میری ماں کا دم توڑتا ہوا عشق


اس وقت ہاتھوں میں اپنی ماں کی وہ ڈائری لیے بیٹھی ہوں، جس کو پڑھنے کی تو کجا ہاتھ لگانے کی بھی اجازت بھی ماں نے کبھی نہیں دی تھی۔ البتہ دنیا چھوڑنے سے پہلے میرے ہاتھ میں خود وہ ڈائری تھما گئیں، جس کی کھوج میں ہمیشہ ہی میں بے تاب رہی۔ اس ڈائری میں ایسا آخر کیا تھا جسے ماں نے ایک راز کی طرح سب سے چھپا کر رکھا؟ کبھی رات کے کسی پہر جو میری آنکھ کھلتی تو ماں کو بستر پر نہ پاتی۔ گردن موڑ کر انہیں کمرے میں تلاش کرتے وقت مجھے یقین ہوتا کہ وہ زیروپاور کے نیلے بلب کی روشنی میں، بہتی آنکھوں کے ساتھ قلم کی سیاہی سے اپنے دل کا غبار دھو رہی ہوں گی، لیکن وہ کون سا غبار تھا، جو دُھل کر بھی نہ دُھل سکا تھا؟ میں اس سے قطعاً ناواقف تھی۔ بس اتنا معلوم تھا کہ میرے باپ کو دیکھ کر ماں کی آنکھوں میں کبھی دیپ نہ جلے۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں آ سکی۔

وہ اکثر گردوپیش سے بے گانہ ہوکر نہ جانے کون سی دنیا میں پہنچ جاتیں کہ سامنے کا ہر منظر، پسِ منظر بن جاتا۔ لوگ کہتے تھے کہ ماں نے محبت کی شادی کی، لیکن میں ان دونوں کو ہی دیکھ کر کبھی اس بات پر یقین نہ کر پائی۔ باپ کے بگڑتے تیور ہمیشہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ انہوں نے ایک زمانے سے ٹکر لے کر ماں کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا تھا۔ ماں باپ کی علیحدگی کے بعد بھی کئی بار میں نے ماں سے دبے لفظوں میں سوالات کرنا چاہے، رازوں سے پردہ اٹھانا چاہا، لیکن سب بے سود رہا۔ ان کی ہر بات کا جواب بس رخسار بھگوتے آنسو تھے جو اس وقت بھی ان کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے جب وہ اسپتال کے بستر پر لیٹی زندگی کی آخری سانسیں گن رہی تھیں۔ انتقال سے ایک دن قبل انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور کتنی دیر میرے چہرے کو تکتی رہیں۔ میں ماں کے سامنے اپنا ضبط کھونا نہیں چاہتی تھی، کیوں کہ میں ان کے بہتے آنسوؤں کی وجہ کبھی نہیں بننا چاہتی تھی۔ خود پر قابو پاتے ہوئے مسکرا کر ان کو زندگی کی امید دلائی لیکن انہوں نے ساری ہمت جمع کرکے سرگوشی میں جب اپنی آخری خواہش کا اظہار کیا تو وقت نے مجھے یہ جتادیا کہ اب زندگی کی کوئی امید نہیں رہی، وقتِ رخصت عین سر پر پہنچ چکا ہے۔

ان کی آخری خواہش وہ تھی جسے سن کر میں کتنی ہی دیر حیرت سے ان کا چہرہ تکتی رہی۔ وہ دنیا سے ”باقاعدہ رخصت ہونے سے پہلے، اپنی ڈائری پر لکھی تحریریں مجھ سے سننا چاہتی تھیں۔ باقاعدہ رخصت میں نے اس لیے کہا کہ وہ اس دنیا کو جیتے جی بہت پہلے چھوڑ چکی تھیں۔ اکثر مجھ سے کہتیں”ہانی! بس تمہارے لیے زندہ ہوں! جلدی سے خود کو سنبھالنے کے قابل ہو بیٹا! پھر مجھے رخصت کرو!‘‘ مجھے اپنی ماں سے کبھی کوئی شکایت رہی ہی نہیں۔ ہاں لیکن ایک شکوہ ہے کہ جانے سے پہلے مجھ سے کیوں نہیں پوچھا کہ ہانی! خود کو سنبھالنے کے قابل ہو بھی گئی ہو یا خدا سے اور مہلت مانگوں؟

ماں کے مرنے سے قبل کی وہ گھڑیاں کبھی نہ بھول پاؤں گی جب لرزتے دل کے ساتھ ان کی آخری خواہش کو پورا کرنے کے لیے میں ڈائری کھول کر ان کے پاس بیڈ پر ہی بیٹھ گئی۔
”اس درد کے نام جو تسکین جاں بنا‘‘ پہلے ہی صفحے پر دمکتے الفاظ پڑھ کر ماں کا چہرہ دیکھا تو ان آنکھوں کے کنارے آنسوؤں کی جھڑی لگ چکی تھی۔ ڈائری کے کچھ صفحے جلدی جلدی پلٹ کر میں نے جائزہ لیا کہ اس میں کون کون سی یادیں ہیں، جنہوں نے ان کو چین سے جینے نہ دیا، مگر اس میں تو سوائے خطوں کے کچھ نہ تھا۔ خط کس کے نام تھے، کب لکھے گئے کچھ بھی واضح نہیں تھا۔ عجیب سی بے چینی میں، میں نے پہلا خط پڑھنا شروع کیا۔

”جان سے زیادہ پیارے ساتھی!
میرے جذبات کی کہانی تمہارے ذکر کے بغیر مکمل کہاں؟ میں نے ایک طویل اور صبر آزما وقت گزارا جس سے میری زندگی اب تک ہراساں ہے، مگر نامعلوم کیوں تمنائے وصل اب بھی سلگتی ہے۔ یہ کیسا تعلق ہے ہمارے درمیان کہ تم میرا بازو اور میں تمہارے بازؤوں کی زینت بننا چاہتی ہوں۔ محبت کے معاملے میں اب تک ناآسودہ ہوں مگر نصیب سے کب تک لڑوں۔ مجھے یہ اطمینان ہی بہت ہے کہ بے تکلفی سے تمہیں اپنا درد لکھ دیتی ہوں! میں تمہاری مجبوریوں سے بھی واقف ہوں۔ اسی لیے بہت استقلال سے تمہارا انتظار کررہی ہوں۔ تم خود کو کبھی میرے لیے ہلکان نہ کرنا۔ تمہارا خیال بھی میری یادوں کو سجانے کے لیے کافی ہے۔

میرے حبیب! مصروفیات کے سہارے وقت گزار ہی دیتی ہوں مگر دل کیسا ضدی اور سرکش ہوگیا ہے، نہیں بہلتا۔ اندر کی خاموشی سے دم گھٹتا ہے، سب کے بیچ زندگی راہبانہ ہے۔ ہر شے پر تمہارا لمس محسوس کرتی ہوں، تمہاری خوش بو کھوجتی ہوں۔ گھر کا ہر کونا تمہاری آمد کا منتظر معلوم ہوتا۔ خود سے بے سبب خفا رہتی ہوں۔ تم سے اس بے نام رشتے میں بندھنا تو صرف میری خواہش ہے، تم پر کوئی الزام کہاں! ایک تم ہی ہو کہ جس کے لیے ہر تلخی مجھے گوارا ہے۔ کیا میں اس کو صرف محبت کا نام دوں؟
بہت سارا پیار
تمہاری فَری‘‘

میں حیران تھی، میری ماں کی زندگی کسی کے عشق میں کٹ گئی۔ یہ کیسا قتل ہوا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ہر صفحے پر میری ماں کا ایک نیا روپ تھا۔ ہر صفحے پر اس کا ایک نیا درد تھا۔ میری ماں نہ کوئی دانشور تھی نہ فلسفی، وہ محبت کے جذبے کی غلام تھی۔ میں نے اگلا صفحہ کھول لیا۔ ماں ساکت لیٹی چھت کو تک رہی تھی۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2