عدالتیں اور تاریخ کا کٹہرا



بچپن کے دوست جب ”پکپن“ میں اکھٹے ہوں تو گپ الل ٹپ کے دریا کی طغیانی میں مہ و سال بہتے چلے جاتے ہیں، جُبے اتر جاتے ہیں، دستاریں لپیٹ کر رکھ دی جاتی ہیں، سب لڑکے بن جاتے ہیں۔ یعنی ”سال ہا سال اور اک لمحہ، کوئی بھی تو نہ ان میں بل آیا، خود ہی اک در پہ میں نے دستک دی، خود ہی لڑکا سا میں نکل آیا۔ “۔ اس قطعے کی بصری تفسیر پچھلے ہفتے دیکھی جب کئی برس بعد ایک چھت تلے ہم سترہ ” لڑکے“ اکھٹے ہوئے۔ ایک مرتبہ پھر یقین آ گیا کہ ناسٹیلجیا دنیا کی خوبصورت ترین بیماری کا نام ہے۔ بچپن کی شرارتیں، عنفوانِ شباب کی حکایتیں، شام گُھلتی چلی گئی۔ آخر میں ”لڑکوں“ نے شوگر اور بلڈ پریشر کے مجرب نسخوں کا تبادلہ کیا اور امریکی و جرمن Stents کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ بھی لیا۔

اسی دوران محترم زاہد اکرام گینڈا صاحب فرمانے لگے کہ بیماریوں کاتذکرہ چل ہی نکلا ہے تو کچھ بات ملکی سیاست پر بھی ہو جائے۔
باتیں تو بہت سی ہوئیں، لیکن عملی سیاست کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہ تھا جس پر سترہ کے سترہ ”لڑکے“ متفق ہوتے۔ کچھ کا خیال تھا نواز شریف کی نا اہلی اور نیب میں مقدمہ، قانون کی حکمرانی کی طرف پہلا بڑا قدم ہے، کچھ کو یقین تھاکہ میاں صاحب کے ساتھ نہ صرف صریحاً نا انصافی ہو رہی ہے بلکہ نا انصافی ہوتی ہوئی نظر بھی آ رہی ہے، ایک ٹولی نے چیف جسٹس صاحب کی ”صاف پانی مہم“ کی تائید کی، باقیوں کا اصرار تھا کہ انہیں اپنی توجہ التوا کا شکار لگ بھگ تیس لاکھ مقدمات پر مرکوز کرنا چاہیے۔ حتٰی کہ باجوہ ڈاکٹرائن سے روگردانی پر بھی امت کا اجماع نہ ہو سکا۔

مختصراً یہ کہ کوئی ایک سیاسی تصویر بھی ایسی نہ تھی جس پر ہم سترہ کے سترہ ایک متفقہ سرخی جمانے میں کامیاب ہو جاتے۔ تجربہ اور مشاہدہ تصدیق کرتا ہے کہ ہر محفل، ہر مجلس کا یہی معاملہ ہوتا ہے۔ یہی فطرتِ انسانی کا تنوع ہے، اور یہی اختلاف اچھا بھی لگتا ہے۔ بلا شبہ، ” گل ہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن“۔
(یہاں تک کالم لکھا تھا جب خیال آیاکہ ہماری عدالت عظمٰی کے ججز کی تعداد بھی سترہ ہے۔ کیسا عجیب اتفاق ہے)

چلئے، ہم امریکا کی اعلٰی عدالت کا معائنہ کرتے ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد نو ہے۔ چیف جسٹس جان رابرٹس، جسٹس ٹومس، جسٹس الیٹو اور جسٹس نیل گورسچ قدامت پسند سمجھے جاتے ہیں، ان سب کی تقرریاں ریپبلیکن صدور نے کی تھیں۔ جب کہ جسٹس گنز برگ، جسٹس بریئر، جسٹس سوٹو میئر اور جسٹس کیگن کی تقرریاں ڈیموکریٹ دور میں ہوئیں اور یہ لبرل ججز مانے جاتے ہیں۔ جسٹس کینیڈی ”ریلو کٹے“ ہیں، یعنی کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر۔ موجودہ امریکی سپریم کورٹ امریکی عوام کی اجتماعی رضا کی عکاس نظر آتی ہے۔

کبھی کسی چیف جسٹس نے کسی ”مخالف“ جج کو فارغ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ ہر وہ مقدمہ جو امریکی معاشرت اور سیاست کے اہم و متنازعہ معاملات سے متعلق ہو اس کے لئے چیف جسٹس صاحب فل کورٹ بناتے ہیں۔ اپنے معلوم ”مخالفین“ کو بھی فیصلے میں شامل کرتے ہیں کہ مقصد اپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کرنا نہیں، انصاف کرنا ہوتا ہے۔ بلا شبہ، ایک دن عدالتوں کو اپنے فیصلوں کی صلیبیں اٹھا کر تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ بظاہر کتنی سادہ اور سیدھی بات ہے، لیکن ان سیدھی سادھی باتوں پر میرے ہم وطنوں کی آنکھیں حیرت سے اُبلنے لگتی ہیں۔

اور یہ ہے ہندوستان کی سپریم کورٹ، اور اس کے گل ہائے رنگا رنگ، یعنی اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے ججز۔ اس سال کے آغاز میں انڈین سپریم کورٹ کے چار ججز نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں اپنے چیف جسٹس دیپک مشرا پر سنگین الزامات عائد کیے۔ بنیادی الزام یہ تھا کہ چیف جسٹس روسٹر سے متعلق قوانین کو نظر انداز کر تے ہیں اور اہم و متنازعہ قومی مسائل پر اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کے لئے فقط اپنے تابعدار ججز پر مشتمل بنچ بناتے ہیں، جس سے ملکی سیاست میں سپریم کورٹ کو جانبدار بنا یا جا رہا ہے، اور اگر سپریم کورٹ غیر جانبدار نہیں رہے گی تو ملک سے جمہوریت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ناراض سینئر جج جسٹس چیلا میشورم نے یہ بھی کہا کہ ہم چاروں نے یہ پریس کانفرنس اس لئے کی کہ کوئی یہ نہ کہ سکے کہ ہم نے اپنی روح شیطان کو گروی رکھ دی ہے۔ ہم تاریخ کو جواب دہ ہیں، یہ ہمارے ادارے کے تشخص کا سوال ہے۔ (خُدا جانے Deja Vu کا اُردو ترجمہ کیا ہے)

پاکستانی سپریم کورٹ سترہ فاضل ججوں پر مشتمل ہے، اور ان سب نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھا رکھی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ”اے زوق اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے“۔ لیکن ہمارے ججز بہت رکھ رکھاؤ والے ہیں، جب ہی تو نوبت پریس کانفرنسوں تک نہیں پہنچنے دیتے، اپنی Dirty Linen لانڈری میں دھوتے ہیں، سرِ بازار نہیں۔ چیف جسٹس صاحب کا عقیدہ بھی یہی لگتا ہے کہ عیسٰی بدین خود موسٰی بدین خود۔

عیسٰی سے یاد آیا کہ قائد اعظم کے ایک معتمد ساتھی ہوا کرتے تھے، قاضی محمد عیسٰی، بلوچستان مسلم لیگ کے صدر اور تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل۔ ان کے فرزند قاضی فائز عیسٰی بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں اور آج کل سپریم کورٹ کے معزز جج ہیں۔ جسٹس عیسٰی کے خلاف دائر ایک درخواست کو ڈھائی سال بعد سماعت کے لئے منظور کر کے کیا پیغام دینا مقصود تھا؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل میں کیوں طلب کیا گیا ہے؟ سپریم کورٹ کے ایک جج دوست محمد خان ریٹائر ہوئے تو روایت کے برعکس انہیں فل کورٹ ریفرنس کیوں نہیں دیا گیا؟

سوال یہ ہے کہ اس تثلیثِ مطعون میں کیا قدر مشترک ہے؟ ملک بھر کی بار کونسلزکہہ رہی ہیں کہ ان تینوں اصحاب کا مشترکہ وصف یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنی آزاد رائے رکھتے ہیں بلکہ وقت ضرورت اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ لا پتہ افراد کے مسئلے سے لے کر خُفیہ ایجنسی کی امور مملکت میں مداخلت تک، بہت سی مثالیں بھی دی جا رہی ہیں۔

ملکی ادارے توآپس میں الجھے ہی ہوئے ہیں، بلکہ یہ کہنے میں کیا شرمانا کہ آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ اب اگر اداروں کے اندر بھی خدا نخواستہ یہ سر پھٹول شروع ہو گیا تو؟ ڈر لگ رہا ہے۔ پاکستان تو ” ایسی“ کسی ”پریس کانفرنس“ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

خدارا، یہ اعلان نہ کیجئے کہ مہا یدھ پڑا تو ہم سیاہ پوشوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا سفید پوشوں کے۔ یہ یدھ ضروری تو نہیں ہے، اسے ٹال دیجئے۔ اب بھی وقت ہے، مل کر بیٹھیے، آپس میں بات کیجیے، راستہ نکالیے۔ اپنی ناک سے آگے دیکھیے۔ کچھ ناکیں لمبی ہوتی ہیں، ہمیں اس کا ادراک ہے۔ لیکن بہرحال ناک اور دیوارِ چین میں فرق ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).