زرا سا جھوم لوں میں


شادی میں ایک ماہ رہ گیا تب انہوں نے بتایا کہ یہ شراب پیتے ہیں۔ کمالِ خوش دلی سے ہم نے کندھے اچکا دیے۔ مگر اندر ہی اندر اپنے اس کو لیگ کا محض اسی نگوڑی شراب نوشی کی وجہ سے رشتہ مسترد کرنے پر افسوس کر رہے تھے، جس کی تو اپنی زمینیں بھی تھیں۔ خیر زمینوں کے تو یہ بھی مالک ہیں لیکن یہ زمینیں اکثر تنازعات کا شکار رہتی ہیں۔ کبھی یہ کسی کی زمین ہتھیا لیتے ہیں تو کبھی کوئی دوسرا شاعر ان کی غزل کی زمین پر ہاتھ صاف کر جاتا ہے۔ یہ زمینیں کاغذ کی حدود سے نکل ہی نہیں پاتیں۔ خیر افسوس تو ہمیں اس دن بھی ہوا جب ان کی لمبی ٹانگیں دباتے ہمیں نیند آنے لگی سوچا، اپنی فرحت کے بھائی کا رشتہ اس کے چھوٹے قد کی وجہ سے کاہے منع کردیا۔ دباتے وقت چھوٹی سی ٹانگیں کم از کم جلدی توختم ہو جا تیں۔

خیر اب اس میں کچھ ہمارے دماغ کا بھی خلل ہے۔ سوچا تھا ایسے شخص سے شادی کریں گے جس کا تعلق اعلیٰ خاندان سے ہو، اور گھر میں کتابیں ہی کتابیں ہوں۔ اب گھر میں ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں بھی تھیں کیوں کہ کرائے کے گھر میں الماریاں کہاں کہاں اٹھائے پھرتے۔ اب اعلیٰ خاندان، امیر بھی ہو ایسا کم کم ہو تا ہے۔ ہندستان سے آنے والے تو شان و شوکت چھوڑ کے، خاندانی نسب ہی ساتھ لاسکے۔ اور جن کے پاس یہ دونوں چیزیں نہ تھیں، انہوں نے شان کے لئے اپنے نام کے ساتھ کوئی ذات چپکا لی اورجعلی کلیم میں شوکت حاصل کر لی۔
کتابیں اتنی تھیں کہ ایک معصوم خاتون نے سوال کر دیا آپ کے میاں بک سیلر ہیں؟

ہاں تو بات ہو رہی تھی شراب کی، ہمارے کندھے اچکانے کو انہوں نے شاید نو آبجیکشن سے تعبیر کیا۔ لیکن شادی میں ایک ماہ رہ گیا تھا، اب جھگڑا مول لینے یا وعدہ وعید کرنے کو شادی کے بعد ٹائم پاس کے لیے بہت وقت پڑا تھا۔ اس لیے خاموش رہے۔ مگر اس ایک ماہ میں انہوں نے اپنے دوستوں میں اڑا دیا کہُ ان کی بھابی جی براڈ مائنڈیڈ ہیں۔

ولیمے والے دن ہم ان کے دوستوں کے اعلیٰ اخلاق کے مداح ہو گئے جس کو دیکھو ادب احترام سے جھک جھک کر مل رہا ہے۔ اپنی بیوی سے ہماری تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا ہے۔ سب کی کو شش تھی کہ ہم ان کی بیویوں کو کچھ سکھائیں۔ مگر کیا سکھائیں اس کا اندازہ ہمیں چو تھے روز ہی ہو گیا۔ جب ڈرائنگ روم سے کسی کے ہنسنے اور کسی کے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ کوئی جھگڑا کر رہا تھا تو کوئی کسی کے قصیدے پڑھ رہا تھا۔

دو گھنٹے بعد ڈرائنگ روم میں خاموشی چھا گئی۔
میاں کمرے میں آئے تو پوچھا۔
آپ نے پی؟
انکار میں سر ہلا دیا۔
ہم نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا تو بولے : تمہاری طرف سے کو ئی واویلا نہیں کیا گیا تو پینے کی جانب طبیعت مائل ہی نہیں ہوئی۔

یہ سارے دوست اپنی بیویوں سے چھپ کر کہیں بھی، کسی بھی جگہ پی لیتے ہیں جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ تمہیں شراب پر کوئی اعتراض نہیں تو یہاں سکون سے پینے کے خیال سے آگئے۔
ہم نے انہیں فلموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فلموں میں تو شراب پینے کے بعد گلاس توڑے جا تے ہیں، کافی ہنگامہ کیا جا تا ہے لیکن یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا؟

کہا، فلموں میں تو اصل کہانی کی جانب مائل رہنے کے لیے شراب کا ردِ عمل دکھایا جاتا ہے لیکن اصل میں شراب پی کر ہر انسان کی اصلیت سامنے آجاتی ہے۔ اگر کو ئی بہت خوش ہے تو شراب پی کر ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔ اگر کوئی تحمل مزاج ہے تو خاموش ہو جاتا ہے۔ اگر زود رنج ہے تو رونا شروع کر دیتا ہے۔

ہم نے کہا پھر اسلام میں شراب حرام کیوں ہے؟
کہنے لگے اس کی وجہ سے بہت سے غیر ضروری دوست اکٹھے ہو جاتے ہیں شراب کا نشہ انسان کو بے حس کر دیتا ہے۔ انہوں نے کچھ مشہور شعرا کا نام لے کر کہا کہ، ان کی ازدواجی زندگی شراب نوشی کی وجہ سے ہی تباہ ہو ئی۔ اگر شراب پینے کے پیسے نا ہوں تو اس کے لالچ میں انسان کسی بھی گھٹیا انسان سے دوستی کر لیتا ہے۔ بہت سے تخلیق کاروں کو شرابی دوستوں کی صحبت اور حد سے زیادہ شراب نے تباہ کیا۔ اور بہت سے دولت مند اپنی دولت گنوا بیٹھے۔ اگر آدمی شراب سے چھٹکارہ بھی حاصل کرنا چاہے تو اس کے ساتھی ایسا ہو نے نہیں دیتے۔ یوں شراب کی لت اچھے بھلے انسان کو نفرت انگیز بنا دیتی ہے۔ اسی لیے ہمارے مذہب میں اسے حرام اور دوسرے مما لک میں اسے پی کے بے قابو ہونا جرم قرار دیا گیا ہے۔

سردیوں کے دن تھے۔ ہفتے میں دو مرتبہ دوستوں کی محفل جمتی، کوئی دو گھنٹے ہلہ گلہ رہتا، اور پھر خاموشی۔ کیوں کہ یہ اب ہمارے کسی احتجاج کے بغیر ہی کوئی شغل نہیں کرتے تھے۔ البتہ اندر سے ہماری سیتا پھڑک کر باہر نکل کر اخلاقیات کا درس دینے کی کوشش کرتی، کبھی سوچتے ان کی بیگمات کو بتا دیا جائے۔ کہ ان کے شوہرِ نامداران، ان کی شاعری سننے نہیں اپنے غم دور کرنے آتے ہیں۔ لیکن کچھ بھی نہ ہو سکا ہم سے اورہم نے ان کے دوستوں کے بے پناہ خوشامدی اخلاق کے زیرِ اثر آکر منافقانہ خاموشی اختیار کی۔
کچھ دنوں بعد والد آئے اور ہم سے پوچھنے کے بجائے کہ بیٹا سسرال میں کوئی تکلیف تو نہیں، خوش ہو؟

ان سے اور گھر والوں سے مخاطب ہو کر پوچھا اس سے کو ئی شکایت تو نہیں، ضد تو نہیں کرتی؟ کھانے پینے میں نخرے تو نہیں؟ لڑتی ہے؟ غصہ؟ وغیرہ وغیرہ قسم کے سوالات؟ اور ہر سوال کا جواب نفی میں ملا تو مایوس ہو کر ہم سے بولے کیا وہ سب ہمارے لیے تھا؟ اور ہم لاڈ سے ان کے گلے لگ گئے۔

ایک صبح ہم ڈارئنگ روم میں داخل ہو ئے تو آدھی بوتل صوفے کے نیچے دکھائی دی۔ اٹھا کر کونے میں رکھ دی۔ شام میں ہم دونوں کا کہیں جانے کا پروگرام طے تھا، مگر رات ہو گئی اور یہ گھر نہیں آئے، ہمارا غصے کے مارے برا حال ہو گیا۔ جی چاہتا تھا اپنا سر دیوار سے دے ماریں۔ ایک خیال بجلی کی طرح کوندا۔ کونے سے بوتل اٹھائی اورایک گھونٹ لیا۔ توبہ کھانسی کے شربت کی طرح کڑوی۔ لیکن غصہ بہت تھا چنانچہ انتقام کی غرض سے چار پانچ گھونٹ اور لیے۔ اب پی تو لیا لیکن خوف ہوا کہ جیسا جو ہوتا ہے باہر نکل آتا ہے۔ ہم تو اپنے اماں ابا کے گھر غصے کے تیز مشہور تھے۔ سوچا نشہ چڑھے گا تو کہیں چلا نا نہ شروع کر دیں اپنے منہ پر کپڑا لپیٹ لیا۔ اور کمرہ بند کر کے دبک کر بیٹھ گئے۔ اور پتہ نہیں کب نیند آگئی۔ دستک کی آواز پر آنکھ کھلی تو ایک کی جگہ دو دو سیڑھیاں پھلانگ کر دروازہ کھولا۔ غصہ بالکل نہیں کیا بس ضد پکڑ لی کہ ابھی میکے جانا ہے۔
یہ تو پہلے ہی تائب ہو چکے تھے، اور ہمارے گھر کا ڈرائنگ روم بھی مست قہقہوں اور آہ وزاری سے محروم ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).