امروز کی رسوائی فردا کا اجالا ہے


\"ramish-fatima\"کیا عورت آدھی ہے\’ نامی کتاب میں وارث میر صاحب نے عبدالمجید سالک صاحب کی ایک تحریر کا حوالہ دیا پہلے ذرا اس پہ نظر ڈال لیں۔ \”عرصہ ہوا ہماری نظر سے عبدالمجید سالک صاحب کی ایک ہلکی پھلکی پنجابی تحریر گزری تھئ \”کنجریاں تے لچیاں رناں\” مولانا سالک نے وقت کے ساتھ بدلتے شرافت و نجابت کے بدلتے ہوئے معیاروں کا خاکہ اڑاتے ہوئے لکھا تھا کہ ایک زمانے میں لٹھے کا سفید برقعہ پہننے والی عورتیں سیاہ ریشمی برقعے پہننے والی عورتوں کو \’کنجریاں تے لچیاں رناں\’ کہا کرتی تھیں پھر سیاہ برقعے کا رواج کم ہوا تو بعض عورتوں نے چادریں پہن کر گھروں سے باہر نکلنا شروع کیا تو سیاہ برقعے پہننے والیوں نے چادر اوڑھنے والیوں کو \’کنجریاں اور لچیاں \’کہا۔ چادر نے دوپٹے کی صورت اختیار کی تو یہی طعن دوپٹا پہننے والیوں کو سننا پڑا اور جب دوپٹا سر سے ڈھلک کر سینے پر آ گیا تو سر پر دوپٹا رکھنے والیوں نے گلے میں دوپٹا ڈالنے والیوں کو \’کنجریاں تے لچیاں رناں\’ کا خطاب دیا\”

یہ بات محض لباس تک محدود نہیں رہے، آپ کسی بھی موضوع پہ بات شروع کریں تو طعنہ کہیں سے شروع ہوتا اور کہاں جا کر ختم ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ آپ کسی بھی موضوع کے حق یا مخالفت میں کچھ لکھیں تو ایسے ہی خطاب سے سے نوازا جائے گا ۔ نوازنے کا یہ عمل ہر طرف سے جاری و ساری ہے۔ بیشتر موضوعات ہماری طبیعت کو ناگوار گزرتے ہیں ، بہت سی آوازیں سماعتوں پہ گراں گزرتی ہیں لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ہم کسی کو بات کرنے کے حق سے محروم کر دیں؟

وہ طالبات جو کسی جامعہ میں زیرِ تعلیم ہیں ان کی زندگی کے مسائل گھروں میں رہنے والی عورتوں کی نسبت مختلف ہوں گے، شہروں میں رہنے والی بیشتر خواتین اس بات کا شعور نہیں رکھتیں کہ کھیتوں کھلیانوں میں کام کرتی عورتوں کے کیا مسائل ہو سکتے ہیں۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ سرے سے اس بات سے انکاری ہو جائیں کہ جو بات کر رہا ہے اس کو بولنے کے حق سے محروم کر دیا جائے کیونکہ اسے کسی اور کے مسائل کا احساس نہیں؟ کسی اور کے مسائل کا احساس کرنا معقول بات ہے، ایک معاشی طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو نچلے معاشی طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے مسائل کا احساس ہو گا تو اس سے ہم آہنگی کو فروغ ملے گا اور مسائل کا حل بہتر طریقے سے ممکن ہو گا۔ لیکن اگر کسی کو اس بات پہ روک دیا جائے کہ وہ اپنے مسائل پہ آواز نہ اُٹھائے تو وہ کسی دوسرے کے مسئلے کی دردسری کیوں برداشت کرنے لگا؟

پھر کچھ لوگ اس مکالمے کے بیچ معاشرے اور مذہب کو لے آئے، دیکھیں اگر بات معاشرے کی ہے تو پھر یہ بدلا جا سکتا ہے، بدل رہا ہے، مکالمہ ہو گا تو ہی مزید بدلے گا اور شاید اتنا ہی بدلے گا جتنا سالک صاحب کی تحریر سے عیاں ہے۔ لیکن مذہب پہ بھلا کیسے بات کی جا سکتی ہے؟ یہاں اب ہمارے پر جلتے ہیں کہ یہاں پہنچ کر مکالمہ نازک موڑ پہ پہنچ جاتا ہے ۔ اختلاف کی گنجائش اس طور موجود نہیں رہتی کہ کب کہاں کوئی جملہ گستاخی شمار کر لیا جائے کون جانتا ہے۔اب تو سرکار سائبر کرائم بِل کے بعد ہم ویسے بھی سوچ رہے ہیں کہ ہر مسئلے کو شرعی، سماجی، معاشرتی اور معاشی نقطہ نظر کے بعد سائبری نقطہ نظر سے بھی دیکھنا ہو گا کہ کسی طور کوئی جملہ قابل گردن زنی نہ ٹھہرے۔اور ویسے بھی کچھ مسائل پہ مذہبی موضوعات سے جڑی کتابوں میں اتنا کچھ اس طریقے سے لکھا گیا ہے کہ اس کے بعد ان لڑکیوں کی بات ایسی ناگوار گزرے تو حیرت ہی ہو رہی ہے۔

جہاں تک بات اخلاقیات کی ہے تو اس کا معیار بھی میری اور آپ کی نظر میں مختلف ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پہ میری اخلاقیات کو اس بات سے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی اگر دو چاہنے والے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے چہل قدمی فرما رہے ہوں، میری آنکھوں کو یہ منظر بھلا ہی لگے گا۔ لیکن عین ممکن ہے کہ آپ کی اخلاقیات کو اس سے سخت ٹھیس پہنچے اور آپ خدائی فوجدار بن کے نازل ہو جائیں اور انکوائری کمیشن بٹھا دیں ۔ اس لیے بہتر یہی ہو گا اگر کچھ آپ کی اخلاقیات کو ناگوار گزرے تو آپ اسے ویسے ہی نظرانداز کر کے آگے بڑھ جائیں جیسے ہم کسی ناپسندیدہ جملے کو نظرانداز کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ ہر بات پہ محاذ آرائی کریں گے تو پھر جیسے آپ کی برداشت بات بات پہ جواب دے جاتی ہے کسی روز سامنے والے نے بھی تہذیب کا دامن چھوڑ دیا تو آپ کہیں گے، بات کرنے کی تمیز نہیں۔

اگر کوئی بات کر رہا ہے تو چلیں بات کرنے دیں۔ شاید اسی طرح بات کرنے کی راہ نکل آئے، جو بول رہا ہے ایک روز اسے بات کہنے کا سلیقہ بھی آ جائے۔ ظاہر ہے جو بات کر رہا ہے اسے کوئی تکلیف ہے، کوئی مسئلہ ہے، یہ بات اسے چبھ رہی ہے تو وہ بول رہا ہے۔لیکن یہ تو تب ممکن ہو گا جب ہم مکالمے پہ یقین رکھیں گے۔اور ایسا ہم کیوں کریں؟ ہم کیوں بولنے دیں؟

شرم یا حیا صرف عورت کے جسم سے جڑے کسی قدرتی عمل سے منسوب کر دینا ٹھیک نہیں کیونکہ اس سے جڑے مسائل کو اجاگر کرنے کی تحریک کو بےباکی اور بےحیائی کہا گیا۔ اگر آپ دس ایسی خواتین کے نام گنوا سکتے ہیں جو سوشل میڈیا پہ بےباکی سے کچھ لکھ رہی ہیں تو پچاس ساٹھ نام ایسے مردوں کے بھی ہوں گے ہی جو اتنا خوبصورت تبصرہ فرماتے ہیں کہ ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ حرافہ، فاحشہ جیسے الفاظ صرف ہماری خاطر لغت کا حصہ بنائے گئے تھے۔ مجھے ذاتی طور پہ جامعہ کی طالبات کا یہ عمل اس طور برا نہیں لگا کیونکہ میں خود مخلوط تعلیمی ادارے میں زیرِ تعلیم رہی ہوں اور میں نے لوگوں کو ان باتوں پہ مذاق اڑاتے دیکھا ہے۔ خواتین اکثر کیا ہمیشہ ہی ان معاملوں میں مدد کرتی دکھائی دی ہیں لیکن مذاق اڑانے والے حضرات کی عزت آپ کی نظروں میں کیسے گھٹ جاتی ہے، یہ بتانا اب بھی ضروری ہے کیا؟ اور جیسے جملے بولے جاتے ہیں ان کے بعد کوئی لڑکی اگر اپنا اعتماد کھو بھی دے تو کیا فرق پڑتا ہے۔

سیکس ایجوکیشن ہو حیض ہو یا کوئی اور موضوع، آخر میں مجھے فراز صاحب کا سہارا لینا پڑا کہ

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
34 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments