مجھے میرے نخرے اٹھانے والی ماں واپس چاہیے


ہماری امی بتاتی ہیں کہ بچپن میں ہم نے انہیں بہت ستایا۔ اس قدر گلا پھاڑ کر روتے تھے کہ دور کے نہیں تو کم سے کم قریب کے ہمسائے تو آ ہی جاتے تھے کہ بہن بچی کو ایسا کیا مسئلہ لاحق ہو گیا( اصل مسئلہ ان کی نیند کو لاحق ہوتا تھا ویسے)۔ امی کہتی ہیں کہ جب با آواز بلند چیخنے سے فرصت ملتی تو ہم ہلکی پھلکی ریں ریں میں ہی دل لگا لیتے تھے۔ ننھی سی بچی لیکن ہر وقت مصروف اور چاق و چوبند۔ سونے سے بھی خاص رغبت نہ تھی لہذا یہ شو پرائم ٹائم کے علاوہ بھی آن رہتا۔ نئی شادی، نیا ماحول اور پہلوٹھی کی ایسی جنجال اولاد۔ سب کچھ سونے پہ سہاگہ تھا۔ کوئی کسر یا کمی چھوڑنے کے تو ہم قائل ہی نہ تھے۔

قصہ مختصر یہ کہ واویلا مچانے کی عادت پرانی ہے۔ ماں کو جس قدر ستا سکتے تھے خوب ستایا۔ ہمیشہ ان کی اپر لمٹ کو ہی ٹیسٹ کیا۔ وقت کا دھارا آگے بڑھنے لگا تو امی کو لگا کہ جیسے ان کی زندگی اور ہمارے مزاج میں کوئی بہتری آئے گی۔ لیکن توبہ کیجئے جی۔ پلٹنا تو سیکھا ہی نہیں تھا۔

جیسے جیسے عمر بڑھی واویلے کی نوعیت بدلتی گئی۔ امی بتاتی ہیں کہ نیا نیا بولنا سیکھا تو میز پر دال کو دیکھ کر جھٹ منہ بنا لیتے اور فورا ننھے سے ماتھے پر تیوریاں چڑھا کر کہتے ’اوہ یہ تو دال ہے۔‘ وہ بیچاری انڈہ تلنے کو دوڑتیں کی پرنسس بھوکی نہ سوئے۔ بچپن سے ہی طبیعت اس قدر ڈرامائی تھی کہ خود کو سنڈریلا ہی سمجھا۔ امی کسی بات پر سرزنش کرتیں اور ہم ذہن میں ان کے سوتیلے ہونے کا پلاٹ مرتب کر لیتے۔ حالانکہ شکل ہو بہو امی پر تھی لیکن ہم تو وہی سوچیں گے جو ہمارا سوچنے کا دل کرتا ہے۔ وہی کہانی سوچیں گے جس کی ہیروئن ہمارے سوا کوئی نہ ہو۔

کریلے کھانے پر نخرہ، دوپٹہ اوڑھنے پر نخرہ، گھر آئے مہمانوں پر نخرہ۔
امی کے سادہ کپڑوں پر اعتراض، امی کے کھانا کھانے کے طریقے پر اعتراض، امی کی سہیلیوں اور ملنے والوں پر اعتراض، امی کی کفایت شعاری پر اعتراض۔
بس یوں کہہ لیجیے کہ زندگی کیا تھی۔ نخرے اور اعتراض کی مکس پلیٹ تھی۔ مینو پر اس کو سوا کچھ نہ تھا۔ جس کو کچھ اور کھانا ہوتا وہ باہر کا راستہ ناپتا۔

جیسے جیسے ہم جوان ہوتے گئے امی بوڑھی ہوتی گئیں۔ ٹائیفائڈ بخار نے گھیرا تو یہی ماں صبح شام ہمارے سرھانے لگی رہتی۔ ہماری سہیلیوں نے گھر آنا ہوتا تو گرمی کی دوپہریں آگ برساتے چولہے کے آگے پسینے میں بہا دیتی۔ کہیں آنے جانے میں کنوینس کا مسئلہ ہوتا تو بسوں پر جا کر ہمیں پہنچا کر آتی۔ ابا کے سامنے اجازت کا مسئلہ ہوتا تو خود پر بات لے لیتی۔ بخار میں پھنکتی لیکن روٹی ہمیشہ گھر میں ہی پکاتی۔ سالن کم پڑتا تو جھٹ کہتی کہ مجھے تو بھوک نہیں۔ انسان تھی یا نہیں، ہم بھول چکے تھے۔ وہ خود بھی یہ فراموش کر چکی تھی۔ چکی میں پسے جاتی تھی اور ہم نخرے اور اعتراض کی مکس پلیٹ کھائے جاتے تھے۔

ان باتوں کو بہت عرصہ بیت گیا ہے۔ ہم اس سے دور ہیں۔ اب صرف یاد آتی ہے۔ خود نہیں آ پاتی۔ پاس آنے میں میلوں کا سفر جو ہے۔ ابھی بھی سالن میں نمک تیز ہو جائے تو یاد آتی ہے۔ آنکھیں دھوپ سے جلنے لگیں تو یاد آتی ہے۔ بخار سے جسم ٹوٹنے لگے تو یاد آتی ہے۔ دل میں ہوک اٹھے تو یاد آتی ہے۔ سہیلوں نے گھر آنا ہو تو یاد آتی ہے۔ کہیں آنے جانے میں کنوینس کا مسئلہ ہو تو یاد آتی ہے۔

اب نخرے اور اعتراض کی مکس پلیٹ کے سوا سب کچھ ہے مینو میں۔ بس ماں کی یاد آتی ہے اور بیش بہا آتی ہے۔ نیر بہاتی ہے اور دل سے مینو کی پرانی ڈش کو کھرچ کھرچ کر مٹاتی ہے۔ سب کچھ ہے بس ہمیں دال کی جگہ انڈہ تل کر دینے والی ماں نہیں ہے۔ یہاں تو کریلے بھی نہیں بنتے۔ دوپٹہ بھی نہیں لپیٹنا پڑتا۔ بن مرضی کے مہمان بھی نہیں ہوتے۔ پر کیا کیجئے شروع سے وہی چاہئیے جو نہ ہو۔ ماں چاہیے۔ ابھی اور اسی وقت چاہیے۔
کیا کیجئے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).