پٹاری سے لاڑکانہ تک عورت نشانے پر ہے


گلی محلے میں جب کبھی خواتین نکلتی ہیں تو کیسے ٹھرے پہ بیٹھے چھڑے چھانٹ آوازے کستے ہیں؟ کبھی کبھی جب ہم ٹویٹر پہ کوئی بات کہنے نکلتے ہیں تو ہمیں بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ کوئی بات ہو، کوئی بھی بات ہو، چاہے آج ہم یہ ہی فضولیات کیوں نہ لکھ رہے ہوں کہ آسمان ذرا کم نیلا اور مکھن ذرا کم پیلا۔ کوئی نہ کوئی عزت دار حضرت آ کے ایک ایسا بے تکا رپلائی دیں گے کہ ہماری سمجھ میں آتا ہی نہیں کہ خود کو گولی مار دیں یا ان صاحب کی عقل کے بدلے ایک پاؤ دھنیا خرید لیں؟ ایسا لگتا ہے گھر سے نکلے ہیں اور کسی سڑک پہ چل رہے ہیں اور ہر جانب آوازے کسنے والے موجود ہیں۔ یہ ماجرا فلموں میں تو دیکھا ہوگا؟ ہم خاتون ہیں، ہم نے بذات خود ان حالات کا سامنا کیا ہے اور شاید اسی لئے سوشل میڈیا پہ ہونے والی لعنت ملامت کا موازنہ اسی تجربے سے کر رہے ہیں۔ جب گھر سے نکلتے اور کسی کی ’ہائے جان من ادھر تو آؤ‘ یا ’اکیلی جا رہی ہو؟ ہم چلیں؟‘ سنتے تو ہم نے ہمیشہ اپنے خاتون ہونے پہ لعنت ملامت کی ہے۔ آخر اللہ میاں نے ہمیں لڑکا کیوں نہ بنایا؟ لڑکے ہوتے تو جس سے جو مرضی کہہ دیتی، ہمیں صرف کسی اور لڑکے کے ہاتھوں پٹنے والی مار کا خوف ہوتا۔ اس کے علاوہ ہم دنیا میں جو مرضی کرتے، ہماری عزت اور ہماری شان پہ آنچ نہ آتی۔

ہراسگی کے حوالے سے کچھ دن پہلے ’می ٹو‘ نامی کیمپین چلی جس کے بعد کئی خواتین منظر عام پہ آئیں جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے حالات و واقعات پہ سے پردہ اٹھایا۔ بہت سارے لوگ بےنقاب ہوئے۔ کچھ حال پہلے ہی پٹاری میوزک نامی جانے مانے پلیٹ فارم کے سی ای او خالد باجوہ اور چند خواتین کے درمیان ہونے والی ہم کلامیاں سامنے آئیں۔ خالد صاحب کھلے دل سے لڑکیوں کو ان کی خوبصورتی اور حسن پہ تعریفیں جھاڑ رہے تھے ۔ یاد رہے کہ خالد صاحب شادی شدہ ہیں اور ایک چھوٹی سی بچی کے والد بھی ہیں۔ خالد کے بعد ٹویٹر پہ موجود حضرات کے پول کھلنے کا تانتا سا بندھ گیا اور لگاتار حضرات کی عزت تار تار ہوئی۔ خالد کے اہل خانہ اور باقی حضرات کے اہل خانہ سے ہمدردی ہوئی۔ مگر پھر ہماری نظر سے گزری ایک ایسی ویڈیو جس کو دیکھ کے ہم یہ سب باتیں بھول گئے۔

یہ ویڈیو نظر سے پوری بھی نہیں گزری گئی، بس یہ سمجھئے، خبر پڑھنے کی پھر بھی ہمت تھی، سو پڑھی۔ ثمینہ سندھو ایک 6 ماہ کی حاملہ عورت تھی جو اپنا پیٹ پالنے کے لئے گانا گاتی تھی۔ ایک وڈیرے نے نشے میں آ کے اس سے کہا کہ وہ کھڑی ہو کے گانا گائے۔ جب وہ کھڑی نہ ہوئی تو ظالم وڈیرے نے اسے گولی مار دی۔ ثمینہ کی عمر 22 سال تھی۔

پاکستان عجیب ملک ہے۔ یہاں عورت وزیر اعظم بھی بنتی ہے اور غیرت کے نام پہ قتل بھی ہوتی ہے۔ یہاں ماہرہ خان کی فلمیں اور ڈرامے ہٹ ہوتے ہیں مگر اس کی سیگرٹ پہ اسے گالیاں پڑتی ہیں۔ پٹاری میوزک کے سی ای او اپنی پوزیشن سے مستفید تو ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں پورا ٹویٹر دست و گریبان تو ہوتا ہے مگر ثمینہ سندھو کی خبر کہیں دب کے رہ جاتی ہے۔ خادم رضوی داتا دربار پہ پڑاؤ ڈالے بیٹھے رہتے ہیں مگر ان کے خلاف وارنٹ جاری ہیں۔ زینب نامی ایک چھوٹی سی بچی کے لئے عوام سڑک پہ آتے ہیں لیکن ہر روز کئی زینب لاپتہ ہو کے کسی بھیڑیے کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں اور ہم کروٹ  لے کے دوسری طرف منہ کر لیتے ہیں۔ لوگ عورتوں کو اسلام کا درس دیتے ہیں کہ کیسے انہوں نے ہراسانی کو دعوت دی لیکن شانگلہ میں جس ادھیڑ عمر شخص نے ایک 5 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کر کے اس کو موت کی بھینٹ چڑھایا تھا، وہ تو روزے سے تھا۔ اب روزے سے زیادہ اجتناب کیا کرتا؟ 5 سال کی بچی کسی کو کیا دعوت۔۔۔ میں یہ جملہ پورا نہیں لکھ سکتی۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے شور غل و ہنگامے کسی کام آ رہے ہیں؟ کیا ہم ایسے قوانین بنا رہے ہیں، کیا ہم ایسا معاشرہ بنا رہے ہیں، کیا ہم ایسے گھر ترتیب دے رہے ہیں، جس میں ہراسگی، جنسی تشدد اور ایسے خبیث انسانوں کی پہچانوں کو سمجھنے میں ہمیں اور ہماری بچوں اور بچوں کو مدد ملے؟ کیا ہم ماں باپ اپنے بیٹوں کو تمیز اور تہذیب سکھ رہے ہیں؟ کیا ہمارے بھائی اپنے بھائیوں اور دوستوں میں جا کے ایک دوسرے سے مناظرہ کر رہے ہیں کہ آخر مرد ہراسانی کیوں کرتے ہیں؟ کیا ہمارے بیٹے اپنے سکول کالجوں میں جا کے یہ سیکھ رہے ہیں کہ آفس میں رہ کر کس سے کیا بات کرنی چاہیے اور کیا نہیں؟ کیا ہمارے سیاستدان ایسی تقریریں کرتے ہیں جس میں عورت کی عزت اور عظمت کا ذکر ہو؟ کیا ہماری افواج میں خواتین کا تناسب بڑھایا جا رہا ہے؟ کیا ہمارے ٹیلی ویژن چینلوں پہ خواتین کو محض ایک شو پیس بنانا بند کیا جا رہا ہے جو دانشوارانہ باتوں پہ صرف سر ہلاتی ہیں یا بھدے اور بھونڈے جملوں پہ ٹھٹھا مارتی ہیں؟

اگر ہاں۔ تو تبدیلی واقعی آ رہی ہے۔ اور اگر نہیں، تو میرا اگلا بلاگ بھی اپنے خاتون ہونے پہ لعنت اور ملامت سے بھرپور ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).