کاش سعودی عرب شیعہ اور بشار الاسد سنی ہوتا!


شام میں انسانی حقوق کی پائمالی اور انسانی جانوں کے اتلاف کے خلاف جس وقت امت مسلمہ کے دردمند افراد احتجاج کر رہے تھے، اردو صحافیوں کا قلم شام کے بحران پر خون کے آنسو رو رہا تھا اور ملت کے جیالے شامی صدر بشار الاسد کے مظالم کے خلاف نعرے بازی میں مصروف تھے، اس شور میں ایک آواز دب گئی۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ یمن کی جنگ دنیا کا بدترین انسانی بحران ہے۔ اس بحران سے یمن کے 2 کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہیں جو کہ ملک کی کل آبادی کا تین چوتھائی بیٹھتا ہے۔ کہنے والے کہتے کہتے بے غیرت ہو گئے لیکن مجال ہے جو اردو کے جیالے صحافیوں کی صحافتی غیرت بیدار ہوئی ہو۔ شام کی تباہی پر مسلسل مرثیہ لکھنے والوں کے قلم یمن کے ذکر پر خاموش ہو جاتے ہیں۔ ذرا دیر کو فرض کیجئے کہ یمن پر سعودی عرب کے بجائے ایران بمباری کرتا اور ایسا ہی شدید انسانی بحران پیدا ہو جاتا تب بھی کیا ہماری زبانیں ایسے ہی گنگ رہتیں؟ نیت کا فیصلہ اللہ کرے گا لیکن جو کچھ عمل سے ظاہر ہے اس سے تو میں یہی نتیجہ نکالنے کو مجبور ہوں کہ یمن کی تباہی اور وہاں کے بدترین انسانی بحران پر ہماری سعودی پرستی غالب آ رہی ہے۔

ادھر کچھ دنوں سے شام میں حقوق انسانی کی خلاف ورزی اور ہلاکتوں پر سوشل میڈیا اور ملی حلقوں میں سرگرمیاں اچانک بڑھ گئی ہیں۔ جگہ جگہ شامی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں، ہلاک بچوں اور کٹی پھٹی لاشوں کی تصاویر بینروں پر آویزاں ہیں، ٹویٹر اور فیس بک پر دل ہلا دینے والی ویڈیوز شیئر کرکے ملت کو جھنجوڑا جا رہا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ شام کے حوالے سے وائرل بہت سی تصاویر اور ویڈیوز فرضی پائی گئی ہیں، اس میں شک نہیں کہ شام میں جاری عسکریت سے انسانی جانوں کا نقصان ہو رہا ہے اور لوگوں کو زبردست دشواریوں کا سامنا بھی ہے۔ شام میں جاری بحران پر احتجاج میں کوئی قباحت نہیں لیکن کسی اور ملک میں برپا بدترین انسانی بحران پر بھی زبان کھولنی چاہیے تاکہ واضح ہو سکے کہ شام پر ہمارا ماتم شامی حکومت یا ایران یا روس سے بغض کے سبب نہیں بلکہ انسانوں کو درپیش دشواریوں کے سبب ہے۔

گذشتہ دنوں انٹرنیٹ پر دو توجہ طلب رپورٹیں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یمن میں جاری بحران کو سمجھنے کے لئے ان رپورٹوں کے کچھ حصوں کو پڑھنا چاہیے۔ یوں بھی یمن کے لئے نہ تو ملی غیرت اتنی بیدار ہے کہ وہاں کی تباہی کی تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئرکیے جائیں اور نہ ہی سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس جیسا کوئی ادارہ موجود ہے جو یمن کی تباہی کی خبریں دنیا تک پہنچا سکے۔ چلئے میں تھوڑی دیر کو مان لیتا ہوں کہ برصغیر کے مومن اردو صحافیوں کو یمن کے حالات کا علم نہیں ہے اس لئے وہ اس پر بات نہیں کر رہے ہیں۔ ان بزرگوں کی آسانی کے لئے میں یہاں چند حقائق پیش کرنا چاہتا ہوں۔

یمن پر مارچ 2015 سے سعودی عرب اور اس کی اتحادی افواج مسلسل بمباری کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ان حوثیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جنہوں نے صدر منصور ہادی کی حکومت کو اکھاڑ کر راجدھانی صنعا اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں میں حکومت بنا لی ہے۔ سعودی اتحاد کی تین برس سے جاری اس بمباری میں ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ اب ذرا اسی مرحلہ پر ٹھہر جائیے، اگر بغاوت کچلنے اور سابق صدر منصور ہادی کا اقتدار بحال کرنے کے لئے سعودی عرب کی تین برس سے جاری بمباری اور اس میں حوثیوں کے مقابلے سینکڑوں گنا زیادہ عام شہریوں کی ہلاکت جائز ہے تو پھر شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف برسرپیکار باغیوں پر روس اور شامی فوج کی بمباری بھی تو جائز ہوگی؟ اگر یمن میں سعودی اتحاد اور حوثیوں کی لڑائی میں گیہوں کے ساتھ گھُن کی طرح پس جانے والے ہزاروں بے گناہ شہریوں کی موت کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے تو کیا حلب اور دوما میں باغیوں کے خلاف عسکری کارروائی میں عام شہریوں کی ہلاکت پر ہمارا یہ شور و غوغا کیوں؟ بشار الاسد کی مدد کے لئے آنے والے روسی طیارے اگر بیرونی مداخلت کے زمرے میں آتے ہیں تو منصورہادی کی حمایت میں آئے سعودی بمبار طیارے بھی تو یہی حیثیت رکھتے ہیں، پھر روس کو کوسنا کیسا اور سعودی بمباری پر خاموشی کیوں؟

