جنگ کا خاتمہ اور انسانی تہذیب


\"mujahidحیاتیاتی ارتقا نے ایک سادہ خلیے کی صورت اپنے طویل سفر کا آغاز کیا اور کروڑوں مخلوقات کی قربانی دیتے ہوئے چار ارب سال بعد انسان کی شکل میں ایک شاہکار تخلیق کر دیا۔ قدرت کی اس بے مثل صناعی کا مظہر آج اپنے علم کی بدولت اس قابل بن چکا ہے کہ ارتقائی عمل کو بے رحم حیاتیاتی قوتوں کے ہاتھ سے چھین کر اپنی دسترس میں کر لے۔ آج انسان کرہ ارض کے ہر کونے میں ہونے والے واقعہ کو دیکھنے اور سننے کی اہلیت حاصل کر چکا ہے۔ وہ ہوا میں اڑ کر چند گھنٹوں میں ہزاروں میل کا سفر طے کر سکتا ہے اور خوردبین کے ذریعے کئی لاکھ گنا چھوٹی اشیا کا نظارہ کر سکتاہے۔ ہم اپنی محدود صلاحیتوں کو علم کی بدولت لامحدود کرتے جا رہے ہیں۔ اگر قدرت حیاتیاتی ارتقا کے ذریعے اس قسم کی صلاحیتیں انسان کو ودیعت کرنے کا فیصلہ کرتی تو کروڑوں سال لگ جاتے اور نہ جانے کتنی بڑی تعداد میں مخلوقات کو اس ایندھن بننا پڑتا۔ انسان نے مگر یہ تمام مراحل چند لاکھ سال میں ہی طے کر لئے ہیں۔ اگرچہ فی الحال یہ غیر معمولی صلاحیتیں ہمارے وجود سے باہر رو بہ عمل ہیں تاہم جس رفتار سے سائنسی علم آگے بڑھ رہا ہے ہم امید کر سکتے ہیں کہ جلد ہی یہ حیرت انگیز صلاحیتیں ہمارے حیاتیاتی وجود کا حصہ بن چکی ہوں گی۔ مصنوعی ذہانت، جنیٹک انجینرنگ اور دماغ کے اسرا و رموز تک رسائی کی بدولت انسان اگلی صدی تک ایک فوق البشر قسم کی مخلوق بن چکا ہو گا۔

حیاتیاتی ارتقا کا باب اختتام پذیر ہوا تو قدرت نے تہذیبی ارتقا کے عنوان سے ایک دوسرا باب تحریر کرنا شروع کر دیا۔ حیاتیاتی ارتقا خالصتاً فطرت کے قوانین کے تحت کام کرتا رہا جس میں تمام مخلوقات مجبور محض کی حیثیت سے شامل رہیں۔ اس کے برعکس تہذیب و تمدن کے ارتقا کی داستان تحریر کرنے میں فطرت کے ساتھ ساتھ انسان بھی ایک مصنف کی حیثیت سے شامل رہا۔ یہ تہذیبی سفر درحقیقت ایک علمی سفر ہے۔ جس قدر انسان کے علم میں اضافہ ہوتا گیا اسی قدر فطرت کی قوتوں کے مقابلے میں اس کا اختیار بڑھتا گیا۔

کافی عرصہ پہلے کسی جگہ پڑھا تھا کہ اگر شارک مچھلیاں اور بھینسیں اپنا علم ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کر سکتیں تو آج وہ بھی سائنسی ترقی کی معراج پر ہوتیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ علمی اور تہذیبی ترقی اسی وقت ہی ممکن ہو پاتی ہے جب افراد ، اقوام اور تہذیبیں ایک دوسرے سے علم کا تبادلہ کریں۔ جدید سائنسی ترقی کا آغاز بھی چھاپہ خانے کی ایجاد کے بعد ہوا کیونکہ اس کی بدولت لاکھوں افراد اپنا علم ایک دوسرے سے شئیر کرنے کے قابل ہو سکے۔ علم کے اسی تبادلے کی بدولت معاشرے میں تخلیقی روح بیدار ہوتی ہے۔ جو اقوام ایک جزیرے کی طرح باقی دنیا سے الگ رہتی ہیں ان کا وجود ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے۔ جنوبی امریکہ کی انکا تہذیب ہو یا آسٹریلیا کے قدیم باشندے ان کی المناک تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔

 تاہم نظریات او رافکار کے تبادلے کی راہ میں دو رکاوٹیں ہمیشہ سے حائل رہی ہیں۔ پہلی رکاوٹ عصبیت کی شکل میں درپیش رہی ہے۔ جب عقائد ، اداروں یا اقدار کو تقدیس کے لبادے میں لپیٹ دیا جاتا ہے تو معاشرہ ایک سطح پر ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے۔ معاشرے کے طاقتور طبقوں کا مفاد ان اداروں اور عقائد سے وابستہ ہو جاتا ہے جو تبدیلی کی ہر کوشش کو رد کر دیتے ہیں۔ دوسری بڑی رکاوٹ کی نوعیت جغرافیائی تھی۔ مختلف تہذیبیں اس کرہ ارض پر بکھری پڑی تھیں اور ان کے درمیان طویل فاصلے باہمی روابط کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ان دونو ں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے قدرت نے مختلف مواقع پر دو مختلف راستے اختیار کئے۔

پہلا راستہ جنگ و جدل کا تھا جس کی بدولت مختلف معاشرے اور تہذیبیں نہ چا ہتے ہوئے بھی آپس میں تعامل کرتے رہے۔ انسانی تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے اور ہر جنگ کے نتیجے میں کسی نہ کسی سطح پر تخلیقی عمل ضرور سامنے آ یا ہے کیونکہ اس کےذریعے مختلف قوموں کے درمیان علم کا تبادلہ ممکن ہوتا رہا۔ اسی طرح جنگ اشرافیہ کے اس طبقے کو بھی ملیا میٹ کر دیتی ہے جو اپنے مفادات کی وجہ سے ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا رہتا ہے۔ چنگیز خان، اٹیلا، سکندر اعظم جیسے لوگ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب معاشرے آگے بڑھنے سے انکار کر دیں۔ ان شخصیات کی ہلاکت آفرینی کی غیر معمولی قوت گلے سڑے سماج کو جڑ سے اکھیڑ پھینکتی ہے اورنئی تہذیبی اکائیوں کے جنم کا باعث بنتی ہے۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں صلیبی جنگوں کی کلیدی اہمیت ہے جن کی بدولت دو بڑی تہذیبوں کا آپس میں رابطہ ہوا اور یورپ کے منجمد دماغوں میں جدید افکار نے ہلچل پیدا کر دی۔ آج بھی جن ممالک نے دور جدید کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ نہیں کیا وہاں جنگ و جدل کی آگ سلگ رہی ہے۔ افغانستان، فاٹا کے علاقے، مشرق وسطی کے ممالک، افریقہ کے کئی پسماندہ معاشرے سب اسی ہٹ دھرمی کی قیمت جنگ کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔

قدرت کا دوسرا ہتھیار آفات اور وبائی امراض ہیں۔ جب معاشرے میں حکمران طبقے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہر تخلیقی راستہ مسدود کر دیں اور جنگیں بھی اس اجارہ داری کو ختم نہ کر سکیں تو وبائی امراض کے ذریعے اس جمود کو توڑا جاتا رہا ہے۔ رومی سلطنت کے خاتمے کے بعد اگلی کئی صدیوں تک یورپ جہالت کی اندھیری نگری میں مقید ہو کر رہ گیا یہاں تک کہ مسلمانوں کی یلغار بھی جمود کی اس آہنی چادر کو مکمل طور پر پگھلا نہ سکی۔ آخر کار چودھویں صدی میں طاعون کی وبا نے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس خوفناک بلا نے اس بر اعظم کی بہت بڑی آبادی کا خاتمہ کر دیا۔ اس وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہی کے نتیجے میں یہاں کلیسا کی عملداری کمزور پڑی اور جاگیرداری کے فرسودہ ادارے کا آہنی شکنجہ ٹوٹنے لگا۔ یہیں سے یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے لئے راستے ہموار ہوئے۔

انسانی ارتقا کی یہ داستان فطری طو ر پر ذہنوں میں یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ اب جبکہ جدید سائنسی ترقی نے مختلف تہذیبوں کو آپس میں ملا دیا ہے تو کیا اب بھی جنگ اور وبا کی ضرورت باقی ہے؟ اس سوال کا جواب کچھ تفصیل کا متقاضی ہے۔

اگر انسان کے ارتقا کی داستان پر اجمالی نگاہ ڈالی جائے تو یوں لگتا ہے جیسے حیاتیاتی ارتقا کے بعد اب تہذیبی ارتقا بھی اپنے آخری مراحل میں ہے۔ شائد اسی صدی میں یا زیادہ سے زیادہ اگلی صدی تک اس کہانی کا دوسرا باب بھی پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ اس کی سب سے بڑی علامت یہی ہو گی کہ جنگ اور وبا ئی امراض کا خاتمہ ہو جائے گا اور زندگی اس قدر طویل ہو جائے گی کہ موت ایک بے معنی مظہر بن کر رہ جائے گی۔ جس دن انسانیت نے یہ مقام حاصل کر لیا اسی دن سے تیسرے باب کا آغاز ہو جائے گا اور انسان کرہ ارض کی تنگ حدود سے باہر نکل کر اس وسیع کائنات کو مسخر کرنے کے لئے نکل پڑے گا۔ تاہم اس نئے سفرکا آغاز اس وقت تک ممکن نہیں جب تک نسل انسانی اپنی تمام ترتوانائیاں اور وسائل جنگی ہتھیاروں کی بجائے علم اورتحقیق پر صرف نہ کردے۔ اگرچہ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان بہت ہٹ دھرم ثابت ہوا ہے اور جب تک جنگوں یا وباؤں کے ذریعے اسے آگے کی طرف نہ دھکیلا جائے، وہ اپنی جگہ پر ہی ٹھہرا رہتا ہے۔ تاہم ہر رجائیت پسند انسان یہ امید رکھے گا کہ اس دفعہ نسل انسانی دانشمندی کا مظاہرہ کرے گی۔ جس قسم کے ایٹمی ہتھیار جمع ہو چکے ہیں اور جس طرح کے نت نئے وائرس سامنے آ رہے ہیں انہیں قدرت کی طرف سے ایک تنبیہ کی صورت میں لینا چاہئے۔ یہ بیحد ضروری ہے کہ پوری نسل انسانی اجتماعی طور پر اپنے تمام وسائل جہالت کے خاتمے پر صرف کر دے تاکہ ارتقائی سفر کی دوسری منزل کا خاتمہ پرامن انداز سے ہو سکے۔

جنگ و جدل کی جبلت انسان میں ہزارہا برس سے موجود ہے جس کا خاتمہ بظاہر نا ممکن لگتا ہے لیکن ایسی نشانیاں نظر آ رہی ہیں کہ قدرت نے غلامی کی طرح جنگ کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ امکان یہی ہے کہ اسی صدی کے اختتام تک اقوام متحدہ بہت طاقتور ادارہ بن جائے گا جس پر ان ممالک کا غلبہ ہو گا جو دیگر اقوام پر علمی برتری کے حامل ہوں گے۔ مختلف ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات اسی ادارے کے تحت حل ہوں گے اور اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لئے اس کے پاس ایک بین الاقوامی فوج موجود ہو گی۔ تمام ممالک صرف اپنے اندرونی استحکام کے ذمہ دار ہوں گے جس کے لئے وہ پولیس کا ادارہ رکھ سکیں گے۔ فوج رکھنے کی انہیں اجازت نہیں ہو گی۔ جس دن اقوام عالم اس انتظام پر متفق ہو گئے اسی دن سے انسان اپنے تمام تر وسائل کا رخ علم کی ترویج اور جہالت کے خاتمے کی طرف موڑدے گا۔

جو گروہ اور ریاستیں آج کے دور میں جنگ و جدل کے ذریعے دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہی ہیں وہ وقت کے اس تیز رفتار گرداب کی زد میں آ کر کی گرد راہ بن کر رہ جائیں گی۔ اگر مسلمان ممالک عالمی سطح پر کوئی مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر اپنی توجہ حصول علم کی جانب موڑ دیں کیونکہ ان کے پاس پانچ ، سات دہائیوں سے زیادہ کا وقت باقی نہیں رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments