بابل کی دعائیں یا گھر سے فرار؟


عرسہ ایک لڑکے شہبازکے عشق میں یوں دیوانی ہوئی کہ خاندانی رسم رواج اور روایات سے بھی باغی ہو گئی۔ وہ بھول بیٹھی کہ بچپن سے ہی اسے اس کی پھپھو کے بیٹے عاقب سے منسوب کر دیا گیا تھا، اور یہ کہ اس کے خاندان میں برادری سے باہر شادی نہ کرنے کی روایت سالوں سے چلی آرہی ہے۔ عاقب نے جیسے تیسے انٹر پاس کیا تھا اس کا پڑھا ئی میں جی نہیں لگتا تھا لیکن پیسے کمانے کا اسے بڑا شوق تھا جس کے لیے وہ الٹے سیدھے پلان بناتا رہتا تھا۔ عرسہ کے باپ کو اس کی یہ بات بڑی پسند تھی، وہ فخر سے کہا کرتا کہ عاقب کو کمانے کی بڑی دھن ہے۔

جب باپ نے اسے غیر خاندان میں رشتہ طے کرنے کی مخا لفت کی اور عاقب کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے، تو اس نے انہیں اپنا فیصلہ سنا دیا کہ وہ خاندانی روایات پر اپنے دل کا خون اور اپنی خوشیوں کو قربان نہیں کر سکتی۔ اس کی ماں بھی اپنے خاوند کی ہم خیال تھی۔ اس کی چھوٹی بہن لائبہ اس وقت سترہ سال کی تھی۔ اس نے بہن کی حمایت میں بولنا چا ہا تو ماں نے اسے جھڑک دیا اور باپ کے رعب و دبدبے کے آگے وہ کچھ نہ بول سکی۔ ایک دن عرسہ شہباز کو کوئی اطلاع دیے بغیر اس کے گھر پہنچ گئی۔ شہبا ز اور اس کے گھر والے اس باغی، نہتی اور مفلوک الحال لڑکی کو دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ اس کے ماں باپ بھی اس امیر زادی کے اس گھر میں بسنے کے خیال سے خوش تھے۔

شہباز اس ہنستی مسکراتی شوخ و شنگ عرسہ کا عاشق تھا، جس کی کلائیاں سونے کے کنگنوں سے جگماتی رہتی تھیں۔ وہ تو کنگن میکے چھوڑ آئی تھی۔ لیکن پولیس اسے کنگن پہنانے کسی بھی وقت آسکتی تھی۔ اس نے عرسہ سے کہا وہ اپنے گھر لوٹ جائے، مگر عرسہ شہباز کی محبت میں دیوانی ہو چکی تھی۔ شہباز کے گھر والے اس صورتِ حال سے پریشان تھے۔ انہوں نے عرسہ کے باپ کو فون کر دیا۔ عر سہ کا باپ اپنے ساتھ قاضی اور چند گواہ لے کر آیا، شہباز اور عرصہ کا نکاح کروایا اور یہ کہہ کر رخصت ہو گیا کہ اس کا اور اس کے خاندان والوں کا اب عرسہ سے کوئی تعلق نہیں۔ عرسہ کے ماں، باپ کے اس اقدام سے برادری میں اس کی روایات سے پاسداری کی ایک مثال قائم ہو گئی لیکن عرسہ بھی محبت کرنے والوں کے لیے عبرت کا نشان یوں بنی کہ سارے گھر کے کاموں کا بوجھ اس پر ڈال دیا گیا۔

پھر اسے اپنے گھر کی مالی تنگی کا رونا رو کر شہباز نے نوکری پر آمادہ کیا۔ ہر آیا گیا اسے گھر سے بھا گنے کا طعنہ دیا کرتا۔ وہ شہباز سے احتجاج کر کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتی تو وہ اسے حقیقت پسند ہو نے کی ہدایت کرتا۔ لائبہ کبھی کبھا ر چوری چھپے بہن کو فون کر لیا کرتی تھی۔ بہن کی باتوں سے اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ محبت کے اس کھیل میں وہ اپنا آپ ہار گئی ہے۔ ایک بار لائبہ نے باتوں باتوں اس سے ماں کی بیماری کا تذکرہ کر دیا۔ ماں کی بیماری کا سن کر عرسہ پریشان رہنے لگی۔ ساس سسر نے بھی کسی امید پر اسے بظاہر ہمدردی جتاتے ہوئے مشورہ دیا کہ شہباز کے ساتھ گھر جائے باپ کے قدموں پر سر رکھ کر معافی مانگے وہ اسے یقیناً معاف کر دیں گے، لیکن اسے یہ کہہ کر دروازے سے ہی لوٹا دیا گیا کہ ہم تمہیں اس شخص کے ساتھ نہیں دیکھ سکتے، آنا چاہتی ہو تو اس سے کہو تمہیں طلاق دے دے۔ اس دوران لائبہ کے رشتے آتے رہے اور غیر خاندان ہو نے کی وجہ سے مسترد ہوتے رہے۔ عاقب کی کہیں اور شادی ہو گئی۔ خاندان کے کچھ لڑکے غیر خاندان سے لڑکیاں بیاہ کر لے آئے۔ اب لائبہ کے لائق خاندان میں کوئی لڑکا نہ تھا۔

شادی کے پانچ سال بعد عرسہ کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ ڈاکٹرز نے شہباز کوبچی کی میڈیکل رپورٹ دی جس میں لکھا تھا کہ بچی کا آدھا جسم بے جان ہے۔ بچی کا مدافعتی نظام بھی کمزور ہے جس کی بنا ء پر اسے مختلف بیماریوں کا سامنا پڑ سکتا ہے۔ رپورٹ کے اختتام پر بچی کی زندگی کا کل عرصہ دس یا گیارہ سال پر محیط بتایا گیا تھا۔ شہباز نے رپورٹ کے ساتھ عرسہ کے ہاتھ پر یہ کہہ کر طلاق نامہ رکھ دیا کہ یہ بچی اس کی نہیں ہوسکتی کیوں کہ ایسی بیماری میں مبتلا کبھی کوئی بچہ ان کے خاندان میں پیدا نہیں ہوا۔

طلاق نامے کے ساتھ عرسہ کے لیے گھر کے دروازے وا کر دیے گئے۔ عرسہ نے اپنی زندگی، خوشیاں اور ساری توانائی اپنی بچی کے لیے وقف کر دی۔ لائبہ نے ایل ایل بی کا امتحان پاس کر کے وکالت شروع کر دی۔ عرسہ کو اکثر اس کے کمرے سے مڑے تڑے کاغذ ملا کرتے جن سے اندازہ ہوا کہ لائبہ شاعری کرنے لگی ہے۔ اس کے اشعار سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ کسی کی محبت میں گرفتار ہے۔ پھر فیس بک پر وہ اپنی غزلیں شئیر کرنے لگی۔ ماں باپ لائبہ کی بڑھتی عمر دیکھ کر پریشان تھے۔ ایک روز ماں نے عرسہ سے کہا کہ لائبہ سے پوچھے کہ اگر اسے کوئی لڑکا پسند ہے تو بتا ئے۔ عرسہ نے ماں کو وحشت ناک آنکھوں سے کچھ اس طرح دیکھا کہ ماں بری طرح ڈر گئی۔

عرسہ نے لائبہ سے بات کی کہ اگر اسے کوئی پسند ہے تو بتا ئے۔ لائبہ نے صاف کہہ دیا کہ اسے کوئی پسند نہیں، عرسہ نے اس کی توجہ ان اشعار کی طرف دلائی جو اس کے جذبات کے آئینہ دار تھے۔ عرسہ نے بتایا کہ وہ اپنے محبوب سے اسی طرح ہم کلام ہو تی ہے اور ساری زندگی ایسے ہی گزار دے گی۔ لیکن محبت کا عتراف کرے گی نہ ہی اس سے شادی کرے گی۔ کیوں کہ محبت کی شادی کا بھیانک انجام اس کے سامنے ہے۔ عرسہ نے اسے بہت سمجھا یا لیکن اس کے لہجے کی استقامت میں کوئی لچک دکھا ئی نہ دی۔

اسی دوران عاقب کی بیوی دوسرے بچے کی زچگی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پھپی جو اب تک بھائی سے رشتہ توڑے بیٹھی تھی، اچانک لائبہ سے عاقب کا رشتہ جوڑنے آپہنچی۔ برادری میں لائبہ کے لائق کوئی رشتہ میسر نا ہونے پر جو لچک عرسہ کے ماں باپ میں دیکھی گئی تھی یکسر غائب ہو گئی۔ رشتہ منظور ہو گیا لیکن عرسہ، باپ کے فیصلے کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہو گئی۔ لائبہ وکیل ہے، حساس شاعرہ ہے، اسے آپ پندرہ سال بڑے اور دوبچوں کے باپ سے اسے کیسے بیاہ سکتے ہیں۔ وہ اپنی شناخت کھو دے گی۔

باپ بولا۔ ہم نے اسے کہا تھا اسے کوئی پسند ہو تا بتا ئے پر اس نے خود موقع کھو دیا۔ اب شکر ہے برا دری میں ہماری عزت رہ گئی۔ اور لڑکی بھی باہر جانے سے بچ گئی۔ لڑکی کی برادری میں بیاہی ہو اور اگرکوئی اونچ نیچ ہو بھی جائے تو سارے برادری والے کھڑے ہو جا تے ہیں، سب سے بڑھ کر ماں باپ لڑکی کا خیال ر کھتے ہیں۔ بابل کی دعاؤں تلے رخصت ہو نے والی لڑکیوں کا وہ انجام نہیں ہوتا جو تمہارا ہوا۔ اگر لڑکی کے ماں باپ اس کے پیچھے کھڑے ہوں تو کو ئی مائی کا لال اس کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔

لائبہ کی شادی عاقب سے ہو چکی ہے۔ وہ کب کی وکالت چھوڑ چکی ہے۔ مگر فیس بک پر اس کی شاعری ایسی کئی لڑکیوں کے دل کی آواز ہے۔ جو انجانے خوف سے اپنی چاہت کا اظہار نہیں کر سکتیں۔ اور عرسہ اپنی بیٹی کے مرنے کے بعد اپنے حواس کھو بیٹھی ہے اب اس کے لبوں پر بس یہ ہی ایک فقرہ ہے کہ اگر لڑکی کے ماں باپ اس کے پیچھے کھڑے ہوں تو کوئی مائی کا لال اس کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).