اگر آپ واقعی یمن کا بحران سمجھنا چاہتے ہیں تو سنیئے، یمن میں ہر چار میں سے تین انسانوں کو امداد کی فوری ضرورت ہے۔ مدد کے طلب گار ان افراد میں اکثریت ان بچوں کی ہے جو بھکمری کے شکار ہیں۔ شام میں باغیوں کے علاقوں حلب اور دوما کے بچوں پر ہوئے ظلم سے اشکبار ہوئی آنکھیں یہ جان کر سوکھی کیسے رہ سکتی ہیں کہ یمن میں ہر دس منٹ میں ایک بچہ سعودی عسکریت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ مارچ 2015 سے شروع ہوئی سعودی بمباری نے یمن کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور مرے پر سو درے کا کام سعودی اور اس کے اتحادیوں کے ذریعہ یمن کی اقتصادی ناکہ بندی نے کیا ہے۔ حوثیوں کے خلاف سعودی اتحاد کی شدید بمباری اور عسکری مہم کے سبب یمن کے 30 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ یمن کا ہر دسواں شہری سعودی اتحاد کی اس مقدس عسکری مہم کے سبب بے گھر ہو چکا ہے۔ بے گھر افراد میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔

سعودی کی حمایت یافتہ منصور ہادی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب کی فوجی مہم میں 10 ہزار سے زیادہ بے گناہ شہری مارے جا چکے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق عسکریت کی بھینٹ چڑھنے والے افراد کی بڑی تعداد سرکاری اعداد و شمار میں شامل بھی نہیں ہے۔ سعودی بمباری کے سبب اسپتال تباہ ہو گئے ہیں، وسائل زندگی برباد ہو چکے ہیں اور بموں سے بچ جانے والے افراد وباؤں کا شکار ہو کر موت کے منہہ میں جا چکے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ یمن میں 10 شہریوں میں سے 6 کو نہیں معلوم کہ ان کو اگلا کھانا مل بھی پائے گا یا نہیں؟ جنگ سے تباہ ملک کے بدقسمت شہریوں کو ہیضے کی مہلک وبا کا سامنا ہے اور طبی مراکز سعودی بمباری کی نذر ہو چکے ہیں۔ بموں کی برسات کے سبب عام شہریوں تک امداد تو دور دو وقت کی غذا پہچنا ہی ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ درجنوں برادر اسلامی ممالک کی جھولی میں یمن کے فاقہ کش بچوں کے لئے کچھ نہیں ہے، البتہ سعودی عرب یمن کے لئے مالی مدد کا اعلان کرتا رہتا ہے۔

سعودی بمباری سے حوثیوں کے زیر قبضہ علاقے تباہ ہوئے ہیں اس لئے امداد کی ضرورت انہیں حصوں میں ہوگی۔ اب یہ یقین کرنا دشوار ہے کہ جن علاقوں میں سعودی اتحاد اوپر سے بموں کی برسات کر رہا ہے وہیں نیچے میڈیکل کیمپ کھولے بیٹھا ہوگا۔ ارے ہاں، یاد آیا۔ برادر اسلامی ملکوں کے پاس شامی باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کے لئے کافی چندہ موجود ہے۔ کیا یہ بات دل پھاڑنے کے لئے کافی نہیں کہ گذشتہ برس اپریل سے دسمبر کے درمیان چھ ماہ میں ہی 2 ہزار دو سو سے زیادہ بچے، بوڑھے اور خواتین ہیضے سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے لیکن سعودی اتحاد کو بمباری ایک دن کے لئے روکنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اس بمباری کے سبب بین الاقوامی امدادی تنظیمیں بھی عسکریت کے سبب بھکمری اور ہیضے کی نذر ہوئے ان افراد کی مدد نہ کر سکیں۔

شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر جتنی شدت سے ممکن ہو اتنی تیز آواز اٹھائی جانی چاہیے۔ شامی فوج کی باغی مخالف مہم میں اگر عام شہری مارے جاتے ہیں تو اس کی سخت مذمت کی جانی چاہیے لیکن یمن میں باغیوں کے خلاف کارروائی کے نام پر تین برس سے خاک و خون کا جو کھیل جاری ہے اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔ شامی عوام کے لئے اردو صحافیوں کے پسیجے ہوئے دل، خون روتے قلم، اشکبار آنکھیں، فلک شگاف نعرے اور اظہار ہمدردی سر آنکھوں پر لیکن یمن میں بھی انسانیت ایڑیاں رگڑ رہی ہے، اس پر بھی تو کچھ بولئے۔
​​

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter