سرائیکی صوبہ بن سکتا ہے یا نہیں؟


وسطی اور شمالی پنجاب کے لوگوں کو نیا سرائیکی صوبہ بننے سے کوئی خاص فائدہ یا نقصان نہیں ہو گا۔ سوائے اس کے کہ وسطی پنجاب کے سیاست دان جنوبی پنجاب پر حکومت نہیں کر پائیں گے۔ لیکن ایک عام آدمی کو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ میں کراچی جا کر کام کرتا ہو یا اسلام آباد، تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے کہ دونوں پنجاب میں نہیں ہیں؟ دونوں جگہ میرا قومی شناختی کارڈ اور نیشنل ٹیکس نمبر چلتا ہے۔ سرائیکی صوبے میں بھی چلتا رہے گا۔

باقی تھوڑے بہت تعصبات تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ وسطی پنجاب میں یہ تعصبات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ادھر کے لوگ رنگ، نسل، قومیت اور ذات وغیرہ کو نظرانداز کرتے ہیں۔ بلکہ وہ ان چیزوں کو اس لئے اہمیت دیتے ہیں کہ ان کی بنیاد پر مناسب جگتیں اور لطیفے بنائے جائیں۔ اس کے علاوہ وسطی پنجاب کے لوگوں کو ان تعصبات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی بنیاد پر وہ کاروبار، ملازمت یا معیشت کے فیصلے نہیں کرتے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پنجاب کی اسمبلی نے اب دوبارہ نیا سرائیکی صوبہ بنانے کی قرار داد پاس کر دی اور قومی اسمبلی میں اسے پہنچا دیا گیا، اور وہاں بھی پنجابی ممبران نے اس کے حق میں ووٹ دے دیا تو کیا سرائیکی صوبہ بن سکے گا؟ میری رائے میں یہ مشکل ہے۔ اسے پنجاب نہیں روکے گا بلکہ باقی دو سے تین صوبے روکیں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس اندازے کی وجہ کیا ہے۔

سنہ 1973 کے دستور میں سینیٹ کو ایک خاص مقصد کے تحت تشکیل دیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی کے ممبران تو آبادی کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں اور اس وجہ سے قومی اسمبلی میں پنجاب کے ممبران کی اکثریت ہے۔ لیکن سینیٹ میں ہر صوبے کے ممبران کی تعداد برابر ہے۔ سوا کروڑ آبادی والے بلوچستان کے بھی اتنے ہی ممبران سینیٹ ہیں جتنے گیارہ کروڑ آبادی والے پنجاب کے ہیں۔ سینیٹ میں ممبران کی اس برابری کا مقصد یہ ہے کہ کوئی صوبہ اپنی زیادہ آبادی کے بل پر زبردستی ایسا قانون منظور نہ کروا لے جو چھوٹے صوبوں کے مفادات کے خلاف ہو۔

اب معاملہ یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے لوگ خود کو لاکھ سرائیکی کہیں مگر باقی تین صوبے ان کو پنجابی ہی مانتے ہیں۔ آپ کسی پشتون، بلوچ یا سندھی اسے پوچھ کر اس کی رائے جان لیں کہ ملتان میں پنجابی رہتے ہیں یا ان سے الگ کوئی قوم۔ تو یہ صوبے کیسے برداشت کریں گے کہ سینیٹ کا بیلنس خراب ہو جائے اور ”پنجاب“ کے ممبر باقی صوبوں کے ممبران سے دگنے ہو جائیں؟

اس کا حل کیا ہو سکتا ہے کہ سینیٹ کا بیلنس خراب نہ ہونے دیا جائے؟ یا تو باقی تینوں صوبے کے بھی دو دو ٹکڑے کر دیے جائیں۔ اپنے صوبے کی تقسیم پر کے پی والے تو شاید مان جائیں گے۔ بلوچستان میں پشتون بلوچ مسئلہ کھڑا ہو جائے گا اور سندھ میں مہاجر سندھی کا۔ خاص طور پر سندھی اپنے صوبے کی تقسیم کو نہیں مانتے۔ فاٹا کا الگ صوبہ بننے میں بھی شاید یہی رکاوٹ ہے۔ سینیٹ میں پشتونوں کے دگنے ووٹ باقی صوبوں کو ہضم نہیں ہوں گے۔ جب تک یہ باقی تینوں صوبے نہیں مانتے، اس وقت تک پنجاب میں نیا سرائیکی صوبہ بننا بھی بظاہر ناممکن ہے۔

بہرحال آپ سب لوگ مل بیٹھ کر طے کر لیں۔ نیا صوبہ بنا لیا تو مبارک ہو۔ نہ بنایا تو پھر بھِی مبارک ہو۔ مجھے ذاتی طور پر دونوں صورتوں میں اعتراض نہیں ہے۔ بلکہ میں تو ملک میں ہر ایک یا دو ڈویژن کا صوبہ بنانے کا حامی ہوں۔ ہمارے لئے کتنے شرم کی بات ہے کہ محض ساڑھے تین کروڑ آبادی والے افغانستان کے 34 صوبے ہیں اور ہم سے محض چند کروڑ زیادہ آبادی والے امریکہ کے 50۔ جبکہ دکھائی دے رہا ہے کہ اگلی مردم شماری تک ہم اتنی آبادی بڑھانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ امریکہ سے بڑا ملک بن جائیں۔ ہمیں کم از کم 50 صوبے تو بنانے چاہئیں تاکہ ہم افغانستان سے جیت سکیں اور امریکہ سے برابری کی بنیاد پر بات کر سکیں۔

میری ناقص رائے میں مسئلہ صوبے کا نہیں ہے۔ مسئلہ غربت، پسماندگی اور مقامی لوگوں کی حکومت میں شمولیت کا ہے۔ اگر آپ مقامی لوگوں کو با اختیار ضلعی اور شہری حکومتیں بنانے دیں گے تو وہ اپنے لئے ترقی کے زیادہ سامان کر سکیں گے۔ ان کے پاس بجٹ بھی ہو گا اور وہ اس بجٹ کو اپنے مسائل کے حل کے لئے استعمال بھی کر سکیں گے۔ نئے صوبے بنانا تو شاید ہمارے لئے مشکل ہے، بہتر ہے کہ اس الیکشن میں سیاسی جماعتوں سے خودمختار ضلعی حکومتوں کا مطالبہ کیا جائے۔ فی الحال تو ہماری جماعتیں بلدیاتی اداروں کی بیخ کنی پر تلی ہوئی ہیں اور ان کو لاچار اور معذور رکھنا چاہتی ہیں۔ ان پر عوامی دباؤ آئے گا تو پھر ہی صوبائی حکومتیں اپنے اختیارات مقامی لوگوں کو منتقل کریں گی۔

آپ کو نیا صوبہ بنانے میں مشکلات کے بارے میں یہ تجزیہ غیر حقیقت پسندانہ لگ رہا ہے تو خود ہی اس سوال کا جواب سوچ لیں کہ ہمیشہ الیکشن سے دو ماہ پہلے ہی کیوں سرائیکی صوبے کا نعرہ زور و شور سے بلند ہوتا ہے، لیکن الیکشن ہونے کے دو گھنٹے بعد وہ اگلے الیکشن تک کے لئے دفن کر دیا جاتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar