عورت، بنیاد پرستی اور جدید مسلم معاشرہ  


\"taqiچین کی قدیم کہاوت کے مطابق ایک خلا انڈے کے روپ میں تھا- جس کے پھٹنے سے زمین  اور آسمان بنا- یہ پہلی عورت اور پہلا مرد تھا- یہ بھی کہا جاتا ہے عورت زمین سے زیادہ قریب ہے-

مرد اور عورت کے درمیان موجود بیشتر فرق ہزاروں سال کے دوران پیدا کیے گئے ہیں ایسے فرق فطری نہیں ہیں- تاہم کچھ  ایسے فرق ہیں جو انھیں منفرد حسن اور انفرادیت عطا کرتے ہیں، ایسے فرق کو بآسانی جانا جا سکتا ہے-

مرد اور عورت کے درمیان اولین فرق یہ ہے کہ عورت زندگی کو تخلیق کرنے کی اہل ہے مرد ایسا نہیں کر سکتا- اس اعتبار سے وہ کمتر ہے اور اسی کمتری نے عورتوں پر مردوں کی برتری قائم ہونے میں اہم کردارادا کیا ہے- مرد صدیوں سے عورتوں کی صلاحیت کو برباد کر رہا ہے تاکہ اپنے سامنے اور دنیا کے سامنے خود کو وہ برتر ثابت کر سکے-

عورت کا اخلاق پست کرنے میں مرد کا ہاتھ ہے اور مکروفریب اور بیوفائی کا الزام لگانے میں فلاسفر، فنکار، ادیب، مصلحین اخلاق مقنن، اور شاعر برابر کے شریک ہیں- ہم ذیل میں چند اقوال درج کرتے ہیں-

عورتیں شیطان کی بیٹیاں ہیں- (ادرنجن)

عورتیں غلاظت کا پلندہ ہیں- (برنارڈ ولی)

خدایا تیرا شکر ہے کہ مجھے مرد بنایا- (افلاطون)

جب قدرت کسی مرد کو بنانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو اسے عورت بنا دیتی ہے- (ارسطو)

عورت صغر سنی میں باپ کی مطیع ہو،جوانی میں شوہر کی اور شوہر کے بعد بیٹے کی- کوئی عورت ہرگز اس لائق نہیں کے خود مختاری کی زندگی گزار سکے – (منو)

کمزوری تیرا نام عورت ہے- (شیکسپیئر)

گھوڑا اچھا ہو یا برا اسے مہیمز کرنے کی ضرورت ہے- عورت اچھی ہو یا بری اسے پٹائی کی ضرورت ہے- (اطالوی ضرب المثل)

محمد بوٹیا رن دی ذات ڈاہڈی، متے ہسدی ویکھ کے بھل جاویں- (پنجابی شاعر)

عورتوں کو محکوم بنانے میں مذھب کو بھی ایک موثر آلہ کے طور پر استمال کیا جاتا ہے- عورتوں کو سیاسی اقتدار سے دور رکھنے کے لیے صرف عورت کے جسم ہی کو توجہ کا مرکز بنایا جاتا ہے- عورت کے جسم کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے جیسے ساری نسل انسانی کے اخلاق زوال کا سبب یہی جسم ہے- عورتوں کے خلاف جو مہم شروع کی گئی ہے اس نے بعض نام و نہاد مذہبی جماعتوں کو مذہب کے نام پر اپنی سیاست چمکانے اور خود کو مذھب کا چیمپئن کہلانے کا موقع دے دیا ہیں-

\"Fatima-Mernisi4\"اب تو ایسے لگتا ہے کے پاکستان میں بھی احیاۓ مذہب کا زبردست جوش و جذبہ نظر آرہا ہے اور یہ مطلبہ زور پکڑ رہا ہے کہ اسلامی نظام کا احیا کیا جائے اور \”اصل اسلامی معاشرہ\” کی طرف لوٹ جانا چایے –

ایران، سعودیہ عرب اور پاکستان ہر معاشرہ میں شدت پسند نظریات، اور مذھب کی بنیاد پر کی جانے والی سیاست کے بیج پڑ گئے ہیں- ایک طرف سیکولر نظام کے حامی ہیں جن کا خیال ہے کہ معاشرہ کی تمام بیماریوں کا علاج سیکولر نظام میں ہے اور دوسری طرف احیاۓ اسلام کے حامی جنہیں مذہبی بنیاد پرستوں کا نام دیا گیا ہے- موجودہ دور میں عورتوں پر جو چیز سب سے زیادہ اثر نداز ہو رہی ہے وہ بنیاد پرستی، مذہبی انتہا پسندی اور قدامت پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر ہے-

مذھبی نام و نہاد مرد اس احساس اب ایسی صورت حال میں مبتلا ہیں کہ ان کے مفادات غیر بنیاد پرست عورتوں کے مفاد سے ٹکراتے ہیں-

ایک جدید ماہرعمرانیات فاطمہ مرنیسی نے موجودہ اسلامی معاشروں میں عورتوں کے مقام پر کافی تحقیق کی ہے- انہوں نے اپنی کتاب \”عورت اور اسلام\” میں لکھا ہے کہ مسلم ملکوں میں عورتوں کے انسانی حقوق غصب کرنے کے لیے دینی کتابوں کی تشریح و تفسیر اپنی مرضی کے مطابق کی گئی ہے اور تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے- مرنیسی کا خیال ہے کہ اسلام کے صحیح پیغام نے جو کامل مساوات کا پیغام ہے- توہمات اور فاسد خیلات سے معمور ساتویں صدی کے معاشرہ پر سطحی اثر ڈالا تھا اور وہ معاشرہ دنیا اور عورت کے بارے میں اسلام کے جدید رویہ کو ہضم نہیں کر سکا تھا۔

ناول نگار سیمون دی باوا اپنی کتاب \”سیکنڈ سیکس\” میں لکھتی ہیں کہ عورت مرد کے جبری استبداد کا شکار ہے اور یہ جبر ہر مذہب نے مرد کے تصور میں کسی نہ کسی صورت میں پیدا کر رکھا ہے جسے عورت نے خود اس تصور کو قبول کر کے سنگین غلطی کی مرتکب ہوئی ہے۔ عورت کے صنف نازک ہونے اور اس کی نفسیات کی جو متھ صدیوں سے چلی آ رہی ہے اس نے عورت کو پوری طرح آزادی سے زندگی گزارنے کی اجازت ہی نہیں دی-

پاکستان کی تاریخ میں اسی (80) کی دہائی ایک خصوصی اہمیت کی حامل ہے یہی وہ وقت تھا جب اس ملک کی خواتین کو قانون کی نظر میں غیر مساوی قرار دے دیا گیا –

حدود آرڈیننس کو عورتوں کے خلاف جنس کی بنیاد پر امتیازی تفریق کرنے کے ایک ذریعے کے طور پر نافذ کیا گیا- جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورت ذاتی ملکیت کے جنم لینے کے ساتھ ہی عورت اپنے باپ یا شوہر یعنی کسی مرد پر انحصار کرنے لگ گئی، انھیں روحانی اور ذہنی طور پر غلام بنا لیا گیا اور ان فرائض منصبی کو محض گھریلو کام کاج تک محدود کر دیا گیا-

مگر اب بھی پاکستان جیسے جدید مسلم معاشرہ میں اگر مذہبی ٹھیکدار بنیاد پرست شریعت کی آڑ لے کر عورتوں سے پردہ کا مطلبہ کرتے ہیں اور گھروں میں رهنے، معاشی طور پر محروم کرنے اور اس سے راۓ دہی کا حق چھیننے کے لیے ہر قسم کے مذہبی اور تاریخی حوالے سامنے لاتے ہیں حتیٰ کہ احکام قرآنی کو بھی اس مقصد کےلیے غلط طریقوں سے پیش کیا جا رہا ہے-

\"Simone-de-Beauvoir-2\"سوشل میڈیا، ٹاک شوز، نصاب اور دوسرے ذرائع ابلاغ ہی عورت کو اور باتوں کے علاوہ کمتر، کمزور، متحاج، بے عقل، فیصلہ نہ کر سکنے والی، توہم پرست، تقدیر پسندانہ، بے کار ہستی کے طور پر پیش کریں گے تو ہم اپنی خواتین بالخصوص جلد متاثر ہونے والی ذہنوں کی مالک کم عمر بچیوں سے کیا بننے کی توقع رکھیں گے؟

جیسے جیسے عورتوں میں سیاسی شعور ابھر رہا ہے اس طرح عورتیں اپنی ذات اور شناخت کو تاریخ کی تاریکیوں سے نکال کر دیومالائی قصوں سے پاک کر کے اجا گر کر رہی ہیں-

جدید مسلم معاشرہ میں عورت چار دیواری سے سے نکل کر کھلی دنیا میں آگئی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ خود کو مذہبی فرسودہ روایات سے آزاد کرا کے سماجی، ثقافتی اور اخلاقی طور پر خود کو مستحکم کر رہی ہے-

آج بھی لڑکیوں کی تعلیم کو مذھبی ہتھکنڈے استعمال کر کے محدود کیا جا رہا ہے مگر اس کے باوجود اس نے اپنی بقا کی جنگ لڑی اور تاریخ میں ایک طاقت کی حثیت سے خود کو برقرار رکھا ہے-

جدید مسلم معاشرہ میں عورت کو مساوی حقوق دینے سے نہ صرف عورت آزاد ہوگی بلکہ یہ معاشرے کو ایک نئی توانائی دے گی اور عورت کی صلاحیتیں جو اب تک چار دیواری میں قید تھی وہ کھل کر سامنے آئیں گی اور پورے معاشرے کو ایک نئی زندگی دیں گی-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments