سب کچھ بیچ ڈالنے والے سیاسی لٹیرے


ایک وقت وہ بھی تھا جب سیاست کو عبادت کی طرح سمجھا جاتاتھا جب سیاست میں آنے کا اصل مقصد پسے ہوئے مظلوم طبقے کی آواز بنکر عوام کے دیرینہ مسائل کو حل کرکے ان کی خدمت کرنے کا جذبہ ہوا کرتا تھا۔ یہ وہی دور تھا جب سیاست عبادت ہوا کرتی تھی جس کی بنا پر دو قومی نظریے کی بنیاد پڑی اور پاکستان جیسا انمول ملک وجود میں آیا۔ اس وقت سیاست تہذیب و تمدن اور اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہواکرتی تھی نظریات معنی رکھتے تھے اور ذاتی مفادات کاکوئی وجود نہ تھا۔ وقت بدلا حالات بدلے سیاست کے انداز بدلے۔ پھر اب یہ وقت آیا کہ سیاست ایک کاروبار بنی اور صرف اور صرف اقتدار کے حصول کی جنگ نے اخلاقیات اور نظریات کو پس پشت ڈال ڈال دیا گیا ہے سیاست کو مختلف گروہوں کی لڑائی بنا دیا گیا ہے اور آپس کی الزام تراشیوں کو سیاسی نعروں کا درجہ دے دیا گیا۔

مختلف مفاد پرست گروہوں کو سیاسی پارٹیوں کا نام اور ان کی اس ذاتی جنگ کو سیاسی جدوجہد کا نام دے کر عوام کو بےوقوف بنانے کاذریعہ بنا یا گیا اور پھر جو جیتا وہ پانچ سال کے لئے ملکی وسائل پر قابض ہوا اور شکست خوردہ قابض طبقے کو مسند اقتدار سے گرانے کا درپے ہوا۔ اور عوام کا کام ان دونوں طبقوں کو ایک دوسرے کو رسوا ہوتے دیکھ کر تماش بین کی طرح تالیاں پیٹتے رہنا رہ گیا۔ پاکستان کی حالت دیکھ کر اللہ کی وحدانیت پر یقین کامل ہوجاتا ہے۔ بلاشبہ یہ ملک صرف اللہ بھروسے ہی چل رہا ہے۔ اداروں اور سیاستدانوں کا کردار صرف عوام کو لوٹنا قرار پایا۔ انتخابات ہوتے ہیں اقتدار منتقل ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی آپسی جنگ کاآغاز ہوجاتا ہے۔

گزشتہ دس سال سے تو ایسا ہی کچھ ہورہا ہے۔ ایک حکومت بنتے ہی اس کے گرنے کی پیش گوئیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اور پھر ایک جانب سے الزامات کا نہ رکنے والا سلسلہ اور دوسری جانب سے سازش کا راگ الاپا جانے لگتا ہے پھر ملک نازک دور سے گزرتا ہے اور حکمراں جماعت پانچ سال ایسے گزارتی ہے اور انتخابات سے کچھ ہی ماہ قبل ہی اگلے انتخابات میں اس کیپارٹی اپنے ہی ایم این ایز اور ایم پی ایز کو دوسری کسی جماعت میں ہجرت کرتے دیکھتے ہیں جن کے ضمیر اچانک جاگ جاتے ہیں اور وہ حیران کن طور پر فوری نظریاتی ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کے دکھ درد اور ان کے مسائل کے حل کےلئے پریشان دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اور حکمران جماعت جو تقریبا پانچ سال تک انہیں اپنا بنانے کے لئے عوام کے ٹیکسوں سے عوام پر خرچ ہونے والے فنڈز ان ایم این ایز ایم پی ایز پر بے دریغ لٹاتی ہے نہ کوئی حساب نہ کوئی کتاب۔ وہ ان پنچھیوں کو دوسرے گھونسلے میں بسیرا کرتے دیکھ کر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی ہے۔

ایسا ہی کچھ اس بار الیکشن سے قبل ہورہا ہے پانچ سال کی سیاسی وفاداریاں تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں اس خرید و فروخت میں اس وقت تک سب سے زیادہ متاثر حکمراں جماعت ن لیگ اور ایم کیو ایم ہے تو دوسری جانب پی ایس پی اور تحریک انصاف ان بیچارے نظریاتی اور عوام کے خیر خواہوں سے فیضیاب ہونے میں پیش پیش ہیں۔ مصطفی کمال کے قافلے میں کمال تیزی سے اضافہ ہورہا ہے تو کپتان کی تبدیلی عین عام انتخابات سے قبل اچانک ان مفاد پرستوں کے ضمیر کو جنجھوڑ رہی ہے جو انتہائی حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کے کردار کو عوام کے سامنے اور بدنماکرتی دکھائی دیتی ہے۔ مگر سمجھدار کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ جو کمال کے قافلے میں جارہے ہیں انہوں نے ووٹ اپنی ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ متحدہ کے پلیٹ فارم اور بانی ایم کیو ایم کی بدولت حاصل کیے اور مصطفی کمال بھی اپنی نظامت کے جو قصے سناتے ہیں وہ نظامت بھی ایم کیو ایم کی بخشی ہوئی تھی۔

یا یوں کہا جائے کہ ایم کیو ایک اگر کرپٹ ہے بھتہ مافیا یا ملک دشمن ہے تو مصطفی کمال بھی اسی کا حصہ رہے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک وہ اور انیس قائمخانی ہی دودھ کے دھلے اور باقی سارے جو ان کی پارٹی میں آجائیں وہ سب پاک صاف جو نہ آئیں وہ ملک دشمن اسی طرح جو پچھلے کئی سالوں سے ن لیگ اور میاں نواز شریف کے چاہنے والے تھے یا پیپلز پارٹی کے جیالے۔ وہ کیسے آخر وقت میں خانصاحب کی تبدیلی کے ہمسفر ہوسکتےہیں جو اچھے وقت میں اپنی پارٹیوں کے ہمدرد رہے ان کا بھرپور دفاع کرتے رہے کسی دوسرے فلسفے سے متاثر نہ ہوئے وہ اب اپنی پارٹی کے مشکل وقت میں کیسے اپنے مخالفین و ناقدین سے بغلگیر ہورہے ہیں۔

عامر لیاقت کی مثال سب کے سامنے ہے ایک ہفتے قبل تک عمران خان کے نکاح سمیت ان کی طرزسیاست کے شدید نقاد تھے آج تحریک انصاف کا ہراول دستہ ہیں؟ تو آج کے سیاسی چیمپئن صحیح تو کہتے ہیں کہ سیاست میں کبھی کچھ حرف آخر نہیں ہوتا نہ سیاستدان کی زبان کی اہمیت ہوتی ہے نہ کردار کی نہ وفا کا کوئی پیمانہ ہوتا ہے نہ نظریات کوئی معنی رکھتے ہیں۔ اب سیاست کا مقصد صرف اورصرف چڑھتے سورج کی پوجا ہے یا مفادات کی سوداگری۔ سب کچھ بکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).