برصغیر میں تھیٹر کی تاریخ


\"humaڈرامہ، ناٹک، سوانگ یا تمثیل حقیقی زندگی کی نقل ہوتے ہیں۔انسان ہر زمانے میں بہروپ بھر کراور ناٹک یا سوانگ رچا کر یا عام الفاظ میں ڈرامے سے لطف اندوز ہوتا آیا ہے۔ البتہ اس بارے میں تاریخ کچھ نہیں بتاتی کہ پہلا ڈرامہ کب سٹیج کیا گیا اور تھیٹر کا آغاز کب ہوا۔ غالباً پتھر کے زمانے کے کسی قدیم انسان نے کسی رات آگ کے گرد بیٹھے ہوئے اپنے ساتھیوں کو ہاتھوں کے اشاروں اور اعضا کی جنبش سے اپنی قدیم ابتدائی طرز کی زبان میں اُس روز کے کسی شکار کی کہانی سنائی ہو گی۔ بہرحال تاریخ ہمیں یہ ضروربتاتی ہے کہ دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں، چاہے وہ رومی تہذیب ہو یا یونانی، چینی ، جاپانی یا افریقی، تھیٹر کسی نہ کسی صورت موجود رہا ہے۔ البتہ برصغیر پاک وہند میں تھیٹر کی ابتدائی شکل سنسکرت تھیٹر تھا۔ اس کا ظہور غالباً تیسری صدی قبل مسیح میں کسی وقت ہوا اور وہ غالباً چندرگپت موریہ کا زمانہ تھا۔ تب بادشاہوں کے زیر سرپرستی عموماً مذہبی داستانوں پر مبنی کھیل پیش کیے جاتے تھے جن کا مقصد تفریح اور تعلیم دونوں تھا۔ کالی داس کے لکھے گئے ڈرامے ”شکنتلا“ نے آنے والے زمانوں میں دیگر زبانو ں اور تہذیبوں کے ادیبوں کو بھی متاثر کیا۔ اس زمانے کے تھیٹر کے سب سے بڑے آثار بھرت منی کی ”نٹ شاستر“ کی صورت میں ملتے ہیں۔ اس میں بھرت منی نے تھیٹر کے اصول و قوانین بیان کیے۔ اداکاروں کے اوصاف کی تفصیل بتائی گئی، اداکار کا ظاہری حلیہ، اس کی تمکنت، اسے فن عروض، خطابت اور فنونِ لطیفہ پر عبور حاصل ہو۔ ہدایت کاری حتیٰ کہ سٹیج کی آرائش کے اصول تک وضع کیے گئے۔ ناٹک کا فن ہمہ گیر تھا۔ تمثیل کے لیے سکون اور توازن لازمی تھے۔ شدید المیے اور قتل و خون کے مناظر سے پرہیز کیا جاتا تھا تاکہ تماشائیوں کے ذہنی سکون میں خلل نہ آئے۔ تھیٹر ڈراموں میں رقص اور موسیقی کا استعمال ہوتا تھا۔ اداکار اپنے سر، آنکھوں، بھنوﺅں، بازوﺅں، ہاتھوں کے اشاروں سے زندگی کی کہانی سناتے تھے۔ ان اشاروں، چال، جھکاﺅ، حرکات کی اَن گنت اقسام تھیں جن کے ذریعے ساری کیفیات، احساسات اور خیالات بیان کیے جاتے تھے۔

\"Birjis-Qadr-e1458985425610\"

اس مذہبی مقدس تھیٹر کے متوازی ایک لوک تھیٹر بھی تھا، جسے بھانڈ کا نام دیا گیا۔ یہ سنسکرت لفظ ہے جس کے معنی ہیں، طربیہ تمثیل یا نقل۔ بادشاہ مختلف مواقع پر تفریح کے مقاصد کے لیے بھانڈ کی خدمات حاصل کیا کرتے تھے۔ کسان تھیٹر کی اس صنف کو اپنے کتھارسس کے لیے استعمال کرتے تھے۔ وہ مزاح اور طنز کے استعمال سے اپنے مصائب کا ذکر کرتے تھے۔ پندرھویں اور سولہویں صدی میں ان کا باقاعدہ ذکر نندرشی اور شیخ نور الدین ولی کی شاعری میں ملتا ہے، البتہ ان کے ارتقا کی تاریخ نامعلوم ہے کیوں کہ اس کا باقاعدہ ریکارڈ نہیں رکھا گیا۔ سر والٹرلارنس اور دیگر برٹش مصنفین کی کتابوں اور تحقیقوں میں بھی ان بھانڈ اور سٹریٹ تھیٹر کا ذکر ملتا ہے۔

جنوبی ایشیا کا روایتی تھیٹر قرونِ وسطیٰ کے یورپ کے تھیٹر سے مشابہ تھا جہاں ایک جانب مذہبی اساطیر کی تمثیل ہوئی تو دوسری جانب بھانڈ، درباری مسخروں اور نقالوں کی روایت اس کے شانہ بہ شانہ چلی۔ عام سٹریٹ تھیٹر نوٹنکی میں لوک کہانیاں بیان کی جاتیں۔ اردو تھیٹر نے یہ سب روایات ورثے میں حاصل کیں۔ حتیٰ کہ یہ روایات آج تک جاری ہیں۔

\"vajidalishah\"1855ء میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے اپنے محل کے صحن میں آغا حسن امانت کا تحریر شدہ ڈرامہ ”اندر سبھا“ سٹیج کیا۔ وہ پری جمال اور شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی منظوم ڈرامہ تھا۔ خود واجد علی شاہ کتھک رقص اور کتھا کلی کے ماہر تھے۔ واجد علی شاہ نے اس ضمن میں کئی تجربات کیے۔ان ڈراموں میں بھڑکیلے میک اپ اور زرق برق کاسٹیوم استعمال ہوتے تھے، پس منظر میں موسیقی دی جاتی تھی۔ بعد ازاں اردو تھیٹر کی اس روایت نے بتدریج پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی۔ تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر پارسی تھیٹر کا راج رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ برٹش راج کے دَور میں تھیٹر داستانوں اور اساطیر سے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کے آلام کا عکاس بنا۔ آج اردو کو ایک مسلمان زبان سمجھا جاتا ہے، اس وقت یہ تخصیص نہ تھی۔پارسی تھیٹر میں اپنے نام کے برعکس پارسی، غیر پارسی، مسلمان، عیسائی اور ہندو سب شامل تھے جنہوں نے ڈرامے تحریر کیے، موسیقی دی اور گیت لکھے۔ اس تھیٹر نے اعلیٰ اور کمتر فن کے درمیان سرحد کو مٹا دیا۔ انیسویں صدی میںیورپ کی ثقافتی مداخلت بھی برصغیر کے تھیٹر اور ڈرامے پر اثر انداز رہی۔

پارسی تھیٹر کے ساتھ برصغیر میں گجراتی، بنگالی اور مراٹھی تھیٹر جاری رہے۔ بنگالی کے نامور شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار رابندرناتھ ٹیگور نے 1913ءمیں نوبل انعام حاصل کیا۔ پارسی تھیٹر نے آغا حشر کاشمیری (1879-1945ئ) کی صورت عروج حاصل کیا۔ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن عالمی ادب سے شناسا تھے۔انہوں نے منظوم ڈرامے لکھے جن میں سے بیشتر فارسی، انگریزی ادب اور ہندو دیومالا سے متاثر تھے۔ انہوں نے سماجی مسائل کو بھی ڈراموں کا موضوع بنایا۔ وہ دیگر زبانوں کے اعلیٰ ادب کو منفرد انداز میں ماخوذ کرتے اور شاعرانہ منظوم ڈائیلاگ تحریر کرتے تھے۔ 1920ءمیں انہوں نے اپنے مقبول ڈرامے ”بلوامنگل“ اور ”نیک پروین“ پیش کیے۔ یہ پارسی تھیٹر کا عروج تھا۔ برصغیر کے تمام شہروں میں پارسی تھیٹر ہال بنے۔ بعد ازاں بمبئی میں فلم انڈسٹری کے قیام پر پارسی تھیٹر کے بیشتر ہدایت کاروں، اداکاروں اور موسیقاروں نے اُدھر کا رخ کیا۔ آغا حشر نے بھی لاہور میں فلم کمپنی کھول لی۔ مقبول ترین تھیٹر ڈراموں پر مبنی فلمیں بننے لگیں۔ تقریباً نصف صدی تک سنیما پر پارسی تھیٹر کے اثرات رہے۔ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں \"dailytimes_clip_image001\"پارسی تھیٹر کے زوال پر بیشتر تھیٹر ہال سنیما ہالوں میں تبدیل ہو نے لگے۔

بیسویں صدی کے وسط میں ڈرامہ نگاری کے بڑے نام امتیاز علی تاج، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، رفیع پیر اور اپندرناتھ اشک ہیں۔ 1932ءمیں امتیاز علی تاج کا تحریر کردہ ڈرامہ ”انارکلی“ اردو ڈرامے میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ڈرامے میں انہوں نے ایک عوامی لوک کہانی سسی پنوں کو تاریخ کے حقیقی کرداروں شہنشاہ اکبر اور جہانگیر کے امتزاج کے ساتھ پیش کیا۔ انہیں کردار نگاری میں کمال حاصل تھا۔ گورنمنٹ کالج کے زمانے میں امتیاز علی تاج انگریزی ڈراموں کو اردو ترجمہ کرکے سٹیج کرتے رہے۔ ”گونگی جورو“ اور ان کے کئی دیگر ڈرامے آج تک سٹیج کیے جاتے ہیں۔ تھیٹر پر تحقیق کے بعد امتیاز علی تاج نے اردو کلاسیکی ڈرامے کی تاریخ مرتب کی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو تھیٹر نے پارسی سے زیادہ ارتقا اور عروج حاصل کیا۔ اگرچہ 1850ءسے قبل اردو ڈرامے کو نظر انداز کیا جاتا رہا اور اردو کے سکالرز اور ادیبوں نے ڈرامے کی صنف کو ادب کی سطح سے کمتر جانا لیکن پھر یہ اپنے نظریات اور بیانیے کی بنیاد پر ابھر \"0102page15a\"کر سامنے آیا۔

برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے کچھ عرصے بعد تک، 1947ء میں تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت، سکھوں کے مظالم اور مہاجرین کے مسائل کے موضوعات پر ڈرامے پیش کیے جاتے رہے۔ اس ضمن میں منٹو کے تحریر کردہ اور ان سے ماخوذ ڈرامے آج تک سٹیج کیے جاتے ہیں۔ اسی زمانے میں خواجہ معین الدین نے ”لال قلعے سے لالو کھیت تک“، ”تعلیم بالغاں“ اور ”مرزا غالب بندر روڈ پر“ جیسے لازوال ڈرامے سٹیج کے لیے تحریر کیے۔

پاکستان جنوبی ایشیا کا حصہ ہے، اس کی تاریخ و ثقافت پر انگریز نوآبادیاتی دَور کے اثرات ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اسلامی ریاست بننے کا خواہاں بھی ہے، ان تینوں جہتوں اور بدلتی ہوئی سماجی اور سیاسی تاریخ کے ساتھ یہ اب تک اپنی اصل ثقافتی تلاش میں سرگرداں رہاہے، جس کا اثر اس کے تھیٹر، ڈرامہ اور دوسری اصنافِ فن پر بھی رہا ہے۔ تقسیم برصغیر کے بعد بائیں بازو کی تحریک نے 1960ءکے نظریات کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں ایک متحرک طلبا تحریک نے ایوب حکومت کا خاتمہ کیا۔ آنے والے برسوں میں پاکستان دو لخت ہونے کے سانحے سے گزرا۔ پھر جمہوریت کا زمانہ آیا جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ ڈرائنگ روم کلچر کا حصہ تھا نہ ہی پارسی تھیٹر کی باقیات، یہ عوامی کلچر تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کیے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کیے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔ اسی زمانے میں سرمد صہبائی اور نجم حسین سید نے ہم عصر تھیٹر کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کے تھیٹر پر پہلی بار اوریجنل ڈرامے اور حالات سے مطابقت رکھنے والے کھیل پیش کیے گئے۔ کمال احمد رضوی بھی اس ضمن میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔

\"482893-FaizanPeerzadaphotofile-1356122217-315-640x480\"1977ء میں بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور جنرل ضیاالحق نے مارشل لاء لگا کر پاکستانی تاریخ کے تاریک ترین دَور کا آغاز کیا۔ ہر قسم کی ثقافتی اور تھیٹر سرگرمی حتیٰ کہ سٹوڈنٹ تھیٹر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ سیاسی کارکنوں کو ہی نہیں ادیبوں اور شاعروں کو بھی قید، رُوپوشی اور جلاوطنی کے مصائب برداشت کرنے پڑے۔ اور ایسا پہلی بار نہ ہوا تھا کہ علما، فضلا، شعرا اور اہل قلم کے عمامے ان کی گردنوں میں ڈال کر فاتح وقت نے انہیں گھسیٹا ہو۔ البتہ ذومعنی بات یہ ہے کہ بھٹو صاحب کے بنائے گئے ادارے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں ڈرامے کمرشل مقاصد کے تحت جاری رہے۔ یہ برجستہ ڈائیلاگ پر مبنی کسی ریہرسل کے بغیر تھیٹر ڈرامے تھے۔ کمرشل سٹیج کے ان ڈراموں کو سنجیدہ تھیٹر نے حقارت سے دیکھا لیکن ان ڈراموں نے عوامی توجہ حاصل کی۔ اگرچہ اس کے ناظرین میں عام تاجر طبقہ ہی شامل تھا۔ یہ کامیڈی ڈرامے تھے جنہوں نے امان اللہ، عمر شریف، سہیل احمد جیسے فنکاروں کی برجستگی پر داد اور مقبولیت حاصل کی۔ ان میں بھانڈ اور جگت کی اسی قدیم لوک روایت کا استعمال کیا گیا، جو صدیوں سے کتھارسس کے لیے اس خطے میں استعمال ہوتی آئی ہے۔ البتہ آنے والے برسوں میں جگت کو ”ٹھٹھے بازی“ کی جگہ اسی طرح لے لینی تھی جیسا کہ سنیما میں جمالیاتی ذوق کی جگہ ”گنڈاسا“ اور ”بڑھک“ لے چکے تھے اور یہ کسے معلوم تھا کہ اسی ٹھٹھے بازی اور بڑھک کو آنے والے برسوں میں قومی مزاج کا ایک حصہ بن جانا تھا۔

اس تھیٹر نے مرتے ہوئے سنیما کی جگہ لی اور کمرشل ازم کے باعث سنیما ہال، تھیٹر ہال بننے لگے، بالکل اسی طرح جیسے برسوں قبل پارسی تھیٹر کی جگہ سنیما نے لے لی تھی۔ یہ کمرشل تھیٹر اب گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان اور ساہیوال میں بھی فروغ پا چکا ہے۔ البتہ بے \"567345d576ace\"ہودگی، کمرشل ازم اور پروڈیوسر کی دی گئی لائنز پر کام کرنے کی مجبوری کے باعث یہ پنجابی تھیٹر اب زوال کا شکار ہے۔

کمرشل تھیٹر سے اختلاف رکھنے والے دوسرے تھیٹر فنکاروں نے 1980ء کی دہائی میں ایک متوازی راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے گھروں اور سڑکوں پر تھیٹر ڈرامے سٹیج کرنے شروع کیے اور ان کے ذریعے سیاسی اور تھیٹریکل انتظامیہ دونوں اور آمریت کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں اجوکا تھیٹر ایک ایسا نمایاں گروپ تھا جس نے اپنا پہلا کھیل ”جلوس“ 1984ء میں ایک گھر کے لان میں سٹیج کیا۔ ابتدائی طور پر یہ گروپ یونیورسٹی طلبا پر مشتمل تھا، جس کے ڈراموں کے موضوعات سماجی تبدیلی اور انسانی حقوق ہیں۔ ٹی وی اداکارہ اور ہدایت کارہ مدیحہ گوہر کی سربراہی میں اجوکا اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اسّی ہی کی دہائی میں ایک دوسرے تھیڑ لوک رہس نے پنجابی زبان کا احیا کیا۔ اس نے پنجابی لوک روایات سے متاثر کھیل سٹریٹ تھیٹر کی صورت میں پیش کرنے شروع کیے۔ اس میں بھی شروع میں صرف طلبا شامل تھے۔اب اس کا کینوس وسیع ہے اور یہ نہ صرف غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کرتا ہے بلکہ سماجی موضوعات، جبر و استبداد کے خلاف اور انسانی حقوق کے حصول کی جنگ سے متعلق بھی ڈرامے پیش کرتا آ رہا ہے۔ یہ گروپ نہ صرف پرفارم کرتا ہے بلکہ دوسروں کو تربیت بھی دیتا ہے۔

\"BCDG1980\"پاکستان کے تھیٹر گروپس میں سے ایک رفیع پیر، نظریاتی پابندیوں سے آزاد گروپ ہے جس نے این جی او فنڈنگ کی مزاحمت کی اور ملٹی نیشنل فنڈز کی جانب رخ کیا۔ اس کی بنیاد 1974ء میں سلمان پیرزادہ اور ان کے دیگر بھائیوں نے رکھی۔ ( رفیع پیر برصغیر میں جدید اردو پنجابی ڈرامہ کے بانیوں میں سے ایک ہیں)۔ اس گروپ نے ہم عصر حالات کے مطابق اوریجنل ڈرامے کی تخلیق کی کوشش کی اور پاکستان میں پتلی تماشا بھی متعارف کروایا۔ یہ گروپ تھیٹر، موسیقی اورپتلی تماشے کے فیسٹیولز کا انعقاد بھی کرواتا ہے جہاں لوک اور شہری فنکار دونوں جمع کیے جاتے ہیں۔

1980ءکی ہی دہائی میں کراچی میں دستک اور تحریک نسواں نے بھی فوجی آمریت کے خلاف ڈرامے پیش کیے۔ چوں کہ کوئی باضابطہ فورم موجود نہ تھا اس لیے 1980ءکی تمام تھیٹر سرگرمیاں انفرادی کمٹمنٹ پر منحصر تھیں، جس کا جذبہ آج کے تھیٹر میں بھی موجود ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سماجی، سیاسی، معاشی بلکہ ہر پابندی سے آزاد کالج یونیورسٹی کے سٹیج ڈرامے ہر زمانے میں موجود رہے ہیں جو نئے ٹیلنٹ کی نرسریاں بھی ہیں۔ ان میں پنجاب یونیورسٹی، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور گورنمنٹ کالج قابل ذکر ہیں۔ یہ یونیورسٹیاں ماضی میں جماعت اسلامی کی نرسریاں رہی ہیں جہاں تھیٹر سرگرمیاں محدود تھیں لیکن بہرحال انہوں نے اپنی بقا کے لیے جدوجہد کی۔

\"image7\"پرائیویٹ پروڈکشن کمپنیوں نے تھیٹر کو پروفیشنل اور کمرشل رخ دیا ہے تاکہ اسے پاکستانی ثقافت میں معمول کا حصہ بنایا جا سکے۔ پاکستان میں تھیٹر کے تربیتی اداروں کی بھی کمی ہے۔ واحد پرفارمنگ آرٹس اکیڈمی NAPA ہے جو کراچی میں ضیا محی الدین کی سربراہی میں کام کر رہی ہے۔ اس کا مقصد ملک بھر کے ٹیلنٹ کو سامنے لانا اور فروغ دینا ہے۔ یہاں تھیٹر ڈرامہ کے ساتھ ساتھ موسیقی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments