منظور پشتین کی تحریک ختم ہو جائے گی اگر


منظور پشتین کی تحریک، پاکستان تحفظ موومنٹ نے اپنی عوامی طاقت کا پشاور میں مظاہرہ کیا ۔ یہ عوامی طاقت کا ایک بڑا بھرپور مظاہرہ تھا ۔ خواتین بچے اور بزرگ اس میں دور دور سے آ کر شریک ہوئے ۔ یہ احتجاجی جلسہ پر امن رہا ۔ جلسے میں سیکیورٹی چیک پوسٹوں کے خلاف اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف بہت کھل کر بات کی گئی ۔

بہت سے بوڑھوں ، بچوں اور خواتین نے اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھائیں ہوئی تھیں ۔ جو کئی کئی سالوں سے نامعلوم افراد کے ہاتھوں نامعلوم ہوچکے ہیں ۔اس احتجاج میں منظور پشتین کے ساتھ کھڑے لوگ ایک مطالبہ بار بار کر رہے تھے ۔ ٹل، پاڑہ چنار ، باجوڑ اور سوات سے آنے والے لوگ سب ایک ہی سوال پوچھ رہے تھے ۔ یہی کہ  ان کے پیارے جو نامعلوم ہوچکے ہیں ان کا پتہ نشان بتایا جائے ۔

کسی کابیٹا غائب تھا کسی کا باپ ۔ کوئی ماں اپنے بچے کی تصویر اٹھائے ہوئے تھی کسی کو اپنے گمشدہ شوہر کی رہائی مطلوب تھی ۔

ایک بچی جو کہ باجوڑ سے تعلق رکھتی تھی وہ اپنے والد کو ڈھونڈنے آئی تھی کہ شاید اُسکا والد اسے پشاور میں پختون تحفظ موومنٹ میں مل جائے ۔ وہ اپنے والد کو تلاش کرنے نکلی تھی جس طرح ایک معصوم بچی اپنی گڑیا تلاش کرتی ہے ۔ ایک باپ ٹل سے بچوں کی تصویریں اُٹھائے ہوئے آیا تھا اسکی آبدیدہ نگاہوں میں بولتے سوالوں کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

بہت سے نوجوان صرف اس لئے آئے تھے کیونکہ وہ جابجا سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں سے تنگ آگئے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سیکیورٹی پوسٹوں پر گزرتے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اس ملک کے باسی نہیں ہیں ۔ کبھی ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں پشتون ہونے کی سزا مل رہی ہے ۔

جلسے میں ہر چہرے کے پیچھے ایک درد بھری کہانی چھپی ہوئی تھی اور مسیحا انہیں منظور پشتین کی شکل میں نظر آرہا تھا۔ جلسے کی کوریج کے لیے سارا میڈیا موجود تھا ۔ لیکن کوریج کسی نے نہیں کی سوائے عالمی میڈیا کے ۔ کوریج نہ دینا بھی جزبات مشتعل کرنے کا سبب ہی بنا ہے ۔ سوشل میڈیا پر اس جلسے کے ہر رخ سے ویڈیو فوٹیج گھوم رہی ہے ۔

فاٹا کو دہشت گردوں سے نجات دلانے کے لیے کئے گئے آپریشن کامیاب رہے ہیں ۔ بحالی کے سست رفتار عمل ، سیکیورٹی انتظامات اور بارودی سرنگوں نے جزبات بھڑکا کر رکھ دئے ہیں ۔ لوگ اپنے ہی علاقوں میں آزادانہ آمدورفت محدود کیے جانے پر ردعمل کا شکار ہو گئے ہیں ۔ نوجوانوں کے انداز میں تبدیلی آئی ہے ۔ وہ اپنے روایتی بزرگوں جیسے نہیں ہیں ۔ زیادتی کے خلاف اٹھ کر کھڑے ہو گئے ہیں ۔ انکے سوچنے کا عمل کا انداز مختلف ہے ۔

وزیرستان سے تعلق رکھنے والے گومل یونیورسٹی کے طالب علم منظور پشتون نے محسود تحفظ موومنٹ کی بنیاد رکھی اور جنگ زدہ قبائل کو اک امید نظر آئی ۔   سوشل میڈیا کی طاقت نے رابطے بنا کر تحریک کو منظم کر دیا ۔  فاٹا سے نکلنے والی یہ تحریک خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے تمام پشتون علاقوں تک پہنچ چکی ہے  ـ

 نقیب اللہ محسود کی راؤ انور کے ہاتھوں شہادت نے اس تحریک کی لو کو پوری طرح بھڑکا دیا ۔ اب پختون بیلٹ میں سیاست کا محور ہی تبدیل ہو رہا ہے ۔ اے این پی اور پی ٹی آئی دونوں جماعتیں اس تحریک کی مخالفت کر رہی ہیں ۔ دونوں ہی غیر متعلق سی ہوتی محسوس ہو رہی ہیں ۔ نقیب اللہ محسود کے ملزم ایس ایس پی راؤ انوار کی گرفتاری کے لئے منظور پشتین کی قیادت میں دھرنا ہوتا ہے ۔

 قبائیلی علاقوں سے بارودی سرنگوں کی صفائی، وطن کارڈ اور چیک پوسٹوں کے خاتمے سمیت لاپتہ افراد کی بازیابی چارٹرڈ اف ڈیمانڈ میں ہوتا ہے ـ وزیر اعظم خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ وطن کارڈ اور لینڈ مائینز کی صفائی کا حکم دیتے ہیں ـ اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جسٹس جاوید اقبال کمیشن کو حکم دیکر تحقیقات شروع کرا دی جاتی ہے .

بیشتر مطالبات منظور ہوتے ہیں ۔ تحریک اب بھی جاری ہے ۔

 منظور پشتون منظور پشتین کے نام سے مقبول ہو چکا ہے  ـ اب نیا مرحلہ ہے منظور پشتین پر الزامات لگ رہے ہیں ۔ اس کو غدار کہا جا رہا ہے ۔ اس کی سرگرمیاں مشکوک بتائی جا رہی ہیں ۔ اس تحریک کی مقبولیت کی واحد وجہ ایک ہی ہے ۔ منظور پشتین نے لوگوں کے مسائل کی بات کی ہے ۔ ان کو زبان دی ہے ۔ ان کے روزمرہ معمولات جن باتوں سے متاثر ہوتے ہیں ان کا ذکر کیا ہے ۔ یہ وجوہات ختم ہونگی تو منظور پشتین کی تحریک بھی مدہم ہو کر شائد ختم ہو جائے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).