میری ماں کا دم توڑتا ہوا عشق


”میرے ہم دم!
آؤ کہ میں تمہیں بہت سارا پیار کرلوں، جس میں ماں کی شفقت کے سوا کوئی دوسرا جذبہ شامل نہ ہو۔ آج جانے کیوں بہت طویل خط لکھنے کو دل چاہ رہا ہے، مگر ذہن یوں شکستہ ہے گویا قیامت آ گئی ہو۔ کل میرے ہاتھ سے کانچ کا گلاس گر کے ٹوٹ گیا یہ اتنی بڑی بات تو نہ تھی کہ پھوٹ پھوٹ کر رویا جاتا، مگر ظالم دل کانچ سے زیادہ نازک نکلا۔ میری جان! یہ سوچ کے میری طبیعت اُمڈی چلی آتی ہے کہ میں تمہارے دل کی دنیا میں کبھی جگہ نہ پاؤں گی، لیکن تمہارا احساس کتنا دلفریب ہے کہ طویل دوپہریں، خنک شامیں اور سرد راتیں اسی تصور سے آباد اور دل شاد ہیں۔ کبھی دل چاہتا ہے کہ تمہاری صورت دیکھنے سے اس کم بخت دل کو ترسا دوں کہ محبت جیسے خوب صورت احساس کی جس بھونڈے طریقے سے بے قدری کی ہے اس کی سزا بھی میں خود ہی کاٹوں کہ اذیت کی کچھ تو تلافی ہو سکے۔ اور کبھی دل چاہتا ہے کہ تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے برہمی دیکھوں، وہ خطا کروں کہ جو تم درگزر نہ کرسکو، تمہاری تلملاتی آنکھوں پر اپنے ہونٹ رکھوں اور گرم لہجے کو آنسو ؤں سے ٹھنڈا کردوں۔

میری ساتھی! تمہارے فراق کی ہر رات میرے دل پر ایک بوجھ ہے۔ اس تکلیف کو کوئی اور تو کیا جان سکے گا جب تم ہی نہ جان پائے۔ دل کہتا ہے کہ جس نے درد دیا دوا اسی سے لی جائے، مگر یہ کیسی خودداری ہے کہ دوڑ کر تم تک آنے کے بجائے کونے میں تنہا بیٹھ کر آنسو بہانا منظور ہے۔ تم کیوں نہیں جانتے کہ مجھے پناہ کے لیے تمہاری آغوش درکار ہے۔
اب اجازت دو! کل پھر دل کا حال لکھوں گی۔ تم سے دوری میرا درد بڑھانے کا سبب ہے۔ لیکن یہ درد بھرا ساتھ بھی زندگی کو کافی ہے۔
تمہاری فری‘‘

ماں کی سانسیں رکنے لگیں اور آنکھیں چڑھ گئیں۔ میں گھبرا کر اٹھنے لگی کہ ان کی انگلیوں کی گرفت میری کلائی پر مضبوط ہوگئی۔ میں سمجھ گئی۔ وہ چاہتی تھیں کہ میں ان کی زندگی کے درد کو موت کی آخری سانس تک گنگناؤں اور میں نے آنکھوں کے کنارے پونچھتے ہوئے نیا صفحہ کھولا۔ نئے درد کو خود پر آشکار کیا۔

”جانِ فَری!
دل چاہتا ہے کہ تمہارے سینے پر سر رکھ کر سونے کے بجائے ڈھیر سارے آنسو بہاؤں کہ تمہارے دل کی دھڑکن کچھ دیر کو رک جائے۔ تمہارے آگے مصلحتیں ہیں اور میرے آگے دیوانگی، ساری مصلحتوں کو ٹھکرا کر میں تمہیں چاہتی ہوں۔ تم سے الفت کی تمنا میں ہجر کی یہ اونچی اونچی دیواریں حائل ہیں۔ زندگی کا اداسی بھرا سفر تنہا کاٹنے کے لیے مجبور ہوں۔ اتنا ترسنے کے بعد تمہارا ملنا اب میرے لیے فتح نہیں بلکہ شکست ہے۔ لیکن گھبراؤ مت دوست! میری دعا ہے یہ شکست بھی میرے نصیب میں آئے، بار بار آئے۔ میں چاہتی ہوں تم اپنی بھرپور زندگی جیو لیکن کبھی نہ بھولنا کہ ایک نازک دل اور چند بے ترتیب دھڑکنیں تمہیں اپنا پیار، عزت اور غرور سمجھتی ہیں اور ہمیشہ سمجھیں گی۔ تمہاری ہر مشکل کو راحت میں بدلنے اور ہر دشواری کو آسان بنانے کی قسمیں نہیں کھاتی لیکن اتنا یقین دیتی ہوں کہ بس تمہاری ہوں اور یہی یقین تمہاری ذات سے مجھے درکار ہے، تاکہ شکست کا کوئی احساس مجھ میں مرتے دم تک نہ اُبھرے۔ میرے ہم دم! زندگی بہت اہم اور قیمتی ہے اور تمہاری زندگی کی قیمت کوئی مجھ سے پوچھے۔ تمہاری خوشی کے لیے میرا سب کچھ قربان ہے۔ ساتھی! آج دل بہت بے کَل ہے۔ کچھ دن شاید تمہیں خط نہ لکھ سکوں۔ لیکن یہ وعدہ ہے کہ چند دن کی جدائی کے علاوہ کوئی دکھ تمہیں نہ دوں گی اور یہ چند دن بھی اس سبب کہ خود کو یقین دلا سکوں کہ محبت یک طرفہ بھی تو ہوسکتی ہے۔
اجازت دو۔
تمہاری فَری‘‘

ماں کی سانسیں اکھڑ چکی تھیں۔ مرتے دم ان کو یہی کلمہ درکار تھا۔ کلمۂ عشق۔ میں ان کی موت، زندگی کی مانند دشوار نہیں بنانا چاہتی تھی۔ میں نے آنسوؤں کا گلا دبایا اور اگلا خط پڑھنا شروع کر دیا۔

”میری زندگی کے سکون!
تمہارے سہارے یہ زندگی گھسیٹ کر کتنا آگے لے آئی ہوں۔ اسی لیے تم سے محبت سے زیادہ عقیدت ہے۔ تمہارے بازؤوں کے گھیرے میں اطمینان ہے اور باہر بہت پریشانیاں۔ جانِ من! تمہاری محبت میں وہ سرور ہے جس سے میں کبھی واقف ہی نہ تھی۔ تمہاری فَری اپنے دل اور اس کی دیوانگی کے ہاتھوں مجبور ہے اور تم شاعر ہو جس کی محبت ہوا، بادل، خوش بو اور جگنو سب کے لیے ہے۔ تم سب کے ہو کر بھی میرے لیے کامل ہو۔ تمہارے شعروں میں دوستی، نرمی، محبت، رفاقت سب کچھ ہی تو پالیتی ہوں۔ اور یہی میرے دکھوں کا مداوا ہے۔ میں اس دن کے انتظار میں ہوں کہ تمہاری راحت اور سکون کے لیے کچھ کر سکوں تاکہ روزقیامت پشیمانی سے بچ جاؤں۔ میں جانتی ہوں کہ محبت میں اپنے حواس کھوچکی ہوں، لیکن بس یہی میری زندگی کا فخر ہے باقی سب عبث ہے۔
بس تمہاری
فَری‘‘

ماں کی طرف د یکھنے کی مجھ میں تاب نہ تھی۔ زندگی کی ستائی عورت موت کا سفر تنہا ہی کتنی بہادری سے طے کر رہی تھی۔ میں اس کے لیے کچھ بھی نہ کر سکی، بس بلکتے ہوئے میں نے اگلا صفحہ کھول لیا۔

”جانِ من!
میری بے ڈھنگی باتوں اور بے ربط تحریر پر تمہیں ہنسی ضرور آتی ہو گی لیکن جانتی ہوں تم بے چینی سے میرے خط کا انتظار کرتے ہو۔ دیکھو میری جان! تمہارا ساتھ مل گیا تو ایک ایک اذیت کی تلافی کرنا پڑے گی جو تمہارے بغیر میں نے اٹھائی ہے۔ تمہیں چھوڑ دینے کے خیال سے ہی مجھے وحشت ہوتی یے۔ اتنی وحشت کہ دل چاہتا ہے تمہیں اپنے بازؤں میں جکڑ لوں۔ ایک پل کی دوری بھی اب جان لیوا ہے۔ خدا کرے جلد وہ دن آئے کہ تم میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراؤ اور میری دنیا جھلملانے لگے۔ تم میری کل کائنات ہو۔ میری زندگی کے حاصل! آؤ مجھے سینے سے لگا کر میری ساری الجھنیں دور کردو۔
تمہاری فری‘‘

اور ماں کی ساری الجھنیں دور ہوگئیں۔ خوش نصیب تھیں کہ جس عشق کی ساری زندگی مالا جپی، مرتے مرتے بھی وہی کلمہ عشق نصیب ہوا۔ لیکن ان کی بے روح آنکھیں لگاتار رِس رہی تھیں۔ میں نے اپنی کلائی ماں کی انگلیوں کی گرفت سے نکالی اور ان کے ہاتھ چوم لیے۔ یہ وہ ہاتھ تھے جن کے ذریعے زندگی کا سارا درد صفحے پر اترتا رہا اور ماں اتنے سال میرے لیے کم از کم زندہ تو بچ گئیں۔ میں نے ماں کی بند آنکھوں سے آنسو چن کر چوم لیے، یہ دنیا کا وہ پہلا نمک تھا جس نے زخموں پر پھائے رکھے۔

ماں کی موت کو ایک ہفتہ ہو گیا ہے۔ اب بھی ڈائری سینے سے لگائے بیٹھی ہوں۔ لیکن جس صفحے پر ماں کا ساتھ چھوٹا اس سے آگے آج تک نہ پڑھ پائی اور شاید کبھی نہ پڑھ سکوں۔ مجھے پڑھنے کی ضرورت بھی نہیں کیوں کہ جانتی ہوں یہ ایک ان چاہی عورت کا نوحہ ہے۔ میری ماں ساری زندگی محبت کی متلاشی رہی اسی تلاش میں میرے باپ کے در تک آئی اور رسوا ہو کر نکالی گئی۔ اس کو جب کہیں قرار نہ ملا تو خیالوں میں اپنی جنت سجا لی یوں جیتے جی اپنی محبت پالی۔ وہ اسی محبت میں اندھوں کی طرح جیتی رہی اور ہوش مندوں کی طرح مرگئی۔ میری ماں کے دم توڑتے عشق کو میرا سلام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2