لڑکی، ڈگری، شادی اور طعنے


آپ کی بیٹی نوکری کرتی ہے؟ کیا نوکری ہے اس کی؟ گھر کب آتی ہے؟ دیر تو ہوجایا کرتی ہوگی؟ گھر کیسے آتی جاتی ہے؟ تنخواہ کتنی ہے؟ آپ کو تو بڑی آسانی ہوگی اس کی نوکری سے، آخر کو گھر جو چل رہا ہے۔

یہ وہ تمام جملے ہیں جو کوئی بھی، کسی بھی گھر کے مکینوں کو کہہ کر وہ آگ لگا سکتا ہے جو اس وقت فیس بک کی جانب سے لوگوں کے ڈیٹا کو عام کرنے اور ان کی پرائیویسی کو بیچنے پر پوری دنیا میں لگی ہوئی ہے۔ اب امریکی سینیٹرز کے سامنے فیس بک بنانے والے اور اربوں ڈالر کمانے والے مارک زکربرگ بھی اگر مگر، ہاں، وہ، اچھا جیسے جملے ادا کر کے کہیں ترس سمیٹتے تو کہیں تنقید سن رہے ہیں۔ لیکن یہ اگر، مگر، ہاں، اچھا گھر والے سننے کے بعد اپنی بیٹی کو تم یہ، تم وہ، ناک کٹ رہی ہے، بدنامی ہورہی ہے، آخر کس کس کی سنیں؟ جیسے جملوں سے تواضع کرکے اپنے کلیجے کی آگ کو ٹھنڈا کر لیتے ہیں۔ وقت گزر جاتا ہے پھر کوئی آتا ہے، یہی کچھ پھر سنا کر نکل جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ جو لوگ دوسروں کی بیٹیوں کو کمانے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہی دوسری جانب اس گھر کے لوگوں کو مشورہ بھی دیتے ہیںکہ ان کے پاس ان کی بیٹی کے لئے جس کی انہیں فکر نہیں، بہت اچھے رشتے ہیں اور پھر یہ جتاتے بھی ہیں کہ لڑکے والو ں کو لڑکی وہ ہی چاہیے جو نوکری کرے۔ اب یہ بحث کہ جناب آپ کی لڑکی باہر جاتی ہی کیوں ہے؟ کیا ضرورت ہے اسے کمانے کی؟ یہ علیحدہ بحث ہے لیکن مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ جس منافقت کی سطح پر جا پہنچا ہے اس سیڑھی پر چڑھنے کا تو راستہ ہے لیکن اترنے کا نہیں۔ اس کیوجہ ہمارے اردگرد کا ماحول اور وہ باتیں بھی ہیں جس کو سن سن کر ہم حفظ کر چکے ہیں ان میں ایک بات کہ کیا ضرورت ہے؟ اور دوسرا لوگ کیا کہیں گے؟ شامل ہے۔

”آخر ضرورت ہی کیا ہے“ سے میں روشناس 2006 میں تب ہوئی جب بی اے آنرز میں پڑھنے والی ہماری ایک ساتھی جو پہلے سیمسٹر میں اعلی کارکردگی دکھانے کے بعد اساتذہ کی نظر میں سب سے سنجیدہ طالبہ کے روپ میں سامنے آئی تھی۔ ایک روز یونیورسٹی آئی اور اس نے بتایا کہ اس کی منگنی ہوگئی ہے اور وہ اگلے دو ماہ بعد میاں کو پیاری ہوجائے گی۔ ہم نے معصومیت میں پہلا سوال کیا اور پڑھائی کا کیا ہوگا؟ تو جواب آیا کہ جو زیادہ ضروری ہے وہ کرنے جارہی ہوں۔ ڈیپارٹمنٹ کی چئیرپرسن تک جب خبر پہنچی تو انھوں نے اس طالبہ کو مشورہ دیا کہ وہ شادی کے بعد بھی یونیورسٹی آتی رہے اور کم سے کم بی اے کی ڈگری لے لے۔ لیکن طالبہ کا جواب تھا کہ میری والدہ نے سمجھایا ہے کہ رشتہ بہت بہترین ہے لڑکا بہت پڑھا لکھا ہے اور میں نے کونسا پڑھ لکھ کر کوئی نوکری کرنی ہے تو اس کی ضرورت نہیں۔ پروفیسر صاحبہ خاموش ہوگئیں اور لڑکی کی شادی ہوگئی۔

جب ہم بیچلز کی ڈگریاں لے رہے تھے بدقسمتی سے اس لڑکی کی طلاق کو ڈیڑھ سال مکمل ہوچکا تھا۔ جب ہماری ٹیچر کو اس بات کی خبر ہوئی تو انھوں نے پہلی بار ہم سے اپنا ذاتی تجربہ کلاس میں شئیر کیا کہ شادی کے چند سال بعد وہ اپنے تین سالہ بیٹے کو لے کر جب والدین کے گھر ایک ناکام شادی کا زخم لے کر واپس لوٹیں تو ان کے پاس سوائے ایک ڈگری کے کچھ بھی نہ تھا۔ انھوں نے پڑھانا شروع کیا اور مزید پڑھنے کا بھی ارادہ کرلیا۔ مستقل مزاجی اور انتھک محنت سے وہ پروفیسر کے درجے پر پہنچ گئیں ان کے شادی کے تلخ تجرنے نے ان کے والدین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ دوسری بیٹیوں کو بھی آگے پڑھانا بہتر ہوگا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی دوسری بیٹی جو شادی نہ کرسکی آج وہ بھی ایک نجی یونیورسٹی میں ایڈمن میں کام کر رہی ہے اور یہ دونوں بہنیں کسی پر بوجھ نہیں۔

لوگ کیا کہیں گے؟ سے میرا تعارف 2010 میں تب ہوا جب تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد میں نے اپنے والد سے درخواست کی میں نوکری کرنا چاہتی ہوں۔ جواب ملا کہ بیٹا لوگ کیا کہیں گے؟ میں نے ان کے سامنے کچھ مثالیں رکھیں جن میں میری ایک چئیرپرسن کی بھی تھی اور دوست کی بھی، ٹھنڈے دل و دماغ سے میری بات سننے کے بعد انھوں نے اجازت دی اور کہا مجھے تمہاری صلاحیتوں پر بھروسہ ہے جب تک کرسکتی ہو کرو۔ میں نے میگزین میں لکھنا شروع کیا تو میرے والد بہت خوشی سے میرے لکھے مضامین پڑھا کرتے تھے اور کبھی کبھی کوئی آئیڈیا بھی دے دیتے۔ کبھی جب زیادہ تھک کر آتی تو مذاقاً کہتے، چھوڑ دو نوکری اتنا تھک جاتی ہو شوق اب پورا ہوگیا ہوگا۔

لیکن میں جانتی ہوں کہ میرے شوق کی تکمیل میں میرے گھر والوں نے کیا کیا، اور کہاں کہاں سے سوالات کے نشتر اپنے سینے میں نہیں اتارے۔ اب بھی اگر کوئی زہر میں ڈوبا تیر کافی دنوں تک نہ آئے تو زندگی بے مزہ سی لگنے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ میں براہ راست بھی ان سوالات کا سامنا کرتی ہوں لیکن میں نے اپنے والد کی کہی ایک بات ذہن میں بٹھا لی تھی کہ جب تک کرسکتی ہو کرو لیکن یہ تب ہی کرسکتی ہو جب یہ سوچ لو کہ دنیا سے نہیں لڑنا کیونکہ ان کا کام صرف روکنا اور اذیت دینا ہے اور ایسے لوگوں سے جنگ کا کوئی فائدہ نہیں جس روز ان سے جنگ کرنے میں لگ گئی تم ہمت ہارنا شروع کردو گی۔

کچھ عرصہ قبل مجھے میری ایک دوست نے بہت بجھے ہوئے دل سے بتایا کہ ان کی امی سے بہت عرصہ ہوا پارک جاکر واک کرنا چھوڑ دی، وہ ذیابیطس کی مریضہ ہیں ان کے لئے چہل قدمی معالج نے ضروری قرار دی تھی لیکن انھیں وہاں پر آنے والی خواتین کی جانب سے مختلف سوالات کا سامنا تھا کہ آپ کی چار بیٹیاں ہیں اب تک ایک ہی کی شادی کیوں ہوئی؟ کہیں آپ کی بیٹیاں نوکری تو نہیں کرتیں؟ کیونکہ ان ہی کو کوئی پسند نہیں آتا، تو کسی نے یہ بھی کہا کہ ہائے اللہ بیٹیاں ڈگریوں کا انبار لئے بیٹھیں ہیں کہیں جاب ہی کرلیں آج کل تو بہت ضروری ہے کہ سب کام کریں کچھ نہیں تو لڑکیاں بچت کر کے اپنے لئے ہی کچھ جوڑ لیں گی۔ اب متضاد باتوں کا اثر یہ ہوا کہ آنٹی نے پارک جانا چھوڑا اور ٹریڈمل پر تیز تیز چہل قدمی شروع کردی۔ وقت گزرتا جارہا ہے اور بیٹیوں سے عداوت اور سختی بھی بڑھتی جارہی ہے۔

میری دوست نے شکوہ کیا کہ اب اگر کسی گھرانے کو ہماری واجبی سے شکل و صورت نہیں بھاتی تو ہم کیا کریں کچھ رشتے تو ایسے آتے ہیں جو طعنہ تک دے جاتے ہیں کہ آرٹس میں پڑھا ہے کوئی پروفیشنل ڈگری کیو ں نہیں لی؟ ایک بہن جو انجنئیر ہے اس کو ابو نے لوگوں کے ڈر سے کہ بیٹی سے کمائی کروا رہے ہیں یہ طعنہ نہ مل جائے نوکری کرنے کی اجازت نہیں دی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم دونوں صورتوں میں لوگوں کے سوالات سہتے ہیں۔ جس سے ہمارے گھر کا رہا سہا سکون بھی برباد ہوکر رہ گیا ہے۔

ہمارے ایک اور جاننے والوں کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹیوں کی شادی نہ ہوسکی تو بیٹے نے یہ کہہ کر کہ ”میں کیوں اپنا وقت برباد کروں“ پسند سے شادی کرکے ذمہ داریوں اور گھر سے رشتہ توڑ لیا۔ والد ریٹائرڈ ہوئے تو بیٹیوں نے بیٹے ہونے کا حق ادا کرنا شروع کیا چونکہ یہ سب لائق تھیں اس لئے اچھی ملازمت بھی مل گئی بوڑھے والدین کو سہارا ملا تو گھر کے حالات بھی بدلنے لگے اس دوران ہر طرح کی کوشش ہوئی کہ شادی ہوجائے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اب محلے والوں اور رشتے داروں کا کوئی کام نہیں سوائے اس کے کہ وہ یہ جتائیں بیٹیوں کی کمائی کھا رہے ہیں، نہ بیچاریوں کا گھر بس سکا نہ کچھ بن سکا آخر کب تک ان سے نوکری کر وائیں گے؟ کسی نے کہا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کی شادی اسی لئے نہیں کی کہ انھیں تو بیٹی کے پیسے کھانے کی عادت ہوگئی، تو کسی نے آکر یہ پوچھ گچھ کی کہ آپ کی فلاں بیٹی گھر اتنے دیر سے کیوں آتی ہے؟ دوسرے شہر کے دوروں پر کیوں جاتی ہے؟ آخر کیا نوکری کرتی ہے؟ کتنا کما لیتی ہوگی؟ آپ کو کتنا دیتی ہے؟ اب تک تو کافی جائیداد بنا لی ہوگی؟ اب جب اس گھرانے کی بیٹیاں عمر کے اس حصے میں جا پہنچیں ہیں جہاں بالوں میں اترنے والی چاندی ہی ان کی بردباری اور احترام کی دلیل بن جائے۔ انھیں اپنی والدہ سے یہ سننے کو مل رہا ہے کہ اچھی ہوتی ہیں وہ لڑکیاں جو خود ہی کچھ کر کرا کے گھر تو بسا لیتی ہیں تم لوگوں سے تو یہ بھی نہ ہوا نہ ہم سکون سے جی سکتے ہیں نہ مر سکتے ہیں۔

ہمارے یہاں اب بھی اگر کوئی لڑکی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کرنے کی خواہش کا اظہار کرے تو اس کے گھر والے دنیا کے نکتہ نظر سے سوچنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ایک لڑکی کی بھی کچھ ضروریات ہوسکتی ہیں چاہے وہ جیب خرچ ہو یا کپڑے، یا پھر اس کی ذاتی استعمال کی اشیاءوہ ہر وقت ایک فہرست بناکر اپنے بھائی اور والد کے سامنے نہیں کھڑی ہونا چاہتی اور سب سے بڑھ کر ایک تعلیم یافتہ لڑکی کے ذہن میں یہ بات بھی ہوتی ہے کہ ایک نوکری جہاں اس کے حالات بدلے گی وہی اس کے اعتماد اور علم و فراست میں اضافہ بھی کرے گی۔ وہ ایک الگ بات ہے کہ کئی منزل کو پانے کی جستجو میں راہ بدل لیتی ہیں لیکن ان سب کے لئے بھی مشکلات کھڑی کردیتی ہیں جن کا راستہ اور منزل واضح اور ایک ہی ہوتا ہے کہ وہ برا وقت آنے پر کسی پر بوجھ نہ بنیں۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں کی بیٹیاں جیسے ہی بالغ ہونے کو آتی ہیں تو سماج کے ٹھیکیدار اس کے وارث بن کر سامنے آجاتے ہیں کتنی عجیب بات ہے کہ ایک لڑکی جس گھر میں پیدا ہوتی ہے وہاں تعلیم حاصل کرتی ہے اور جس گھر کے ڈرائنگ روم میں مہینہ میں تو کبھی سال بھر کئی کئی بار شادی کے مقدس بندھن میں بندھنے کے نام پر اجنبیوں کی کھا جانے والی نظروں کو تو کبھی سخت سوالات کو جھیلتی ہے وہیں کبھی ٹرالی کھینچ کھینچ کر لڑکے والوں کے سامنے ہونے والی شناختی پریڈ کے مرحلے سے بار بار گزرتی اپنا من اور تن چھلنی کرواتی ہے لیکن احتجاج نہیں کر پاتی۔ ایسی ہی لڑکی کو اپنے مستقبل کے لئے ایک اہم فیصلہ کرنے کے لئے یہ سننے کو ملتا ہے کہ دنیا کیا کہے گی؟

جیسے اس دنیا کی مرضی سے اس کا جنم ہوا ہو، ان کی مرضی سے وہ سانس لے رہی ہو لیکن اچانک سے تمام تر قابلیت اور اہلیت کے باوجود اس کے گھر والوں کے ہوتے ہوئے اس کے مالک دنیا والے ہوجاتے ہیں۔ جو کبھی اس کے والدین کو اس کی شادی میں تاخیر کو رشتوں کی بندش بتاتے ہیں تو کبھی یہ کہ نوکری نے اس لڑکی کو سرکش اور ضدی بنا دیا ہے۔ کبھی یہی لوگ اس لڑکی کی ماں کو نماز کے بعد وظیفے کی کوئی تسبیح تفویض کر دیتے ہیں تو کبھی احسان جتانے کے لئے کوئی ایسا رشتہ بھی بتادیتے ہیں جو پچھلے کئی ماہ سے پورے شہر کے حلوائیوں کے بنے سموسوں اور بیکریوں کے لوازمات کا مزہ چکھنے کے بعد فون پر دانتوں سے خلال کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ لڑکی سمجھ نہیں آئی یا استخارہ میں ہاں نہیں آئی۔

پچھلے ہفتے مجھے اس لڑکی سے مل کر بہت خوشی ہوئی جس نے بتایا کہ اس کے والدین کو بھی کچھ لوگ آخرت سنوارنے کا مشورہ دینے آئے تھے اور یہ جتا نے بھی کہ بیٹی کئی برسوں سے نوکری کر رہی ہے نہ جانے کیا کچھ جائیداد اور بینک بیلنس کی مد میں بنا چکی ہوگی خبر تو رکھیے زمانہ بہت خراب ہے اب تو اولاد بھی دھوکہ دے جاتی ہے تو ان کی والدہ نے اس بات پر نرمی سے جواب دیا کہ آج شام جب میری بیٹی واپس آئے گی تو میں اسے کہوں گی کہ آپ کا گھر کرائے کا ہے اتنے سارے فلیٹس میں سے دو چار آپ کو بھی دے دے آخر پڑوسیوں اور مستحق رشتے داروں کا بھی تو کچھ حق ہوتا ہے۔

میں نے سن کر زوردار قہقہہ لگایا لیکن ساتھ ہی سوچا کہ بے رحم معاشرہ معاف کسی صورت نہیں کرتا، اگر کوئی لڑکی اپنا گھر ٹوٹنے کے بعد واپس والدین کے گھر آتی ہے تو یہی عاقبت اندیش لوگ دلاسہ دینے پہنچتے ہیں اور ساتھ ہی کہتے ہیں بہن برا نہ منائیے گا افسوس تو بہت ہوا کیونکہ بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں لیکن آپ نے بھی جلدی کی بچی کی شادی میں کاش آپ کی بچی کوئی ڈگری لے لیتی تو آج باپ اور بھائی کے رحم و کرم پر نہ رہنا پڑتا وہ اس برے وقت پر اپنا بوجھ خود اٹھا لیتی۔ اب دیکھیں کیسے گزرتی ہے یہ پہاڑ جیسی زندگی۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar