میری ایک ایڈوانس تقریر


مرے عزیز ہم۔ وطنو، آپ سب میرے دوست ہیں۔ یہ فین وغیرہ تو سپر اسٹارز کے ہوتے ہیں، ہم تو اپنے ہیں۔ میں کوشش کروں گی کہ زیادہ لمبی بات نہ کروں کیونکہ ذرا کم گو سی ہوں۔ لیکن آپ کا اصرار ہے تو یہ لیجیے۔

مجھ سے اکثر لوگوں کو یہی گلہ ہوتا ہے کہ میں زیادہ نہیں لکھتی۔ سارا دن گھر پر ہی تو ہوتی ہوں۔ پر آسائش زندگی گزار رہی ہوں۔ کون سا کوئی گھر میں دوپٹے رنگنے ہوتے ہیں یا صبح سویرے چکی میں آٹا پیسنا ہوتا ہے۔ بچوں کی کل کل نہیں۔ مہمانوں کا گزر نہیں۔ پڑوسیوں سے بھی کوئی ایسی خاص راہ رسم نہیں۔ صبح شام ماں سے اسکائپ پر بات بھی نہیں کرتی۔

اچھا سوال ہے۔ سارا دن آخر کرتی کیا ہوں۔ کوئی لگی بندھی ماہانہ نوکری بھی نہیں۔ اپنا گھر ہے۔ جب جی چاہا سوئیں جاگیں۔ عیاشی ہے۔ جب دل کرے مال میں چکی جاؤ۔ سہیلیوں سے خوش گپیاں کرو۔ جب جی چاہے کھانا ڈیلیور کرا لو۔ سارا دن بستر پر پڑی رہو۔ نہ کوئی پوچھنے والا نہ پرکھنے والا۔

کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ واقعی زندگی اتنی پرکیف ہوتی جتنی فیس بک اور انسٹاگرام پر دکھتی ہے۔ کاش کہ واقعی میرا جب جی چاہتا وہی سب کرتی جو میرا جی چاہتا ہے۔ کاش کہ لکھنا اتنا ہی آسان ہوتا جتنا پڑھنے والے کو نظر آتا یے۔

وہ تحریر جو پڑھنے والا دو منٹ میں فارغ قرار دے دیتا ہے کاش کہ حقیقت میں بھی لکھنا اتنی ہی سہل ہوتی۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب میں نے قریبا ڈیڑھ سال ہر قسم کے لکھنے لکھانے سے بریک لیا تھا۔ کاش کہ لکھنے کے لئے ایک تحریک کی نہیں بلکہ صرف ایک قلم کی ضرورت پڑتی۔ کاش کہ میری تحریر میری تابع ہوتی۔ کاش کہ میں اس کے تابع نہ ہوتی۔ کاش کہ میں خود لکھ سکتی اور میری تحریر مجھ سے خود کو نہ لکھواتی۔ کاش کہ لکھنا اتنا ہی آسان ہوتا کہ جتنا دکھتا ہے۔

یہ چھے سو الفاظ جس کرب کی دین ہوتے ہیں کاش کہ وہ اتنا ہی مزاحیہ ہوتا کہ ہم لکھاری بھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ صاحب یہ تحریر خود کو لکھواتی ہے۔ ہم تو بس اس کے معمول ہیں۔ حکم ہوا تو قلم پکڑا اور وہ وہ لکھ گئے جو کبھی دیکھنے سننے میں بھی نہ آیا تھا۔

پبلک انٹرٹینمنٹ چاہتی ہے اور کسی وقفے کے بغیر چاہتی ہے۔ ہم بھی کیا کریں کہ معمول ان الفاظ اور جذبات کے ہیں، عوامی آشاؤں کے نہیں۔ معاف کیجئے گا۔
پاکستان زندہ باد

نوٹ: جیسا کہ ہمیں یقین کامل ہے کہ ایک دن ہم بڑے لکھاری بن جائیں گے (آپ کے اختلاف کو ہم بالکل خاطر میں نہ لائیں گے کہ ہمارے زائچے میں اس مستقبل کا خاص ذکر ہے) اس لئے ہم نے اپنی ایوارڈ کی تقریب کی یہ تقریر پہلے سے ہی لکھ کر رکھ لی ہے۔ تب ٹائم نہیں ہو گا۔ کوشش کریں گے کہ جیسے جیسے وقت ملے اس میں ترمیم بھی کرتے رہیں۔ جتنا بڑا رائٹر اتنی ہی لمبی تقریر۔ یہ آئیڈیا ہمیں کہاں سے آیا یہ نہیں بتا سکتے۔ رائٹر ہو یا وزیر اعظم بعد میں وقت نہیں ملتا۔ اس لیے پہلے سے ہی سب بندوبست کر رکھنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).