پھولوں والی پہاڑی اور کشمیر کی یادیں


میری ایک آبائی جائیداد ہے مقبوضہ کشمیر میں جو غصب کر لی ہے ہندوستان نے، کشمیریوں کے حقوق کی مانند۔ میرا اس پر دعویٰ ہے کہ وہ میرے ابا جی کے ہاتھوں تخلیق ہوئی تھی۔ وہ پھولوں کی ایک پہاڑی ہے۔ جموں شہر سے پرے جہاں سے ان زمانوں میں درہ بانہال کی چڑھائی شروع ہوتی تھی۔ اس کے آغاز میں ایک غیر معروف گاؤں پر اس پہاڑی کا گل رنگ سایہ ہے اور وہ مجھے ان دنوں بھی بلاتی ہے کہ آؤ دیکھو تو سہی کہ تمہارے باپ کے ہاتھوں سے کاشت کردہ پھولوں کی پتیاں پھر سے خون سے نچڑنے لگی ہیں۔ ان پر راتوں کو شبنم نہیں کشمیریوں کے خون ناحق کی بوندیں گرتی ہیں۔ اور میں بے بس ہوں اس پار جا نہیں سکتا، اگر جا سکتا تو میں ان پھولوں کی آنکھوں میں سے بھی جو خون کے آنسو گرتے ہیں انہیں پونچھتا۔ کچھ تو تسلی دیتا کہ میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن۔ اگرچہ اس کا امکان کم ہے کہ جُرم ضعیفی کی سزا ہے جو ہم بھگت رہے ہیں۔ دراصل تقسیم سے پیشتر سرینگر میں آبا جی نے پھولوں کے بیج تیار کرنے کے لیے ایک وسیع فارم قائم کر رکھا تھا اور وہ اکثر گرمیوں کے موسم سرینگر میں گزارتے جہاں ایک بہت ایماندار ہندو منیجر سال بھر اس فارم کی دیکھ بھال کرتا۔ فارم پر کام کرنے والے مزدوروں کے کام اور تنخواہوں کا حساب رکھتا میں کبھی اباجی کے ساتھ تو سرینگر نہ گیا، البتہ ایک بار جب میں چھ برس کا تھا ماموں جان مجھے اپنے ساتھ کشمیر لے گئے۔ یعنی آج سے تقریباً تہتر برس پیشتر اور اس کے باوجود سرینگر کے کچھ منظر اپنے پورے رنگوں اور موسموں اور ہواؤں کی جنت نظیر ٹھنڈک کے ساتھ میرے ذہن پر نقش ہیں۔ اکثر گمان ہوتا ہے کہ یہ منظر میں نے اس زندگی میں نہیں کسی اور بیت چکی حیات میں دیکھے تھے۔

جھیل ڈل کے کناروں پر تختہ در تختہ شالیمار باغ ابھر رہا ہے۔ فوارے چل رہے ہیں اور پھولوں میں زعفران کے پھولوں کی مہک ہے۔

ہم ایک شکار ے میں سوار جھیل ڈل کے عین کناروں پر ایستادہ وہاں کے مہاراجہ کے عالی شان محل کے قریب سے گزر رہے ہیں۔ جھیل میں کنول کے پھول کھلے ہوئے ہیں اور ان کے پتے تھالوں کی مانند اتنے بڑے ہیں کہ ان پر ایک ناتواں سا مہاتما بدھ اگر بیٹھ جائے گیان دھیان کے لیے تو وہ پتے اس کا بوجھ سہار جائیں، اتنے بڑے ہیں۔ اور میں شکارے کی نوک پر بیٹھا جھک کر جھیل کے خنک پانیوں سے چھینٹے اڑاتا ہوں اور پھر ایک سفید نہیں گلابی رنگ کے ایک پگڑی کی جسامت جتنے کنول پر میرا دل آ جاتا ہے میں اس کے ڈنٹھل کو مٹھی میں بھینچ لیتا ہوں توڑنے کے لیے اور وہ ٹوٹتا نہیں۔ میرا خیال تھا کہ یہ کنول کے پھول جھیل ڈل کی سطح پر یونہی سجاوٹ کے لیے رکھ دیے گئے ہیں۔ اور پھر مجھے ایک شدید دھچکا لگتا ہے اور میں تقریباً جھیل میں گرنے لگتا ہوں۔ میں کہاں جانتا تھا کہ کنول کے پھول یونہی نہیں تیرتے پھرتے ان کے ڈنٹھلوں کی جڑیں جھیل کی گہرائی میں نہایت مضبوطی سے پھیلی ہوتی ہیں۔ چنانچہ جب میں نے اس کنول کو گرفت میں لیا تو اس کا ڈنٹھل ہولے ہولے تن گیا اور شکارا آگے بڑھ رہا تھا اس لیے مجھے جھٹکا لگا اور میں جھیل میں غرق ہونے سے بال بال بچا کہ ماموں جان قبلہ تو شکارے کی چھتری تلے ملتان کے آم کھانے میں مشغول تھے۔ انہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ ان کے بھانجا جی غرقاب ہونے کو تھے۔ اچھا آم مجھے بھی ملے۔ وہ چھوٹے چھوٹے چوسنے والے بہت میٹھے آم تھے تو جب میں ایک آم کو چوس کر اس کی گھٹلی ڈل کے شفاف پانیوں میں پھینکتا تو بے شمار سرخ رنگ کی مچھلیاں اس گھٹلی کے تعاقب میں چلی آتیں اسے خوب خوب جھنجھوڑتیں۔ مجھے یہ مچھلی تماشا بہت پسند آیا آج بھی گرمیوں کے موسموں میں جب کبھی ملتان کے آم نصیب ہوتے ہیں تو مجھے سرینگر کی ڈل جھیل یاد آتی ہے۔ گھٹلی کسی برتن میں پھینکتا ہوں تو لگتا ہے کہ کشمیر کی سرخ مچھلیاں کہیں نہ کہیں سے نمودار ہوجائیں گی۔ البتہ ان دنوں وہ مچھلیاں کچھ زیادہ ہی سرخ ہو چلی ہیں لگتا ہے کہ خون سے نہا کر نکلیں ہیں۔

ایک دن ہم نے اپنے پھولوں والے فارم پر گزارا۔ وہاں ڈہلیا کے مختلف رنگوں کے پھولوں کا ایک کھیت تھا جو ایک بچے کو تو لگتا تھا کہ وہ کائنات کے آخری سرے تک چلا جاتا ہے اتنا بڑا دکھائی دیتا تھا۔ فارم کے ہندو منیجر نے اپنے مالک کے بچے کو خوش کرنے کے لیے ایک شعبدہ دکھایا۔ وہ ڈہلیا کے تین پھول توڑ کر لایا اور وہ بمشکل ایک گلدان میں سمائے وہ اتنے بڑے تھے واقعی گوبھی کے پھولوں سے بھی بڑے تھے۔

ہم جھیل ڈل کے کنارے پر واقع’’پنجاب مسلم ہوٹل‘‘ میں ٹھہرے جس کا پنجابی مالک اباجی کا دوست تھا۔ ہوٹل ان زمانوں کے حساب سے بہت ماڈرن تھا کہ اس کے ویٹر انگریزی بولتے تھے اور کھانے میں شامی کباب شامل ہوتے تھے اگرچہ ہوٹل کے مالک داخلے کے دروازے کے ساتھ ایک تھڑے پر براجمان کشمیر کی سب سے عمدہ اور جھاگدار لسی بھی رڑھکا کرتے تھے۔۔

میں نے وہ مقام بھی دیکھا جہاں دریائے جہلم اور جھیل ڈل کی ملاقات ہوتی تھی اور میں یقین نہ کر سکا کہ اس میں گرتے ہوئے پانیوں کی آبشاریں متعدد مچھلیاں بہاؤ کی مخالف سمت میں آبشار کے پانیوں میں پھڑکتی چڑھتی جاتی تھیں۔ میرا وعدہ ہے کہ میں آپ کو پھولوں والی پہاڑی کا قصہ دوبارہ ضرور سناؤں گا کہ ایک بار میں اسے ایک افسانے میں سنا چکا۔ محض ایک دو اور منظر اس جنت کے بے نظیر کے جنت گم گشتہ کے۔

کوئی نہایت خوابناک سی پہاڑی قصہ تھا چنن واڑی کا، جسے چندن واڑی بھی کہا جاتا تھا۔ ابا جی کے کوئی کاروباری شریک اور دوست ایک لالہ جی تھے جن کے ہم مہمان ہوئے۔ دھند آلود پہاڑوں کی گود میں ان کا لکڑی سے بنا ہوا ایک شاندار کشمیری طرز کا قدیم گھر تھا جس کے بام و در گل بوٹوں سے سجے ہوتے تھے اور وہ کیا ہی فراخ دل اور ہنس مکھ میزبان تھے۔ گھر کی بالکونیوں میں ہمیشہ دھند آوارہ پھرتی۔ ماموں جان نے منع بھی کیا پر میں پھر بھی گھر سے باہر اخروٹ کے ایک دو منزلہ گھنے درخت پر بندروں کی مانند چڑھ کر کچے اخروٹ چھیل چھیل کر ان کا سفید گودا کھاتا رہتا اور پھر پکڑا گیا۔ میں انکاری ہو گیا کہ نہیں ماموں جان میں نے کچے اخروٹ نہیں کھائے اور جب ایک جھانبڑ رسید کیا گیا تو مان گیا کہ میرے ہونٹ رنگے ہوئے تھے ۔ ان پر اخروٹ کے درخت کی چھال کا ’’سک‘‘ رنگین ہوتا تھا جی ہاں وہی سک جو پنجاب کی مٹیاریں اپنے ہونٹ رنگنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ’’منڈا موہ لیا تویتاں والا تے دمڑی دا سک مل کے‘‘۔کہانی طوالت اختیار کرتی جاتی ہے تو کوشش کرتا ہوں کہ مختصر مختصر ہو جائے۔ پہلگام کی وادی شاید یہ گل مرگ تھا جہاں ایک طوفانی ندی کے اوپر برف کا ایک پل تھا اور ہمارے گھوڑے اس پر سے گزرے۔

گل مرگ کے ایک بلند جنگل میں ایک بہت بڑا عمیق گڑھا تھا اس کے کنارے ایک بوڑھا کشمیری اپنی داستان سناتا تھا کہ کبھی یہاں میرا گھر ہوا کرتا تھا جہاں میں اپنے بال بچوں سمیت رہتا تھا پھر ایک شب کچھ گڑگڑاہٹ سی ہوئی۔ میری آنکھ کھل گئی اور مجھے محسوس ہوا کہ میرا گھر زمین میں دھنستا چلا جاتا ہے ڈوب رہا ہے تو میں نے ہراساں ہو کر کھڑکی سے باہر چھلانگ لگا دی اور اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میرا گھر زمین میں ڈوبتا جاتا ہے یہاں تک کہ پاتال میں کہیں دفن ہو گیا ہے اور میرے بال بچے بھی اس میں دفن ہو گئے ہیں۔ اور پھر کوئی وادی تھی جہاں ہم گھوڑوں پر سوار گئے اور وہ پھولوں سے بھری ہوئی تھی اور ان پر دھند تیرتی تھی ہمارے گھوڑے گھاس کے لیے ترس گئے اور ایک انجانی مہک تھی جو دھند میں گھلتی گھوڑوں کو بھی بے خود کرتی تھی۔ یہ آج سے تہتر برس پیشتر کی کشمیر کتھا ہے جو میں نے بیان کی۔

وہ کشمیر مجھے یاد آتا رہتا ہے کبھی خواب کی صورت اور کبھی ایک سراب کی صورت اور کبھی بھول جاتا ہے لیکن مجھے پھلوں والی پہاڑی کبھی نہیں بھولتی کہ اپنے باپ کا چھوڑا ہوا ورثہ کسے بھولتا ہے۔

اور ان دنوں وہ ایک مرتبہ پھر میرے حواس پر سوار ہو گئی ہے۔ اگرچہ اس پر کھلے ہزاروں پھول مختلف رنگوں کے ہیں پر ان دنوں وہ سب کے سب خون آلود ہو کر سرخ ہو گئے ہیں۔ ان کی پنکھڑیاں پیلٹ گنوں کے چھروں سے چھیدی جا چکی ہیں اور وہ اندھی ہو گئی ہیں۔ دریائے جہلم کے پانیوں میں کشمیری پھولوں کے لاشے تیرتے پھرتے ہیں۔

ہر چھ سات ماہ کے بعد خون کی یہ برسات ہوتی رہتی ہے ہر اس بار معاملہ کچھ جداگانہ ہو گیا ہے پھولوں والی پہاڑی کے پھولوں پر شبنم کی بجائے جو خون اترتا ہے وہ صرف کشمیریوں کا نہیں ہوتا۔ قندوز کے سینکڑوں قرآن پاک پر جھومتے بچوں کا بھی ہے۔ درجنوں فلسطینیوں کا بھی ہے اور یہ سب تاریک راہوں میں مارے گئے۔

یہ پھولوں والی پہاڑی عجب خون آلود پہاڑی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar