندہ ہے

بے ضمیررہبرپرنخوت

اور کارکن شرمندہ ہے

دکھاتے سبز باغ سبھی

سب کچھ آ ئندہ ہے

منہ میں رام رام

بغل میں پھندہ ہے

جو سب سے بڑا رہزن

وہی نجات دہندہ ہے

جو جی میں آئے کر

نظریہ تو زندہ ہے

یہاں آمرکےآنے پر خوشیاں منائی اور مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں۔

اور خاکی مرد آھن

پائمال کر کے بھی پائندہ ہے

یہاں غربت عصمت لٹنے پہ مجبورکراتی ہےاور سرمایہ دار زکواۃ کے ذریعے اس دلدل سے نکالنے کے بجا‎ۓ اپنی ہوس کی آگ بجھاتا ہے۔

ٹکہ ٹکہ عصمت کھونے والی

مرکے بھی زندہ ہے

چھوٹے صوبوں کی محرومیاں ختم کرنے اورغربت مٹانے کے بڑے بڑے وعدے کۓ جاتے ہیں۔ پربلوچستان میں بچوں کے پا‎ؤں میں جوتے نہیں ۔کوئٹہ میں دس سال کا بچہ رات کے بارہ بجےتک سڑک کنارے بیٹھا رہتا ہے کہ ماں نے حکم دیا ہے۔ کہ جب تک پانچ سو پورے نہ ہو گھر نہیں آنا ہے۔ اورجناح روڈ کے فٹ پاتھ پہ جنوری کی منجمند کرنےوالی سردی میں آٹھ نو سالہ بچہ سکڑا ہوا اک گٹھڑی کی مانند پڑا رہتا ہے۔

سرد فٹ پاتھ پہ سکڑا وجود

اک بچہ معمارآ‎‌ئندہ ہے

میڈیا کا زیادہ ترحصہ آدھا سچ اورزیادہ جھوٹ دکھاتا/لکھتا ہے ۔ بےجا سنسنی پھیلاتا ہے۔ طاقتورطبقات کی خوشامد میں ایسا مدغم رہتا ہے۔ کہ شاذونادرمحروم،محکوم اورمظلوم طبقات کی طرف دھیان جاتاہے۔ اورپھراس انداز سےہمدردی جتاتا ہے جیسےاحسان عظیم کرڈالا ہو۔

جھوٹ سب سےاچھا بکتا ہے

صاحب یہ اپنا دھندہ ہے

سچ کہیں کھو گیا ہے

جھوٹ زبان پہ کندہ ہے

عمران خان،طاہرالقادری اورخادم رضوی کے دھرنے کوضرورت سےزیادہ کوریج ملتا ہے۔ منظورپشتون کی باری آتی ہے۔ میڈیا کوسانپ سونگھ جاتا ہے ۔ محروم ، محکوم اورمظلوم احساس دلاتے ہیں۔ میڈیا کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔ قیامت کی خامشی چھا‎ئی رہتی ہے ۔ کوئی ٹس سےمس نہيں ہوتا۔ کیوں بھئ! سکرپٹ عظیم لوگوں نے نہيں لکھا ہے کیا ؟

یہ تیری قیامت جیسی لازوال خامشی

جیتے جی مار نہ ڈالےمیرے جاناں

میرے مقتل کی عکاسی نہ کرکے

تیرا مستقبل درخشاں،حال تابندہ ہے ؟

مذہب کوبعض لوگوں نے بیوپاربنالیاہے۔

مذھب کے بیوپار کئی

فرقہ بندی اک دھندہ ہے

یہاں مردوں کےھوس کی بات ہوتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ

ھوس حوا کی بیٹی کیلۓ

بھیڑکی کھال میں درندہ ہے

پریہ بات مرد تک محدود کیوں،خواتین میں یہ مادہ نایاب ہےکیا؟ صرف مردوں کے ظلم کی بات ہوتی ہے۔ لیکن کیا روشنیوں کے شہرمیں بیوی کے ہاتھوں میاں پریشرککرمیں یوں نہیں پکتا کہ ہڈیاں تک گل سڑ کے نالی کا حصہ بن جاتی ہیں؟ بقول محترم وسعت اللہ خان صاحب،جو ذرا ہٹ کے لکھتے ہیں۔ ” میں کروں تو بال ٹیمپرنگ ، تو کرے تو بھول ” یہاں مرحومہ بانوقدسیہ سے منسوب ٹوٹکوں جیسے اقوال زرین کی ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی ۔ “عورت محبت کرتی ہےتو کھل کےسچی محبت کرتی ہے۔” تو کیا مرد محبت کے اس دریا میں ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے؟؟ دل تھام کےبیٹھۓاورستم ظریفی کا شاندارمظاہرہ ملاحظہ فرما‎ئے۔ ” اگرخواتیں غیرت کے نام پہ مردوں کو قتل کرنا شروع کردیں۔تومرد صرف بیالوجی کی کتابوں میں ملیں گے۔”اندازہ کریں، مرد نہ ہوۓ کوئی نایاب قسم کی جنس ہو‏ئی۔ مبالغہ آرا‏ئی کی حد محترمہ پہ ختم ہوتی ہے شاید !

یہاں پہ کوئی منظور پشتون، منصورکی طرح دار پہ چڑھ کےحق کی بات کرنے والا غدارٹہرتا ہے۔ ۔

حق کی جو بات کرے

غدار وہ بندہ ہے

رہزن کیلئے تخت

منصور کیلئے پھندہ ہے

یہاں امن کےنام پہ خونریزی ہوتی ہے۔ ہم دوسروں کی جنگ میں کود کراسے اپنا بنا لیتے ہیں۔

اقدام امن شوشہ ہے

شورش کا پلندہ ہے

کئی دہائی دیتے ہیں، پرائی جنگ ہے۔ پر نقارخانےميں طوطی کی کون سنتا ہے۔ اک منتشرہجوم ہے ہراک کو اپنی اپنی فکرہے۔ مولانا محمدخان شیرانی گویاں ہوتے ہیں” پرا‏ئی جنگ ہے۔ وطن کراۓ کا چوک ہے سب کچھ کراۓ پہ ملتا ہے”۔ ہجوم میں کاناپوسی ۔ پگڑی والے، بغیر پگڑی والے۔۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔کامل سیاسی مولانا اس پہ۔۔تہترکے آئین کے تناظرمیں۔۔ایسا کیسے ہوسکتاہے؟۔۔ مولانا بوڑھا ہو گیا ہے یا شاید۔۔ مستانہ دیوانہ نعرہ لگاتا ہے۔ ہو سکتا ہےجی۔سب کچھ ہوسکتا ہے،اورترنم سےگاتا ہے ۔

په یوه قدم ترعرشه پوری رسی (اک ہی جست میں پہنچتے ہیں عرش تک)

ما لیدلي دي رفتار د درویشانو (دیکھی ہے میں نے رفتار درویشوں کی) (رحمان بابا)

ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں

کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کوخبطی سمجھتے ہیں   ( اکبرآلہ آبادی)

آفت کا پرکالہ پیرکامل کے پاس جاتا ہے۔ حضرت مولانا شیرانی کہتے ہیں کرا‎ۓ کا چوک ۔۔افغانستان وہ توہے ہی کرایےکاچوک روس کا۔انڈیا کا۔امریکہ کا۔نہیں جی وہ وطن عزیز کو۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔مولانا دین سے باہر۔۔ بات حلق میں اٹک جاتی ہے۔ سوچتے ہوۓ، بات گلے نہ پڑ جاۓ،بڑے خطرناک مولوی ہیں۔ رنگ برنگی تتلیوں کی سالوں کی عرق ریزی کولمحوں میں فرسودہ قرار دیتے ہیں۔۔ کتاب دیکھتا ہوں ۔سبزکتاب ہاتھ میں آجاتی ہے۔ جی وہ نظریہ ضرورت کے تحت اورحالت اضطراری میں معمولی سی گنجائش ہے۔ بشرطیکہ مال غنیمت تگڑا ہو۔ سبحان اللہ! کیا کامل بات کہی ہے۔غنیمت ہے،غنیمت چوک غنیمت ہے۔ ہجوم میں کونے پہ سرگوشی جیسی آوازیں نکلتی ہیں۔ محروم ہوں،محکوم ہوں،مظلوم ہوں۔غل غپاڑے میں سرگوشیاں دب جاتی ہیں۔ مستانہ دیوانہ سنتا ہے۔جلال میں آجاتا ہے۔ زورسے نعرہ لگاتا ہے۔        ساڈا حق۔۔ایتھےرکھ

ہجوم پہ خاموشی چھا جاتی ہے ۔ منچلا گنگناتا ہے۔

اب کروں گا تیرے ساتھ ۔ گندی بات ، گندی بات ۔۔۔۔

شور اٹھتا ہے ،میراحق ۔اپنا حق۔ یکایک گرج دارآواز کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ جھوٹ بکتا ہے۔ضمیر فروش ہے۔وطن فروش ہے۔ غدار ہے۔ ایجنٹ ہے۔پھانسی چڑھا دو۔چھلنی کرکے رکھ دو۔ لہو کا بازارپھرگرم ہوتا ہے۔شیطان فخريہ مسکراتا ہے۔ ‎‌شاعر سوچتاہے۔کیا دنیا انتشاروقت کی لپیٹ میں اک گورکھ دھندہ ہے؟

یہ اپنی دنیا بھی

عجب گورکھ دھندہ ہے

زندگی بھیڑ تھی رستہ کھو گیا میں

رات اندھیر تھی رستہ کھو گیا میں

تھا باسی تیرےبہشت کے اجالوں کا

میری تقصیر تھی رستہ کھو گیا میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).