بدھو میاں نے ڈاکٹری کی


پردیسی شتربانوں کی ایک ٹولی آرام کرنے بدھو میاں کے گاؤں کے قریب رکی۔ مسافر کھانا ریندھنا کرنے لگے اور اونٹ ارد گرد چرنے لگے۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک اونٹ چرتا چرتا تربوزوں کے کھِیت کے قریب جا پہنچا اور اس نے ایک سموچا تربوز نگل لیا۔ تربوز اس کے گلے میں پھنس گیا اور اس کا سانس بند ہو گیا۔

وہ زمین پر گرا تو شتربان دوڑے دوڑے اس کے پاس پہنچے۔ قریب پھرتے بدھو میاں بھی ان میں شامل ہو گئے اور یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ اونٹ کی گردن پر گلہڑ نکلا ہوا ہے۔ اتنے میں ایک شتربان نے اونٹ کی گردن پر اپنا کمبل لپیٹا اور پھر اس پر ہتھوڑے سے ایک ضرب لگائی۔ تربوز اندر ہی ٹوٹ گیا۔ اونٹ نے اسے نگلا اور بھلا چنگا ہو کر کھڑا ہو گیا۔

بدھو میاں منٹوں میں گلہڑ ٹھیک کرنے کا یہ طریقہ علاج دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے سوچا کہ اب وہ خود گلہڑ کا علاج کیا کریں گے تاکہ علاقے بھر میں وہ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے خوب عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں۔ انہوں نے ایک کندھے پر ایک کمبل ڈالا اور ہاتھ میں ہتھوڑا تھام کر اپنے گدھے پر بیٹھے اور اگلے گاؤں کی طرف چل پڑے۔

ادھر پہنچے تو گاؤں والوں نے مسافر جان کر ان کی ٹہل سیوا کی اور پھر پوچھا کہ میاں تم کون ہو اور کیا کرتے ہو؟ بدھو میاں نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا کہ ”میاں میں ڈاکٹر ہوں، اور پورے ہندوستان میں مجھ سے بڑھ کر گلہڑ ٹھیک کرنے کا ماہر کوئی دوسرا نہیں ہے۔ بڑے سے بڑا گلہڑ منٹوں میں غائب کر دیتا ہوں۔ “

گاؤں والے یہ سن کر بہت متاثر ہوئے۔ ایک بڑھیا تیزی سے لاٹھی ٹیکتی ہوئی بدھو میاں کے قریب پہنچی۔ اس کی گردن پر ایک بہت بڑا سا گلہڑ نکلا ہوا تھا۔ کہنے لگی کہ ”ڈاکٹر صاحب، اگر آپ میرا گلہڑ ٹھیک کر دیں تو میں آپ کو پانچ سونے کے سکے دوں گی۔ کیا آپ واقعی اسے ٹھیک کر سکتے ہیں؟ “

بدھو میاں نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا ”میرے لئے یہ منٹوں کی بات ہے۔ ادھر سامنے چبوترے پر لیٹ جاؤ اور پھر میرا کمال دیکھو“۔

بڑھیا چبوترے پر لیٹ گئی۔ بدھو میاں نے اس کی گردن پر کمبل لپیٹا، ہتھوڑا لہرایا اور پوری قوت سے اس بڑھیا کی گردن پر دے مارا۔ بڑھیا وہیں مر گئی۔ لوگ چلانے لگے ”قاتل قاتل، اس نے بڑھیا کو مار ڈالا ہے۔ اسے راجہ کے پاس لے کر جاؤ اور پھانسی کی سزا دلواؤ“۔

سب نے بدھو میاں کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور راجہ کے پاس لے جانے کو تیار ہوئے۔ ایک شخص کو رحم آ گیا۔ کہنے لگا ”وہ بڑھیا تو پہلے ہی قبر میں ٹانگیں لٹکائے ہوئے تھی۔ کسی بھی وقت مر جاتی۔ اس جوان کو اس کے بدلے میں مارنا ٹھیک نہیں ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ اس سے بڑھیا کی قبر کھدواتے ہیں۔ اس کے بعد اسے خوب ماریں پیٹیں گے اور اسے گاؤں سے نکال دیں گے“۔ باقی دیہاتیوں نے اس سزا سے اتفاق کیا اور بدھو میاں قبر کھودنے پر لگا دیے گئے۔ بڑھیا کو دفن کرنے کے بعد سب نے مل کر بدھو میاں کو خوب دھویا اور گاؤں سے نکال دیا۔

بدھو میاں ہائے ہائے کرتے اپنے گدھے پر سوار ہوئے اور اگلے گاؤں کی طرف چلے۔ وہاں پہنچے تو اس گاؤں کے باسیوں نے بھی ان کی ٹہل سیوا کی اور پوچھا کہ بھائی تم کون ہو اور کیا کرتے ہو؟

بدھو میاں نے اپنے عظیم طبی ماہر ہونے اور گلہڑ کو منٹوں میں ٹھیک کر دینے کی صلاحیت کے بارے میں گاؤں والوں کو بتایا۔ یہ سن کر ایک بوڑھا سامنے آیا اور اپنا گلہڑ ٹھیک کروانے کا خواہش مند ہوا۔

بدھو میاں نے اس کا تفصیلی معائنہ کیا۔ پھر گاؤں والوں سے مخاطب ہوئے۔ ”دیکھو میری مہارت میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ اس بوڑھے کے گلے سے یہ گلہڑ منٹوں میں غائب ہو جائے۔ لیکن اگر میں بدقسمتی سے اسے مار ڈالوں تو میں اس کی قبر نہیں کھودوں گا اور نہ ہی تم مجھے مارو پیٹو گے“۔

یہ سنتے ہی گاؤں والے ہکا بکا رہ گئے۔ کہنے لگے ”تم کیسے ڈاکٹر ہو، علاج سے پہلے ہی مریض کی قبر کھودنے کا کہہ رہے ہو۔ بھاگ جاؤ یہاں سے“۔ انہوں نے بدھو میاں کو گاؤں سے نکال دیا۔

بدھو میاں سوچنے لگے کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہوئی ہے۔ احمق شتربانوں کو ذرا عقل نہیں ہے کہ گلہڑ کا علاج کیسے کرتے ہیں۔ چل کر ان کی بے عزتی کرنی چاہیے۔ یہ سوچ کر وہ پوری رفتار سے اپنا گدھا بھگاتے ہوئے شتربانوں کی طرف چلے۔

ادھر پہنچ کر وہ کہنے لگے ”تم کتنے بے وقوف ہو۔ میں نے تمہارے طریقے سے ایک بڑھیا کے گلہڑ کا علاج کیا تھا۔ اس کے گلے پر ایک کمبل لپیٹا اور پوری قوت سے ہتھوڑا اس کی گردن پر مارا۔ لیکن وہ ٹھیک ہونے کی بجائے وہیں مر گئی۔ اور علاج کے پیسے ملنے کی بجائے مجھے اس کی قبر کھودنے کی مشقت بھی کرنی پڑی اور خوب مار بھی پڑی۔ تمہاری حماقت کی بھی کوئی حد نہیں ہے“۔

یہ سن کر شتربان کہنے لگے ”احمق ہم نہیں تم ہو۔ یہ اونٹ دیکھو کتنے بڑے اور طاقتور ہیں۔ کیا ایک بڑھیا میں ان جتنی طاقت ہو سکتی ہے؟ “ بدھو میاں کو یقین نہ آیا۔ وہ ان سے جھگڑنے لگے۔

یہ دیکھ کر ایک دانشمند شتربان آگے آیا۔ کہنے لگا کہ بدھو میاں کو میں سمجھاتا ہوں۔ بدھو میاں اس کے قریب ہو گئے۔ اس نے ایک موٹا سا ڈنڈا اٹھایا اور پوری قوت سے قریب چرتے ہوئے ایک اونٹ کی ٹانگ پر دے مارا۔ اونٹ نے بے نیازی سے دم ہلائی اور کچھ دور ہٹ کر چرنے لگا۔

بدھو میاں ابھی اس کی حکمت پر غور ہی کر رہے تھے کہ اس آدمی نے پوری قوت سے وہی ڈنڈا بدھو میاں کی ٹانگ پر دے مارا۔ بدھو میاں درد کی شدت سے بے ہوش ہو کر وہیں گر پڑے۔ کچھ دیر بعد اوسان بحال ہوئے تو اٹھ بیٹھے۔

شتربان نے انہیں کہا ”دیکھو اب تمہیں پتہ چل گیا کہ اونٹ اور آدمی کی طاقت میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ جس ضرب سے اونٹ کو کچھ نہیں ہوا وہ تم برداشت نہیں کر پائے۔ تو پھر بوڑھوں کا اس ضرب سے کیا حال ہو گا؟

بدھو میاں کو بات سمجھ آ گئی۔ کہنے لگے کہ واقعی یہ ڈنڈا بہت زیادہ زور سے لگا تھا۔ آئندہ میں ڈاکٹری نہیں کروں گا۔

تو صاحبو، بات یہ ہے کہ ہماری قوم کے ماہرین کھانسی، کینسر اور سیاست تک کا علاج سنے سنائے نسخے سے کرنے پر اس وقت تک تلے رہتے ہیں جب تک اسے خوب زور سے ایک ڈنڈا نہ پڑ جائے۔ اس کے بعد ہی انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ علاج کرنے کے اہل نہیں ہیں اور جس کا کام ہو، وہی کرے تو معاملہ ٹھیک ہوتا ہے۔
ایک قدیم دیسی حکایت۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar