مشال خان شہید کا منظور پشتین کے نام خط


منظور پشتین- اللہ سے اپ کی صحت نیک مطلوب ہے۔ یہاں پر آئے ہوئے مجھے آج ایک سال کا عرصہ بیت گیا۔ بہت سارے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئی لیکن ایک شخص سے مل کر تو بہت مسرت ہوئی اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ میرا اور اپ کا بابا باچا خان ہے۔

شام کے بعد قہوہ پیتے پیتے جب بابا نے کہا کہ “مشالہ بچے، تمھارے قتل کے بعد وہاں پر میرے نام پر ووٹ لینے والوں نے تمھارے قاتلوں کو رشکئی انٹر چینج پر ہیروز کی طرح خوش آمدید کہا تو میرے لئے یہ سب کچھ نیا نہیں تھا۔ لیکن اس پر افسوس بھی بہت ہوا کہ اج سے لگ بھگ 100 سال پہلے جو عدم تشدد کی تحریک خدائی خدمتگاروں نے شروع کی تھی پختون ابھی تک اس پر مکمل طور پر عمل پرا نہیں ہوسکے۔ حمایت اللہ مایار اور حیدر خان ہوتی تو ہر جگہ میرا نام لے کر ووٹ مانگتے ہیں لیکن انہوں نے بھی تمھارے قاتلوں کو اپنے حجرے میں بلا کر شاباش دی۔ “

“لیکن مشالہ بچے۔ تم خفا نہ ہو۔ ہر دور میں ایک باچا خان ضرور جنم لیتا ہیں۔ اور اس دور کا باچا خان وزیرستان سے جنم لے چکا ہے۔ اس دور کا باچا خان منظور پشتین اور محسن داواڑ ہیں۔ ان دونوں نے میرے نام پر ووٹ لینے والوں کو برے طریقے سے ننگا کر دیا۔ یہ سروکئی کا نوجوان اب قوم پرستوں کو بتائے گا کہ قوم کے لئے اصولی موقف کیسے اختیار کیا جاتا ہے۔”

منظور رورہ۔ میں نے بابا سے یہ بھی پوچھا کہ بابا منظور کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو سکتا ہیں جو آپ کے ساتھ انگریزوں اور ریاست پاکستان نے کیا تھا۔ منظور کو بھی غداری کا سرٹیفیکٹ دے کر جیل بھجوایا جا سکتا ہے تو اس پر بابا نے کہا کہ مشال خانہ، منظور اگر جیل بھی چلا جاتا ہیں تو کامیاب ہی ہو گا۔ منظور ناکام صرف ایک صورت میں ہو سکتا ہے۔ بابا اس بات کے ساتھ چپ ہو گیا۔ اور انکھوں میں انسو بھی اگئے۔ میں بھی خاموش رہا۔ بابا مسلسل ماضی کے جھروکوں میں خود کو گھمانے کی کوشش کر نے لگے۔ تب میں نے بابا سے کہا کہ بابا بتائیے نا۔ منظور کیسے اور کب ناکام ہو سکتا ہے۔ تو بابا نے کہا۔ زما بدبختہ زویا۔ منظور سر پر کفن رکھ کر میدان میں نکلا ہے۔ اس کے ساتھ لوگ بہت کم ہے۔ لیکن مقصد زندہ ہے۔ اس کے ساتھی جیسے محسن دواڑ اور جن کے لئے منظور لڑ رہا ہیں اگر اس کے ساتھ ڈٹے رہے تو میرا خدشہ غلط ثابت ہوگا۔ لیکن بچیا، ایسا نہیں ہو گا۔

میرے ساتھ جو ہوا تھا۔ منظور کے ساتھ بھی وہی ہوگا۔ منظور کو اپنے ہی لوگوں میں میر جعفر اور میر صادق ملیں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو منظور کو ہندوستانی اور افغانی ایجنٹ کا خطاب دیں گے۔ جس دن اس پر اپنے ہی لوگوں نے یہ الزام لگا دیا منظور مر جائے گا۔ منظور فنا ہو جائے گا۔

پشتین رورہ۔ بابا بہت غمگیں حالات میں اپنے حجرے کی طرف روانہ ہوئے۔ میں بھی ساتھ تھا۔ راستے میں بابا کا بڑا بیٹا عبدالولی خان ملا۔ عبدالولی خان نے حال چال کے بعد کہا کہ مشالہ بچے۔ منظور پشتین کو میری کچھ تجاویز بجھوا دو۔ اس سے کہو کہ جذبات کو کنٹرول میں رکھے۔ ہندوستان کو انگریزوں سے حاصل کرنے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں ہم سب نے۔ پھر اس ملک کو ایک متفقہ آئین بھی دیا جس میں پختون لیڈر شپ کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ہمیں ریاستی اداروں کی عزت کرنی چاہئے۔ ہماری آرمی خود یہ مان رہی ہیں کہ افغان لڑائی میں گھس کر ہم نے غلطی کی تھی۔ بیٹا اب وہ اس غلطی کو سدھار رہے ہیں۔ انہی کی کوششوں سے پختونخواہ اور پنجاب میں امن واپس آیا ہے۔ اب جب کہ انہوں نے غلطی تسلیم کر لی ہیں تو باچا خان کی طرح درگزر سے کام لو۔ باچا خان اور گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے پر کاربند رہو۔ آرمی کے ساتھ ساتھ سویلین حکومت پر بھی زور ڈالو۔

 اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن پر زور ڈالو کہ وہ کیوں فاٹا کو آئینی حثئیت نہیں دے رہے۔ جو سیاستدان فاٹا کے حقوق کے لئے لڑ رہے ہیں ان کو مزید مضبوط کرو۔ اپنی لڑائی صرف آرمی تک محدود نہ رکھو۔ اس تمام غلطیوں کی ذمہ داری صرف آرمی پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ سیاستدان اس میں پورے شریک ہیں۔ منظور پشتینہ بچے۔ جذبات کو کنٹرول میں رکھو۔

منظور پشتین رورہ۔ بس یہی باتیں اپ سے کرنی تھی۔ ایک درخواست اور کرون گا کہ جب کوئی جلسہ کرو تو ہر جلسے میں پختونوں کو مذہبی شدت پسندی سے دوری کا سبق دو۔ ان کو نصحیت کرو کہ کسی کو مذہب کی آڑ میں ہجوم کی شکل میں قتل نہ کریں۔ ان کو مزید مشالوں کے بجھانے سے منع کرو۔ ان سے یہ بھی کہو کہ میرے بابا (اقبال لالہ) بہت اداس ہے۔ وہ اگر ملالہ سے مل رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مغربی ایجنٹ ہے۔ وہ باچا خان کا سپاہی تھا، ہے اور رہے گا۔

وسلام۔ ٹولو یارونو تہ سلام وایہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).