منظور پشتین اور پختونوں کا مقدمہ


”پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ کی پشتون نوجوانوں میں روز افزوں مقبولیت کے ساتھ اس پر کئی حلقوں کی طرف سے تنقیدی سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ کوئی اسے غیرملکی ایجنڈے کا حصہ قرار دے رہا ہے اور کوئی اسے ریاست سے بغاوت کی تحریک سمجھ رہا ہے۔ لیکن اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اس تحریک نے ریاستی ظلم اور مسلسل جبر کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔

سب سے پہلا سوال ذہن میں یہ ابھرتا ہے کہ طالبان کا ظہور کیسے ہوا اور اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح کہاں سے آئی؟ نائن الیون سے پہلے اور پھر بعد میں افغانستان میں برسر پیکار غیر ملکی جنگ جوؤں کو بعض قبائلی علاقوں میں رہائش کی اجازت کس نے دی تھی؟ اپنے مقاصد کے لئے جہادی گروہوں کی پرورش اور پشت پناہی کرتے ہوئے اس اَمر کو کیوں نظر انداز کردیا گیا تھا کہ جب ان لوگوں کے خلاف یو ٹرن لیا جائے گا اور ان کے خلاف فوجی آپریشن اور ڈرون حملے ہوں گے تو ان کا ردِ عمل کیا ہوگا؟

اس بات کو بھی پیش نظر نہیں رکھا گیا تھا کہ فوجی آپریشنوں اور ڈرون حملوں میں جب بے گناہ لوگ مریں گے، ان کے گھر تباہ ہوں گے اور ان کے کاروباری مراکز منہدم کیے جائیں گے تو عوام کا ردِ عمل کیا ہوگا؟ اور اس پر مستزاد لاکھوں لوگوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور جب ”قیام امن‘‘ کے بعد وہ اپنے تباہ حال گھروں کو واپس لوٹے تو انھیں چیک پوسٹوں پر ذلیل اور رسوا کیا جانے لگا۔ سیکڑوں لوگوں کو محض شک کی بناء پر غائب کیا گیا۔ روز علانیہ اور غیر علانیہ کرفیو کے ذریعے معمولاتِ زندگی کو درہم برہم کیا جانے لگا تو کیا مصیبت کے مارے ان لوگوں میں کوئی ردِ عمل پیدا نہیں ہوتا۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پہلے ”محسود تحفظ موومنٹ‘‘ کا آغاز ہوا اور جب نقیب اللہ محسود کو کراچی میں ماورائے عدالت قتل کیا گیا تو اس کو ”پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ میں تبدیل کردیا گیا۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے ظلم اور بربریت پر مبنی جو کہانیاں منظر عام پر آئیں اس نے دردِ دل رکھنے والے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ خواتین اور بچے اپنے گم شدہ پیاروں کی تصاویر اٹھا کر اس تحریک کے ذریعے ان کی برآمدگی کا مطالبہ کرنے لگے۔ اسلام آباد کے دس روزہ دھرنے نے ظلم اور جبر کے شکار پشتونوں ہی میں نہیں بلکہ بلوچستان کے متاثرہ بلوچوں اور ٹارگٹ کلنگ اور بم حملوں کے شکار ہزارہ کمیونٹی کو بھی احتجاج کرنے کا حوصلہ دیا۔ دہشت گردی کے شکار سوات میں بھی لوگوں نے چیک پوسٹوں اور سکیورٹی اہل کاروں کے نامناسب اور ہتک آمیز رویہ کے خلاف پہلی دفعہ احتجاج کیا۔ اس سے قبل اہل سوات ہر ظلم اور زیادتی پر سلامتی کے خوف سے خاموش رہے تھے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے احتجاج کے نتیجے میں سوات سے کئی چیک پوسٹوں کا خاتمہ کردیا گیا اور جن چیک پوسٹوں کی موجودگی ناگزیر سمجھی گئی، ان پر سکیورٹی اہل کاروں کا رویہ عوام کے ساتھ مہذبانہ ہوگیا۔ سکیورٹی اداروں نے 200 بے گناہ افراد کو فی الفور رہا کردیا۔ وزیرستان میں ان بارودی سرنگوں کو تلف کرنے کی شروعات ہوئیں جن کی زد میں آکر بچے اور بڑے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے یا وہ باقی عمر کے لئے معذوری کا عذاب سہتے۔ نقیب اللہ محسود کے قاتل راؤ انور کو عدالت کے کٹہرے میں لایا گیا اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، مرحوم نقیب اللہ محسود کے گھر تعزیت کے لئے چلے گئے اور ان کے بچوں کو اپنی گود میں بٹھا کر نقیب اللہ کے والد کو یقین دہانی کرائی کہ فوج انھیں انصاف دلانے میں تعاون کرے گی۔ یہ تمام واقعات حوصلہ افزا ہیں لیکن یہ پشتونوں کے اتفاق اور احتجاج کے نتیجے میں ظہور پزیر ہوئے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کا پشاور کا جلسہ غیر معمولی طور پر کامیاب رہا۔ اس میں خواتین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی اور کئی خواتین نے جلسے سے خطاب بھی کیا۔ منظور پشتین نے اعلان کیا کہ وہ آخری گمشدہ شخص کی برآمدگی تک تحریک جاری رکھیں گے۔ انھوں نے لاہور اور سوات میں بھی جلسے منعقد کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ احسان اللہ احسان اور سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے کیوں کہ انھوں نے پشتونوں کا قتل عام کیا ہے۔

سوات اور وزیرستان میں جب فوجی آپریشنوں کا آغاز کیا گیا تو پہلے پہل لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور وہ سمجھنے لگے تھے کہ پاکستان کی بہادر فوج انھیں دہشت گردوں سے نجات دلائے گی۔ لیکن جب بے گناہ لوگوں کو چیک پوسٹوں پر ذلیل کیا جانے لگا اور ان کے گھروں کی چار دیواری کا تقدس پامال کیا جانے لگا تو لوگوں میں نفرت اور بے زاری کے جذبات پیدا ہونے لگے۔ پاک فوج ہماری اپنی فوج ہے اور لوگ انھیں بڑے احترام کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انھوں نے پشتون تہذیب اور روایات کا کوئی خیال نہیں رکھا۔ حالاں کہ اس کے مقابلے میں افغانستان میں غیر ملکی اور نیٹو کی ”کافر فوج‘‘ تعینات ہے لیکن وہاں فوج کے ہر یونٹ کے ساتھ کلچرل ایڈوائزر ضرور ہوتا ہے۔ وہ جس علاقے میں جاتے ہیں، اس سے پہلے وہ کلچرل ایڈوائزر سے اس علاقے کے رسم و راج اور روایات کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں تاکہ وہ ان کا خیال رکھیں اور عام بے گناہ لوگوں میں اپنے خلاف نفرت و اشتعال کا سبب نہ بنیں لیکن سوات اور وزیرستان میں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ فوج نے اس حساس معاملے کا کوئی خیال نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے دلوں میں غصہ، اشتعال اور نفرت موجود ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2