چودھری شجاعت حسین کی کتاب اور ان سے وابستہ یادیں


چودھری شجاعت حسین صاحب کی لکھی ’’سچ تو یہ ہے کہ‘‘ کے ان دنوں بہت چرچے ہیں۔ پیر کی شام اس کتاب کی لاہور میں تقریب رونمائی بھی ہوگئی۔ چودھری پرویز الٰہی نے بہت پیار سے اس تقریب کے لئے مدعو بھی کیا تھا۔ پیشہ وارانہ مصروفیات کی وجہ سے شامل نہ ہوپایا۔ احساسِ ندامت وجرم مگر اپنی جگہ موجود ہے۔

چودھری صاحب کی لکھی کتاب ابھی تک میرے ہاتھ نہیں آئی ہے۔ اخبارات میں چھپے اس کے اقتباسات ضرور دیکھے ہیں۔ وثوق سے لہذا طے نہیں کر پایا کہ میرے ذاتی مشاہدے میں چودھری صاحب کی سیاست سے جڑے جو اہم ترین واقعات آئے ہیں،ان سب کا اس کتاب میں بھرپور احاطہ ہوا ہے یا نہیں۔

میرا واجبی سا تعارف و تعلق ان کے والدِ محترم سے حبیب جالب کی معرفت ہوا تھا۔چودھری شجاعت نے اس واجبی تعلق کا بھی ہمیشہ احترام کیا۔ نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں وہ وفاقی وزیر داخلہ تھے مگر ریاستی ’’ڈنڈے سوٹے‘‘ پر احتساب بیوروکے سیف الرحمن کا اجارہ تھا۔ موصوف کو تھانے داری دکھانے کا بہت شوق تھا اور ’’سرکش‘‘ صحافیوں پر ان کی خاص نگاہ تھی۔

میں ذاتی طورپر ان کے غضب سے بچ نکلا اگرچہ دھونس جمانے کے لئے انہوں نے دو سفید ٹیوٹا میں بیٹھے کئی ’’مشٹنڈے‘‘ دِکھتے ایف آئی اے کے اہل کار میرے گھر کے باہر کئی ہفتوں تک تعینات رکھے تھے۔ سوزوکی آلٹو میں اپنی والدہ اور شیر خوار بچی کو بٹھاکر میری بیوی مارکیٹ جاتی تو ایک گاڑی اس کا مسلسل تعاقب کرتی۔ اس پر نازل دہشت نے مجھے پریشان کرنے سے اشتعال زیادہ دلایا۔اس کی خبر مشاہد حسین سید کی وساطت سے چودھری نثار اور شہبازشریف تک پہنچی۔ معاملہ بالآخر وزیر اعظم تک پہنچا تو جاں خلاصی ہوئی۔

ان ہی دنوں سیف الرحمن نے ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے خلاف ایک انگریزی اخبار میں اُردو میں چھپی ایک ’’باغیانہ‘‘ نظم کی وجہ سے بغاوت کا مقدمہ قائم کردیا۔ اس مقدمے کے خلاف نیشنل اسمبلی سے ہم رپورٹر احتجاجاََ واک آئوٹ کرگئے۔ ہمارے واک آئوٹ کو ختم کرنے کے لئے چودھری صاحب کو صحافیوں کے ایک نمائندہ وفد سے مذاکرات کی ذمہ داری سونپی گئی۔مجھے بھی اس وفد میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔

چودھری صاحب کے ساتھ مذاکرات کے دوران میں بالکل خاموش رہا۔ چودھری صاحب کو یہ خاموشی بہت کھلی اور بالآخر پنجابی میں بول اُٹھے کہ میں اتنا خاموش کیوں ہوں۔نہایت خلوص سے میں نے بے ساختہ انہیں صرف یہ کہا کہ مجھے ایک ایسے شخص کے ساتھ ایک صحافی کے ساتھ ہوئے سلوک پر احتجاج کرتے ہوئے شرمندگی محسوس ہورہی ہے، جس کے والد (چودھری ظہور الٰہی) نے جنرل ضیاء کو وزارت قبول کرنے سے قبل واضح الفا ظ میں یہ بتادیا تھا کہ اگر کبھی پولیس نے حبیب جالب کو کسی جرم میں گرفتار کیا تو وہ ذاتی طورپر تھانے جاکر ان کی رہائی کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

میری یہ بات سنتے ہی چودھری صاحب نے جذبات سے مغلوب ہوکر یہ کہتے ہوئے مذاکرات ختم کردئیے کہ ڈاکٹر صاحبہ کے خلاف قائم ہوا مقدمہ شام سے پہلے ختم ہوجائے گا۔ ان کا وعدہ پورا ہوا۔کیسے؟ اس کی تفصیل مجھے خبر نہیں کہ ان کی کتاب میں موجود ہے یا نہیں۔ سیف الرحمن کا بنایا مقدمہ خارج کروانا مگر ایک ناممکن دکھائی دیتا ہدف تھا جو چودھری صاحب نے کسی نہ کسی صورت حاصل کرلیا۔

ملکی سیاست کے حوالے سے چودھری صاحب کی ذات سے جڑے کئی واقعات ہیں جن کے تفصیلی ذکر کے لئے یہ کالم نہیں ایک بھرپور کتاب درکار ہے۔ 2002کے انتخابات کے بعد میر ظفر اللہ جمالی کا بطور وزیر اعظم انتخاب۔ بعدازاں جمالی کی اس منصب سے فراغت۔ اس فراغت کے بعد ہمایوں اختر کا اعتماد کہ وہ نئے وزیر اعظم ہوں گے مگر بالآخر شوکت عزیز کی کامیابی، ایسے ہی واقعات ہیں۔ چودھری صاحب کی خاندانی وضع داری کو نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت نے بہت دھچکا لگایا تھا۔ اس کے علاوہ لال مسجد کی کہانی بھی ہے۔ یہ تمام واقعات ہماری سیاسی تاریخ کے اہم ترین سنگ میل ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے بارے میں چودھری صاحب نے جو مناسب سمجھا لکھ دیا ہوگا۔

میری دانست میں لیکن چودھری شجاعت حسین کے سیاسی کیرئیر میں اہم ترین مرحلہ اس وقت آیا جب وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہت خوفناک ہوتے پانی کے مسئلے کو ٹھوس اقدامات سے مستقل طورپر حل کرسکتے تھے۔

مناسب اکثریت کے ساتھ من موہن سنگھ جب بھارت کا وزیر اعظم منتخب ہوا تو پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے وہ ایسا ہی کوئی بڑا-Statesmanly-کردار ادا کرنا چاہتا تھا جو اپنی دانست میں واجپائی نے ایک بس پر بیٹھ کر لاہور پہنچنے کے بعد کرنا چاہا تھا۔ مسئلہ کشمیر کا حل یقینا من موہن سنگھ کے بس سے باہر تھا۔ چکوال سے آبائی تعلق کی وجہ سے اپنے بڑھاپے میں ایک ماہر معیشت ہوتے ہوئے لیکن اسے احساس تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہمالیہ سے پھوٹے دریائوں کے پانی کا مسئلہ سنگین ترہورہا ہے۔

سندھ طاس معاہدے کو بین الاقوامی اداروں کی مداخلت سے کوئی نئی شکل دینے کے بجائے اس کی خواہش تھی کہ دونوں ممالک خود ہی اس معاہدے کو ماحولیات کے جبر کی وجہ سے آئی مشکلات سے نبردآزما ہونے کے قابل بنائیں۔ ایسا سوچتے ہوئے یقینا اس کے ذہن میں یہ بات بھی ہوگی کہ اگر پاکستان کو دریائی پانی کی ترسیل کے حوالے سے کوئی Feel Good انتظام فراہم کردیا جائے تو شاید وقتی طورپر اسلام آباد مسئلہ کشمیر کے حل پر شدت سے زور دینا مؤخر کردے۔
سفارت کاری ہرگز محض نیک نیتی پر مبنی نہیں ہوتی۔ اسے ہر صورت کسی ملک کے قومی مفادات کے تابع رہنا پڑتا ہے۔

ماہرانہ سفارت کاری کا مگر تقاضہ یہ بھی ہے کہ ازلی دشمن سے آئی پیش کش کو یکسر رد نہ کیا جائے۔اسے Trust But Verify کی بنیاد پر قابل عمل بنانے کی کوشش ہو۔

نائن الیون کے بعد پاکستان کی اہمیت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے امریکہ کی بھی ان دنوں بہت خواہش تھی کہ پاک-بھارت تعلقات میں امن وبہتری کی جانب کچھ پیش رفت ہو۔ اس ہدف کے حصول کے لئے بیک ڈور ڈپلومیسی کے کئی راستے بنائے گئے۔ ان ہی میں سے ایک پر عمل کرتے ہوئے بھارتی کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے ان دنوں کی حکمران مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت کو بھارت کے دورے کی دعوت دی۔ چودھری صاحب نے یہ دعوت قبول کرلی۔

سفارتی حوالوں سے یہ دعوت اس حوالے سے تاریخی تھی کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے بجائے ان ملکوں کی حکمران جماعتوں کے قائدین کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اپنا وفد (جسے بھارتی کانگریس نے باضابطہ طورپر اپنا مہمان ٹھہرانا تھا) تیار کرتے ہوئے چودھری شجاعت نے میرا نام بھی اس میں ڈال دیا۔ مجھے بہت حیرت ہوئی۔ میں صحافی تھا اور میرا پاکستان مسلم لیگ (ق) سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔میرے کالموں میں یہ حکمران جماعت بلکہ اکثر کڑی تنقید کی زد میں رہتی تھی۔

چودھری صاحب سے انکار کے لئے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ میرے علاوہ انہوں نے تین دیگر صحافیوں کو بھی اپنے وفدمیں شامل کیا ہے۔میرے سمیت یہ سب صحافی بھارت کی اندرونی سیاست پر تواتر سے لکھا کرتے تھے۔ نسیم زہرہ بھی ان میں شامل تھیں۔ چودھری صاحب کی خواہش تھی کہ ہم نہ صرف اپنے مشاہدے سے ان کی معاونت کریں بلکہ ان کی بھارت میں ہوئی ملاقاتوں کو تاریخ کے لئے ریکارڈ بھی کرلیں۔

اس وفد کا حصہ ہوتے ہوئے میں اس دورے میں ہوئی ملاقاتوں اور مذاکرات کے بارے میں ’’خبر‘‘ کے طورپر ایک لفظ بھی نہیں لکھ سکتا تھا۔ دورِ رس حوالوں سے مگر بھارت کی پاکستان کے بارے میں پالیسی کو انتہائی قریب سے دیکھنے کا یہ نادر موقعہ تھا۔ چودھری شجاعت نے مجھے اس وفد کا حصہ بناتے ہوئے جنرل مشرف کو نجانے کیسے آمادہ کیا ہوگا۔

بھارت میں ہوئی چودھری صاحب کی ملاقاتوں کے طفیل میں نے ان میں ایک متاثر کن حد تک ماہر سفارت کاردریافت کیا۔ مجھے خبر نہیں کہ اپنی کتاب میں چودھری صاحب نے اپنے اس دورئہ بھارت کاذکر تفصیلی انداز میں کیا ہے یا اسے محض ’’تاریخ کی نذر‘‘ کردیا ہے۔

اس دورے میں ہوئی باتوں کو ’’آف دی ریکارڈ‘‘ رکھنا میری مجبور ی تھی۔چودھری صاحب اجازت دیں تو میں تفصیل کے ساتھ بیان کرسکتا ہوں کہ ان کے مذکورہ دورے کے دوران کیسے پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کے سنگین تر ہوتے مسئلے کو دیرپا بنیادوں پر حل کرنے کے ٹھوس امکانات نمودار ہوئے تھے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).