شاکر شجاع آبادی نہیں معاشرہ اور نظام گرا ہے


شاکر شجاع آبادی، ملتان کے علاقے، شجاع آباد میں رہائش پذیر، پنجابی، اردو اور سرائیکی زبان میں شاعری کرتے ہیں ان کی ز ندگی کی گزر اوقات۔ ان کی ظاہری اوقات سے بھی گئی گزری ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ اور شاکر صاحب کی حالت میں مماثلت ہے لیکن حالات یکسر مختلف۔ اگر اسٹیفن کی جسمانی حالت کا تقابل شاکر صاحب کی حالت سے کیا جا ئے تو شاکر صاحب کی حالت ان سے پچاس فی صد بہتر ہے۔ شاکر صاحب کسی طور بول لیتے ہیں اور کسی طرح خود لکھ لیتے ہیں۔ لیکن دونوں کے رہن سہن اور مالی حالات میں مثالی فرق ہے۔ برطانیہ نے اسٹیفن کی بیماری کے باوجود اس کی صلاحیتوں سے کا ئنات کو مستفید کرنے کے لئے ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے دنیا آج اسٹیفن کو جا نتی ہے۔

یورپ میں تخلیق کاروں کو شناخت دینے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جا تے ہیں۔ جب کہ ہمارے ہاں ادیب اور دانشور کسمپرسی، مفلوک الحالی کی زندگی گزار کے دنیا میں اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ اورہمارے حکمران اور دوسرے مراعات یافتہ طبقے ان کی زندگی میں ہلکی سی روشنی لانے کی بھی سعی نہیں کرتے۔ جس ملک میں امراء کے جانوروں کے بھی الگ الگ کمرے ہوں اس ملک میں شاکر شجاع آبادی جیسے عظیم، حساس صوفی شاعر کے کمروں کو دروازے بھی میسر ناہوں اور جو اپنے بیوی بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی نہ دے سکتا ہو اس پر کیا گزرتی ہو گی۔ خیر اس پر جو گزری وہ تو تاریخ کا حصہ بن ہی جا ئے گی لیکن تاریخ تو سب ہی کو ہو نا ہے۔ پر اس کے اسباق میں کہیں عبرت اوردرس، تو کہیں رشک اور روشنی ہے۔

فطرت نے شاکر صاحب کی زندگی اور تخلیق کی آبیاری کے لیے یوں راہ ہموار کی کہ اس کے ساتھ ایک پڑھی لکھی، قناعت پسند اور محبت کرنے والی شریکِ حیات جوڑ دی۔ جس نے شاعر کے دل میں جینے کی امنگ اور تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کر دیا۔ آنگن میں بچوں کی کلکاریوں کے ساتھ بہتر ذندگی کی تمنا اس کی ذہن میں تا دیر کلبلاتی رہی، پھروقت کے دھارے میں ایک حسرت بن کر اس کے سینے میں سما گئی اور گزرتے دنوں کے ساتھ بڑھتے غبار میں دفن ہو گئی۔ ایسا حساس اور باکمال شاعر اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی رو ٹی بھی میسر نہ کر سکا۔ مگر یہ دکھ ان کے حوصلوں کو پست نہیں کرتا۔ وہ انہیں عبادت قرار دیتے ہیں۔ بقول ان کے یہ دکھ انہیں بغیر کوئی جرم کیے، عطا ہوئے ہیں۔ ان کے دکھوں اور افلاس کی وجہ شاعرانہ تسا ہلی ہے نہ ان کی معذوری بلکہ ان کی خود دار فطرت ہے۔

میڈا رازق، رعائت کر، نمازاں رات دی کر دے
جو روٹی رات دی پوری کریندی شام تھی ویندی
میں شاکرؔ بکھ دا مارا ہاں، مگر حاتم توں گھٹ کین نی
قلم خیرات میڈی اے، چلیندے شام تھی ویندی

ذہن رسا سے درباری مراعات حاصل کرنے والوں کی کہا نیاں کون نہیں جانتا۔ افسوس مراعات یافتہ میڈیا اوردرباری محقق، تجزیہ کار اور صحافی تو کسی اہم مسئلے کی نشان دہی کر کے اپنا فرض پورا کر لیتے ہیں۔ مگر وہ شعرا بھی جو سرکاری عہدوں پر براجمان ہیں، وہ اس دنیا کو پنڈال سمجھ کر آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔ حاضرین کی جانب سے داد و تحسین کی آوازوں سے بھی ان کی نیند میں خلل نہیں پڑتا۔ یہ تو ناظم مشاعرہ کی جانب سے اپنا نام سن کر اپنی باری میں جاگتے ہیں، مائک پکڑ کر کلام پڑھتے ہیں اور دوبارہ گاؤ تکیے سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیتے ہیں۔

شاکر علی شاکر صاحب فرماتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی صاحب نے اپنے دورِ حکومت میں انہیں پچاس ہزار روپے بھجوائے تھے، جو ان سے کسی نے بچوں کا اسکول کھولنے کی مد میں وصول کیے اور آج تک وہ اسکول کھل سکا نہ ان کے گھر کی دیواروں کو در میسر آسکے۔ شاکر صاحب کو اپنے الفاظ کی درست ادائیگی میں مشکل پیش آتی ہے لیکن ان کی بیوی بچے ان کے اظہار کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا ولید بالخصوص اور ان کے چند شاگرد بالعموم ان کی شاعری کے ترجمان ہیں۔ اس علاقے میں شاکر صاحب کے ایسے کئی شاگرد اور مداح بھی ہیں۔ جو حقیقتاً ان کی جوتیاں سیدھی کرتے ہیں۔ ان کے یہ سارے مداح اور شاگرد بھی ان کی طرح حیاتِ نا آسودہ بسر کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے ذہن شاداب، روح پاکیزہ اور دل شاکر صاحب کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
اس تحریر کا محرک وہ خبر بنی جو کچھ دن پہلے میڈیا پر آئی کہ ممتاز شاعر شاکر شجاع آبادی نہر میں گر گئے اور اہلِ علاقہ نے انہیں نکالا۔

جب شاکر شجاع آبادی جیسے شاعر اس حال میں ہوں تو سمجھو ہمارا معاشرہ اور حکومتی نظام گرا ہوا ہے۔
جھونکا ہوا کا تھا آیا، گزر گیا
کشتی مری ڈبو کے، دریا اتر گیا
مرے پیار پہ جو صدقہ، مرے یار نے دیا
دیکھا جو غور سے تو میرا ہی سر گیا
بٹتی ہیں اب نیازیں اس کے مزار پر
کچھ روز پہلے جو شخص فاقوں سے مر گیا
شاکر شجاع آبادی

شاکر شجاع آبادی اسمِ با مسمیٰ، مست قلندرشاعر، جو سرمایہ داروں اور مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگوں تک اس ملک کے غریب، مزدور اور پسے ہوئے طبقے کی آوازپہنچاتے، عمرِ عزیز کے اکسٹھ برس پورے کر چکے ہیں۔ ان کا شمار ان شعرا میں ہو تا ہے جو ظالمانہ حد تک حساس ہوتے ہیں۔ عزتِ نفس اور خود داری انہیں اپنے گھر کے حالات بتانے سے بھی گریز کرتی ہے، مبا داکوئی ان سے ہمدردی کے زیرِ اثر ان کی مدد کر بیٹھے۔ مصائب، مشکلات اور آزمائشیں ان کی تخلیق کو نمو دیتی ہیں، لیکن ان کے پھول سے بچوں کو ایک لمبی زندگی گزارنی ہے۔ ادب کی ترقی ترویج کرنے والے اداروں، درباری اور متمول لکھاریوں سے ہاتھ جوڑ کر اپیل ہے کہ وہ اس شاعر اور کے چاہنے والوں کے لیے حکومت کی سر پرستی میں ایک اکیڈمی قائم کریں۔ جو شاکر شجا ع آبادی جیسے شعرا اور ادیب جن کے اہلِ خانہ نا گفتہ بہ زندگی ڈھو رہے ہیں، ان کے مالی معا ملات حل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔

عظیم باپ پر ناز کے ساتھ کہیں افلاس بھی شاکر صاحب کے بچوں ساتھ تا زندگی جڑا رہا تو آپ کے قلم سے سچائی کی طرح آپ کی ذندگیوں سے آسائشیں بھی خارج ہو سکتی ہیں، اور آپ سہہ نہ پائیں گے۔ کیوں کہ شاکر شجاع آبادی کے ہاں سب شاکر ہیں لیکن آپ عادی نہیں۔
ستم جب لوٹتے ہیں تو، ستم گر پر برستے ہیں
ستم جیسے عقابوں کو کھلی پرواز مت دینا
شاکر شجاع آبادی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).