پاکستانی بھولے کا اسلام۔ حصہ دوم


پیشِ تحریر: ”ہم سب“ والوں کو کہنا یہ ہے کہ جنابانِ من، آپ بڑے بڑے نابغوں کی نابغانہ چوہدراہٹی عقل کے بغیر ہی، اور صرف اپنی محنت و ذہانت کی بنیاد پر ہم سب کو اک مقام پر لے کر آئے تھے۔ اس کی ندرت اور بنیادی خیال کو زندہ رکھیں۔ آپ کی ویب سائٹ پر ٹریفک اور ہِٹس کی بلاشبہ اپنی اہمیت ہے۔ اس پر جو شائع ہوتا ہے، اس کی بھی بہرحال اپنی اہمیت ہے۔ خیال، تخلیق، خواب، تحقیق اور تجربات کے تحفے بانٹیے۔ قصے کہانیوں پر مبنی تجزیات کے لیے ذہین پاکستانی، کارکنان کو تنخواہیں نہ دینے والے سیٹھ میڈیا کے اخبارات بہت شوق سے پڑھ سکتے ہیں۔ شکریہ۔

(آپ کی رائے کا احترام ہے مگر ہمیں کسی تحریر کو محض اس لئے روکنے سے اجتناب کرنا چاہیے کہ وہ ہماری سوچ کے خلاف ہے۔ اختلاف کی بنیاد پر روکنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تو کہاں جا کر رکے گا؟ تحریر قاری کے سامنے رکھ دی جائے، جسے پسند ہے وہ اسے پڑھے گا، جسے ناپسند ہے وہ اسے نظرانداز کر کے بیس تیس دوسرے مضامین کو دیکھ لے گا۔ اگر آپ کا ایک مضمون علمی طور پر مضبوط ہے اور دوسرے کا کمزور، تو یہ دوسرے کے لئے پریشانی کی بات ہونی چاہیے، آپ کو اس پر پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ شائع کی جانے والی بہت سی تحاریر سے ادارتی ٹیم کو اختلاف ہوتا ہے، مگر آزادی اظہار کے حق کی وجہ سے وہ شائع کی جاتی ہیں: مدیر)

تو صاحبو، فروری کے اوائل میں، اپنے یارِ غار، جمشید اقبال کی متعارف کردہ ترکیب، ”پاکستانی بھولے“ کے تخیل کے دو میں سے اک بنیادی جزو، الباکستانی اسلامی تشریحات پر گفتگو شروع کی تھی۔ پاکستانی بھولے کے تخیل کا دوسرا بنیادی جزو، بےسمت حُب الوطنی ہے جو عموما ”دشمن“ کی تباہی کی شدید خواہش رکھتی ہے۔ دشمن کون ہے، یہ حتمیت سے کوئی بھی نہیں جانتا، جانتا بھی ہے تو اسی کے گانوں پر ٹھمکے بھی لگائے جاتے ہیں۔ گانوں پر ٹھمکے لگانا ویسے اک اچھی بات ہے، کیونکہ گانوں پر ٹھمکے لگانے پر آرٹیکل چھ بھی نہیں لگتا۔

پاکستانی بھولا، اپنی حقانیت کی تلاش کی دوڑ میں اپنے مذہب سے نہایت شدت والی عقیدت رکھتا ہے جو پلک جھپکتے میں پرتشدد بھی ہو سکتی ہے، اور اس کی ایک لمبی تاریخ بھی موجود ہے۔ پاکستانی بھولا اپنی عقیدت کی حدت میں یہ فرض سمجھتا ہے کہ دنیا میں موجود دیگر تمام مذاہب کی روایات، ان کی موجودگی اور ان کی رسومات کا ٹھٹھہ اڑائے اور ان جھوٹا اور گھٹیا ثابت کرے۔ اس کے مظاہر بھی دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ دوسرے مذاہب کو تو چھوڑیے، اپنے ہی مذہب میں موجود فرقوں میں موجود پاکستانی بھولے، دوسرے فرقے کی روایات اور رسومات کو اپنے فرقے میں مروج روایات و رسومات سے گھٹیا اور کمتر جانتے ہیں۔ کسی کو کوئی لٹمس ٹیسٹ چاہیے ہو تو شیعہ یاروں سے کُونڈوں کی بابت جان لیں، دیو بندی یاروں سے حیاتی و مماتی کیفیات پر گفتگو فرما لیں، بریلوی یاروں سے مزارات اور اولیاء کے حوالے سے فیض حاصل کر لیں، اہلحدیث صاحبان سے باقی تمام تینوں کے بارے میں جان لیں۔ اور ان چاروں سے جماعت اسلامی کے بارے میں معلوم کر لیں۔ انشاءاللہ افاقہ ہو گا۔

ان پانچوں کو اکٹھا کر لیں اور دنیا کے دیگر مذہبی سلسلوں کے بارے میں معلوم کر لیں تو احباب بھرپور یکجانیت سے دوسروں کے بارے میں وہی فرمائیں گے جو اک دوسرے کے بارے میں فرماتے ہیں۔ اور یہ رنگینیت دنیا کے تمام مذاہب میں موجود ہے۔ مگر مجھے اور آپ کو بحثیت اک پاکستانی، اس بات سے کیا تعلق کہ ایمیزون کے جنگل کے شروع میں بائیں جانب کے اک قبیلے کے پانچویں گھر میں کون سا مذہب ہے اور اس کا فرقہ کیا ہے؟ پاکستان اور پاکستانی معاشرہ ہی میرا اور آپ کا پوائنٹ آف ریفرنس ہونا چاہیے۔

تو پاکستانی بھولا چونکہ اس بات کو اپنے ایمان کا جزو جانتا ہے کہ اسلام کے ظہور سے قبل دنیا کو گھٹا ٹوپ اندھیرے، جہالت اور بے سمتی میں ڈوبتا ہوا دیکھے تو بتاتا چلوں کہ اسلام سے پہلے بھی دنیا کے تمام خطوں میں عظیم تہاذیب موجود تھیں جو اپنے اپنے زمان و مکاں کے حوالوں سے عظیم انسانی اور مذہبی سلسلوں سے وابستہ تھیں۔ ہم بے شک انہیں اندھیرے، جہالت اور بے سمتی میں سمجھتے رہیں، مگر ان کی موجودگی اک سچائی تھی اور ان کی اپنے زمان و مکاں کے حوالے سے تہذیبی ترقی بھی اک سچائی ہی تھی۔

مثلا، تقریبا نو ہزار سال قبل، زراعت کو جنوبی میکسیکو میں موجود قبائل نے ریگولرائز کیا اور اسے اپنی بقا کے ساتھ متصل کر لیا۔ انہی قبائل نے مکئی کو ڈسکور کیا اور اس کا غذائی استعمال جانا۔

قدیم مصر میں ساڑے پانچ ہزار سال قبل بھی چونکہ زرعی خوشحالی تھی، تو وہاں ریاضی، طِب اور ستاروں کے علوم پر اپنے وقت کے لحاظ سے بہت ترقی ہو چکی تھی۔ اہرام مصر کو ہم سب جانتے ہیں۔ یہ مصریوں کے اسلام قبول کرنے کے بعد کی تعمیر نہیں۔

جس خطے میں پاکستان واقع ہے، اس کی منظم انسانی تاریخ پر ساڑھے سات ہزار سال قبل تک تحقیق کر لی گئی ہے۔ یہ خطہ محمد بن قاسم کے سندھ پر تیسرے حجاجی حملے کے وقت وجود میں نہیں آیا تھا۔ مہرگڑھ، جو سبی (بلوچستان) کے قریب کی اک جگہ ہے، وہاں قدیم ترین انسانی شہر بسایا گیا تھا۔ موئنجودڑو اور ہڑپہ کی انسانی تہاذیب بھی بتدریج ساڑھے چار ہزار اور ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی ہیں۔ موئنجو دڑو کے آثار کی اگر مزید کھدائی کی جائے تو یہ سات ہزار سال سے بھی پہلے تک جا نکلیں گے۔ کھدائی نہیں کی جاتی کہ اس سے موجود آثار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یہ بھی لکھتا چلوں کہ وادیءسون سکیسر میں انسان افریقہ سے بھٹکتا ہوا تقریبا پچاس ہزار، جی پچاس ہزار سال پہلے آن نکلا تھا۔

دریائے سندھ، گنگا اور جمنا کی تہاذیب کے ارتقاء کا سلسلہ کوئی دس ہزار سال کی تاریخ تک جا پہنچتا ہے۔ جدید ہندوستان کی تاریخ، جس میں پاکستانی خطہ بھی شامل ہے، بھی کم و بیش ساڑھے چار ہزار سال پرانی ہے جب ادویات، طب، ریاضی، ستارہ شناسی، زراعت، آب پاشی، نکاسی، حکومت و شہریوں کا تعلق، قبائل اور علاقوں کے باہمی تعلقات وغیرہ پر علوم، کتابی شکل میں موجود تھے اور پڑھائے جاتے تھے۔ تاریخ کے اسی وقت کے آس پاس ہی ہندوستانیوں نے اینٹیں ڈھالنے اور دھاتوں کو شہری استعمال میں لانے پر دسترس حاصل کر لی تھی۔

یونانی تہذیب کے ارتقاء کا سفر ساڑھے چار سے پانچ ہزار سال قبل شروع ہوا، اور جمہوریت کا تحفہ بھی انہی کی دین ہے۔ رومی تہذیب، مسیحیت کو گلے سے لگانے سے قبل بھی اپنے عروج کی جانب گامزن تھی۔ اور اس کا تاریخی حوالہ بھی کوئی چار ہزار سال قبل کا ہے۔ اسی طرح نارڈِک تہذیب اپنے دور کی اک طاقتور تہذیب تھی جو یورپ کے دوسرے علاقوں کی فتوحات سے اپنے لیے ذرائع اکٹھی کیا کرتی تھی۔ یہ نو ہزار سال پرانی تہذیب ہے۔ کہتے ہیں کہ جنگوں کے لیے پتھر سے ہتھیار بنانے کا سلسلہ انہی کی دین ہے۔

مزید بھی لِکھا جا سکتا ہے، مگر بنیادی خیال شاید بیان کر چکا ہوں۔

آخر میں کہنا یہی ہے کہ یہ دنیا ہر قسم کے رنگوں کی اک دھنک ہے۔ اس میں ہر رنگ اپنی موجودگی کا احساس اگر دلاتا رہے تو خوبصورتی کا احساس بھی قائم رہتا ہے۔ یہی حال انسانی سوچ کا بھی ہے۔ اس میں اگر انواع و اقسام کے رنگ اور اثرات ہوں تو سوچ کی ندرت اور خوبصورتی قائم رہتی اور بڑھتی ہے۔ جس طرح میرے رنگ کی اک سچائی ہے، ویسے ہی آپ کے رنگ کی بھی اک سچائی ہے۔ میں اپنے رنگ کو آپ کے رنگ سے بہتر نہیں جانتا اور اس کا احترام کرتا ہوں۔ آپ، میں اور ہم دنیا کے باقی رنگوں کا احترام کیوں نہیں کر سکتے؟ ہمیں ”ساری دنیا کی اصلاح“ اور ”عَلم اٹھا کر دنیا پر چھانے“ کا وہم کیوں ہے؟ اس وہم نے ہمیں، بطور پاکستانی، آج تک کیا دیا ہے؟ کچھ دے بھی سکتا ہے؟

ہم بطور اک معاشرہ، نفرت اور ردعمل کی اک مسلسل کیفیت میں کیوں ہیں؟ کیا یہ اک صحتمندانہ عمل ہے؟ ہم اگر اپنی سوچ کے دائرے میں اپنی حقیقت کو ہی حق اور سچ مانتے ہیں، تو کیا یہی حق دوسروں کو اپنی سوچ کے دائروں میں رہتے ہوئے حاصل نہیں ہے؟

کہے سنے کی معذرت، مگر بات گاندھی جی کے اک قول پر ختم کروں گا کہ: دل میں نفرت رکھنا ایسے ہے جیسے اک برتن میں تیزاب پڑا ہوا ہو، اور ایسے میں تیزاب کا سب سے زیادہ نقصان اسی برتن کو ہی ہو رہا ہوتا ہے۔

پاکستانی بھولے کا اسلام۔ حصہءاول


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).