کیا آپ کا خاندان نفسیاتی مسائل کا شکار ہے؟


ایک دن میری مریضہ ماریا اچانک میرے کلینک میں چلی آئی۔ وہ زارو قطار رو رہی تھی۔ جب میری سیکرٹری ڈیانا نے اس سے کہا کہ اس کی کوئی اپوائنٹمنٹ نہیں ہے تو وہ کہنے لگی کہ اس کا ڈاکٹر سہیل سے ملنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ میں نے ماریا سے کہا کہ اگر وہ آدھ گھنٹہ انتظار کرے تو میں اسے اپنے لنچ بریک میں دیکھ لوں گا۔ وہ مان گئی۔

جب میں اس سے ملا تو کہنے لگی کہ آپ نے جو پیشین گوئی کی تھی وہ درست نکلی۔
“کون سی پیشین گوئی؟” میں متجسس تھا۔
“آپ نے کہا تھا کہ اگر میرا شوہر میری تذلیل کرتا رہے گا تو ایک دن میری بیٹی بھی میری بے عزتی کرے گی”۔
پھر ماریا نے مجھے دو خط دکھائے۔ پہلا خط ماریا نے اپنی بیٹی روزا کے نام لکھا تھا اور دوسرا خط روزا نے ماریا کو لکھا تھا۔ میں ان خطوط کا ترجمہ پیش کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ کو مسئلے کی سنگینی کا اندازہ ہو سکے۔

ماں کا خط
پیاری روزا! تم بخوبی جانتی ہو کہ میں تم سے کتنی محبت کرتی ہوں۔ اس محبت کے باوجود تم مجھ سے سخت لہجے میں بات کرتی ہو۔ تم جانتی ہو کہ پیدا ہونے سے پہلے میں نے تمہیں نو مہینے اپنے پیٹ میں رکھا اور تم ہو کہ میری بر سرِ عام تذلیل کرتی ہو۔ اب تم 26 برس کی ہو گئی ہو اور تم نے یونیورسٹی کی ڈگری بھی لے لی ہے۔ اب تم جوان ہو گئی ہو۔ اب تو تم میں اتنی عقل آ جانی چاہیے کہ اپنی ماں سے عزت سے بات کرو اور اس کا احترام کرو۔ اگر تم اپنی ماں کو سکھی نہیں کر سکتی تو کم از کم اسے اور دکھی تو نہ کرو۔ تم جانتی ہو کہ کسی بچے کو کوئی بھی اس کی ماں سے زیادہ پیار نہیں کر سکتا۔
محبتوں کے ساتھ۔
تمہاری ماما۔ ماریا

بیٹی کا خط
ماریا! الفاظ! الفاظ! الفاظ! یہ سب بے معنی ہیں۔ تمہیں باتیں کرنی بہت آتی ہیں۔ تم نے مجھے نو مہینے پیٹ میں رکھا تو کیا کمال کر دیا۔ وہ تو کوئی بھی عورت کر سکتی تھی۔ یہ تمہارا فیصلہ تھا۔ اگر خدا مجھ سے پوچھتا تو میں تمہیں اپنی ماں کے طور پر نہ چنتی۔ مجھے تم سے نفرت ہے، سخت نفرت۔ تم جھوٹ بولتی ہو غیبت کرتی ہو تم ایک منافق ہو۔ مجھے تمہیں دیکھ کر شرم آتی ہے۔ تم ایک ماں نہیں ہو ایک جادو گرنی ہو۔ ایک چڑیل ہو۔ میں نے تم سے بدتر انسان ساری زندگی کوئی نہیں دیکھا۔ تم نے اپنی بری حرکتوں سے میری زندگی جہنم بنا رکھی ہے۔ میں تمہیں آج بتا دیتی ہوں کہ اگر تم کل مرو تو میں تمہارے جنازے میں شرکت نہیں کروں گی۔ روزا

جب میں وہ خطوط پڑھ رہا تھا ماریا زار و قطار روئے جا رہی تھی۔ ماریا نے مجھے بتایا کہ وہ میری ہمدردی کا شکریہ ادا کرنے اور مجھے خدا حافظ کہنے آئی ہے کیونکہ اگلے دن وہ اپنی ماں کے پاس اٹلی جا رہی ہے۔

تم واپس کب آؤ گی؟
میں واپس نہیں آؤں گی۔ میرا اب اس گھر میں رہنے کو دل نہیں چاہتا۔ یہاں نہ میرا شوہر اور نہ ہی میری بیٹی میری عزت کرتے ہیں۔
ماریا رخصت ہونے سے پہلے کہنے لگی کہ اسے سب سے زہادہ اس بات کا دکھ تھا کہ اس کی بیٹی نے وہ زہر بھرا خط اسے مدرز ڈے پر دیا تھا۔

ہم اپنے کلینک میں ان خاندانوں کی مدد کرتے ہیں جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں لیکن اس مدد کے لیے سب خاندان والوں کا تھیریپی میں شریک ہونا اہم ہے۔ ماریا نے جب اپنے شوہر اور بیٹی کو تھیریپی کے لیے بلایا تھا تو انہوں نے انکار کر دیا تھا۔

جب میاں بیوی والدین بنتے ہیں تو ان کی خاندانی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ ہم اپنے کلینک میں ماں باپ کو بچوں کی تربیت کے اصول سکھاتے ہیں۔ ہم انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ہر ہفتے ایک میٹنگ کریں اور پچھلے اور اگلے ہفتے کے مسائل پر تبادلہِ خیال کریں اور ان کا حل تلاش کریں۔ ہم والدین کو بتاتے ہیں کہ خاندان بھی ریاست کی طرح ہوتا ہے۔ ریاست میں مقننہ ہوتی ہے انتظامیہ ہوتی ہے اور عدلیہ ہوتی ہے۔ اسی طرح ماں باپ بھی اپنے خاندان کے لیے اصول بناتے ہیں پھر ان اصولوں پر عمل کرتے ہیں اور اگر کوئی بچہ ان اصولوں پر عمل نہ کرے تو اس کے نتائج ہوتے ہیں۔ ماں باپ بچوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ تبدالہِ خیال کریں تا کہ وہ مل کر خاندان کے اصول بنائیں۔ اس طرح کے مکالمے سے خاندان میں ایک جمہوری فضا قائم ہوتی ہے اور بچے ماں باپ اور اصولوں کا احترام سیکھتے ہیں۔

وہ خاندان جن میں ماں باپ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور ان کا بچوں سے پیار کا رشتہ ہوتا ہے ان خاندانوں میں مسائل خوش اسلوبی سے حل ہوتے ہیں لیکن اگر ماں باپ ایک دوسرے کا احترام نہیں کرتے تو پھر بچے بھی ان کا احترام نہیں کرتے اور خاندان میں تلخی نفرت اور غصے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل بڑھنے لگتے ہیں اور انہیں جلد یا بدیر کسی تھیریپسٹ کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔

جب بچے والدین اور خاندان کے اصولوں کا احترام سیکھتے ہیں تو پھر وہ سکول میں اساتذہ کا اور معاشرے میں قوانین کا احترام بھی سیکھتے ہیں۔ میرا ایک شعر ہے
؎ ہمارے عہد کے ذی ہوش خانداں سوچیں
وہ دلدلوں کی طرح ہیں کہ ساحلوں کی طرح

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail